۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
News ID: 377135
8 فروری 2022 - 14:43
مولانا سید اشھد حسین نقوی

حوزہ/ امام خمینی (رہ) کے کردار اور طرز عمل کی خوبصورتی و حسن سے عوام میں مختلف طبقہ کے لوگ اپ کے گرویدہ تھے، سرزمین ایران کی باغیرت، مقتدر اور دیندار قوم نے بھی جب مرجع عظیم الشان تقلید حضرت روح الله الموسوی الخمینی (رہ) کی گفتار و کردار میں صداقت، اخلاص اور سچائی دیکھی تو مکمل طور سے اپ کے ہمراہ ہوگئی۔

تحریر: سید اشھد حسین نقوی

حوزہ نیوز ایجنسی | امام خمینی (ره) کی پیروی اور اطاعت کا سرمنشاء و مرکز اپکی اخلاقی، قرانی اور اسلامی شخصیت ہے کہ اگر کوئی عہدیدار، منصب دار اور ذمہ دار طبقہ عوامی محبوبیت سے ہمکنار ہونا چاہتا ہے تو اسے اپ کی رفتار و گفتار و کردار پر توجہ اور عمل کرنا چاہئے ۔

انقلاب اسلامی ایران کی پیروزی میں سب سے اہم اور بنیادی کردار حضرت امام خمینی (قدس ‌سره) کا ہے، اپ ایک ایسے رہبر اور لیڈر ہیں جس نے اپنے اخلاق، کردار اور گفتار سے لوگوں کے دل جیت لئے اور لوگوں کو اپنی شخصیت کا گرویدہ بنا لیا، اپ نے اپنے وسیع نظریات، افکار و بصیرت کی طاقت سے عوام کو اپنے ارد گرد اکٹھا اور یکجا کر کے ایران کے ۲۵۰۰ سالہ شہنشاہی نظام حکومت کا تختہ پلٹ دیا اور محمد رضا شاہ اپنی تمام قدرت اور طاقت کے باوجود رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کے مقابل نہ ٹک سکا، جسے اس نے کبھی ملک بدر کیا تھا اسی نے اپنی سرزمین مادری سے دور رہ کر مغرور بادشاہ کو ملک چھوڑنے اور کوسوں دور جاکر پناہ لینے پر مجبور کردیا ۔

امام خمینی (رہ) کے کردار اور طرز عمل کی خوبصورتی و حسن سے عوام میں مختلف طبقہ کے لوگ اپ کے گرویدہ تھے، سرزمین ایران کی باغیرت، مقتدر اور دیندار قوم نے بھی جب مرجع عظیم الشان تقلید حضرت روح الله الموسوی الخمینی (رہ) کی گفتار و کردار میں صداقت، اخلاص اور سچائی دیکھی تو مکمل طور سے اپ کے ہمراہ ہوگئی، اپ کی آواز سے آواز ملائی اور اپ کی دعوت پر لبیک کہا نیز اس راہ میں کسی بھی قسم کا نذرانہ پیش کرنے سے گریز و پرہیز نہ کیا ۔

ہم اس تحریر میں حضرت امام خمینی (رہ) کی قرانی شخصیت اور انقلاب اسلامی ایران کی رہبریت میں اسکی جلوہ گری کے کچھ گوشہ کی جانب اشارہ کر رہے ہیں ۔

امام خمینی (رہ) اخلاص مجسم:

الہی رہبر اور لیڈرس کو اخلاص کے عالی ترین مرتبہ اور درجہ پر فائز ہونا چاہئے جیسا کہ قران نے مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ «قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ؛ [اے پیغمبر] کہہ دیجئے کہ میری نماز، میری عبادتیں، میری زندگی اور میری موت سب اللہ کیلئے ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے » ۔ (1)

جب عوام یہ جان لے گی کہ رہبر کا مقصد اور ہدف الہی ہے تو دل و جان سے اس کی اطاعت اور پیروی کیلئے قدم آگے بڑھائے گی اور میدان عمل میں کود پڑے گی، امام خمینی (رہ) کہ جو اس مسئلہ سے بخوبی آگاہ اور باخبر تھے اور ان کے نزدیک خدا کی خوشنودی کو اہم مقام حاصل تھا یعنی وہ اپنا ہر کام فقط و فقط اللہ کیلئے ہی انجام دینا پسند کرتے تھے، انہوں نے اس نہضت، تحریک اور قیام میں خدا کی مرضی کو پیش پیش اور مقدم رکھا، اپ کا یہی اخلاص اپ کی کامیابی کا رمز و راز ہے ۔ (2)

امام خمینی (رہ) مقام و منصب اور تخت و تاج سے بہت دور تھے اسی بنیاد پر مسلسل اپنے شاگردوں کو نصیحتیں بھی فرماتے کہ « میں اس بات سے خوش اور راضی نہیں ہوں کہ ہمارے چاہنے والے اپنی محبت کا اظھار و ابراز کریں، جو لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں اپنے دل محبت پوشیدہ رکھیں اور مجھے کسی منصب یا عہدے تک پہونچانے کیلئے ایک قدم بھی آگے نہ بڑھائیں » ۔ (3)

امام خمینی اسوه صبر و توکل:

امام خمینی (رہ) اپنی مرجعیت اور رہبریت سے بھی گریزاں تھے جیسا کہ اپ نے اس سلسلہ میں فرمایا « خدا کی قسم میں نے اپنی مرجعیت اور رہبریت کیلئے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا لیکن اگر یہ ذمہ داری مجھ تک آپہونچے تو پھر اپنے وظیفہ کے تحت اس سے پرھیز نہیں کروں گا اور اپنے وظیفہ کے تحت عمل کروں گا » ۔ (4)

امام خمینی (رہ) خدا کیساتھ اور خدا کیلئے تھے، خدا سے اپ کی قربت اور رفاقت قابل ذکر و توصیف نہیں ہے، مرضی پروردگار کے تحت قدم اٹھانا اور اس کی رضا کو حاصل کرنا اپ کا واحد اور تنہا مقصد تھا، خداوند متعال نے اسی بنیاد پر عوام کے دلوں کو ان کی سمت روانہ کردیا جیسا کہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں « مَن أَصلَحَ فيما بَينَهُ و َبَينَ اللّه أَصلَحَ اللّه فيما بَينَهُ وَ بَينَ النّاسِ ؛ جو خدا سے اپنا رابطہ اور اپنے تعلقات قائم کرے گا خداوند متعال اسے عوام سے جوڑ دے گا » ۔ (5)

امام خمینی (رہ) اسوه صبر و توکل :

منحوس اور بد طنیت حکومتوں سے مقابلہ اور ان کے مقابل قیام ہمیشہ سخت، دشوار اور بھاری قیمت ادا کرنے کا سبب ہوتا ہے، امام خمینی (رہ) کہ جن کے ہاتھوں میں انقلاب اسلامی ایران کی رہبریت و قیادت تھی، اپ بھی دیگر تمام انقلابی لیڈرس کے مانند سختیوں، دشواریوں اور تلخیوں سے روبر تھے، مسلسل اور مستقل جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے سے لیکر شہر بدر ہونے، توہین و بے ادبی، اپنے عزیز بیٹے آقا مصطفی خمینی (رہ) کی شھادت، اپنے ساتھیوں اور ہم صنف افراد کی بے وفائی تک کو اپ نے تحمل اور برداشت کیا ۔ جب لوگوں نے یہ دیکھا کہ امام خمینی (رہ) بھی ان کے مانند اور ان کی طرح میدان مبارزہ اور مقابلہ میں موجود اور حاضر ہیں اور انہیں اس راہ میں کسی قسم کا خوف و خطر، سستی اور کاہلی نہیں ہے تو وہ بھی قیام اور انقلاب میں امام خمینی (رہ) کے دوش بہ دوش اور شانہ بہ شانہ رہے، ایران کی انقلابی قوم مشکلات، سختیوں اور مصیبتوں میں امام خمینی (رہ) کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتی رہی اور امام خمینی (رہ) کے تجویز کردہ نسخہ پر عمل کرتی گئی ۔

صبر اور اللہ پر توکل کے حوالے سے امام خمینی (رہ) کا رویہ اور طرز عمل بہت تیزی سے انقلابیوں کے اجتماعی طرز عمل میں تبدیل ہوگیا، ایسی رفتار و کردار قران کریم اور صدر اسلام کے مسلمانوں کی سیرت کا ائینہ ہے جیسا کہ قران کریم نے فرمایا «وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ؛ اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی اس کے بعد کہ ان پر (طرح طرح کے) ظلم توڑے گئے تو ہم ضرور انہیں دنیا (ہی) میں بہتر ٹھکانا دیں گے، اور آخرت کا اجر تو یقیناً بہت بڑا ہے، کاش! وہ (اس راز کو) جانتے ہوتے جن لوگوں نے صبر کیا اور اپنے رب پر توکل کئے رکھتے ہیں » ۔ (6)

امام خمینی(رہ) اور خدا سے دلبستگی:

امام خمینی (رہ) نے اپنی تحریک کے آغاز سے ہی انقلاب اسلامی ایران کی پیروزی حتی اپنی حیات کے آخری لمحات تک، تمام مشکلات کو تو تحمل اور برداشت کیا مگر کسی بھی کافر، منافق اور بے ایمان کے زیر بار اور دباو میں نہیں آئے، اپ مشکلات کی گھڑیوں میں خداوند متعال سے متوسل ہوتے اور اس کی قدرت لایزال سے مستفید ہوتے، یہ وہ سبق اور درس ہے جسے قران کریم نے تمام مسلمانوں کو دیا ہے اور انہیں اس کام کی تاکید کی ہے، جیسا کہ سورہ احزاب کی ۴۸ ویں ایت میں ارشاد ہے «وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ وَدَعْ أَذَاهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا ؛ اور خبردار کفّار اور منافقین کی اطاعت نہ کیجئے گا اور ان کی اذیت کا خیال ہی چھوڑ دیجئے اوراللہ پر اعتماد کیجئے کہ وہ نگرانی کرنے کے لئے بہت کافی ہے ۔ » (7)

امام خمینی(رہ) اور دنیا داری سے گریز:

اسلامی جمھوریہ ایران کی عوام اس بات سے بخوبی آگاہ اور واقف تھی کہ امام خمینی(رہ) دنیا پرست نہیں ہیں بلکہ وہ دنیا اور دنیاوی عہدہ و منصب سے گریزاں ہیں، اگر عوام کو ذرہ برابر بھی اس میں شک و شبھہ ہوتا تو ہرگز اپنی جانیں امام خمینی(رہ) اور ان کے مقصد پر قربان نہ کرتے کیوں کہ یہ ممکن نہیں کہ کوئی اپنی جان دوسرے کی دنیا داری اور دنیا حاصل کرنے کے لئے خطرے میں ڈال دے اور خود کو اس پر قربان کردے ۔ !

امام خمینی(رہ) دنیا پرستی کی مخالفت کا مکمل مظہر تھے، اپ نے آخرت کے مقابل دنیا کو بہت حقیر و ناچیز سمجھا جیسا کہ قران کریم کا ارشاد ہے «فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ ؛ کیا تم آخرت کے بدلے زندگانی دنیا سے راضی ہوگئے ہو تو یاد رکھو کہ آخرت میں اس متاع زندگانی دنیا کی حقیقت بہت قلیل اور کم ہے ۔ » (8)

علما کیلئے دنیا پرستی سے زیادہ بدتر کوئی چیز نہیں:

دنیا پرستی اور دنیا طلبی رہبروں، لیڈرس، ذمہ داروں اور عوام کے درمیان دیوار کھڑا کردیتی ہے، اس حوالہ امام خمینی(رہ) نے نہ فقط خود کو دنیا سے اور دنیا پرستی الگ تھلگ رکھا بلکہ دیگر علمائے کرام اور اسلامی رہبروں کو بھی تاکید کی کہ وہ خود کو دنیا پرستی سے دور رکھیں، اپ نے اس سلسلہ میں فرمایا «میں علماء کی کامیابیوں اور اسلامی معاشرہ میں ان کے اثر و رسوخ کی بنیاد ان کے علمی اقدار اور ان کے زہد کو سمجھتا اور جانتا ہوں، اور آج نہ صرف ان اقداروں کو فراموش نہیں کرنا چاہئے بلکہ ماضی سے بھی زیادہ انہیں اہمیت دینا چاہئے، علماء کی صنف میں دنیا پرستی سے زیادہ بدتر کوئی چیز نہیں ہے کیوں کہ دنیا پرستی کے علاوہ کوئی وسیلہ و حربہ علماء کے دامن کو آلودہ نہیں کرسکتا ۔ » (9)

امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہما السلام دنیا اور دنیا پرستوں کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں «ارفض الدنیا فان حب الدنیا یعمی و یصم و یبکم و یذل الرقاب؛ دنیا پرستی کو ترک کردو کیوں کہ دنیا پرستی تمہاری انکھوں کو اندھا، تمہارے کانوں کو بہرا اور تمہاری زبان کو گونگا بنا دے گی اور تمہیں ذلت کا شکار کردے گی ۔ » (10)

یہ ایک فطری عمل ہے کہ جب انسان کے دل میں کسی چیز کی محبت بیٹھ جائے تو واضح اور روشن ترین حقائق بھی اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں، یعنی ایسے انسان کے پاس انکھیں تو ہوتی ہیں مگر اس میں بینائی موجود نہیں ہوتی، کان تو ہوتا ہے مگر اس میں سننے کی توانائی موجود نہیں ہوتی، ایسے انسان کے پاس زبان تو موجود ہوتی ہے مگر یہ زبان حق گوئی سے کوسوں دور ہوتی ہے، وہ اپنی پسندیدہ چیز یعنی دنیا تک پہونچنے کیلئے ہر قسم کی ذلت سہنے کو تیار ہوتا ہے ۔

اتحاد رمز پیروزی:

حضرت امام خمینی (رہ) اپنے جد حضرت محمد مصطفی صلی ‌الله‌ علیہ ‌و آلہ اور دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت کے ائینہ دار، نہایت ہی با اخلاق، شفیق اور مہربان شخصیت کے مالک تھے، عوام کیلئے اپ کی آغوش اور باہیں کھلی ہوئی تھیں اور اپ نے انہیں متحد رکھنے کی مکمل کوشش کی کہ جو ائمہ طاھرین کی سیرت اور انکی کامیابی کا راز رہی ہے جیسا کہ قران کریم نے مرسل اعظم (ص) کی کامیابی کے رمز و راز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: «فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ؛ [اے] پیغمبر یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ اپ ان لوگوں کے لئے نرم ہیں ورنہ اگر اپ بد مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ اپ کے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے لہذا اب انہیں معاف کردیجئے ان کے لئے استغفار کریئے اور ان سے امر [جنگ] میں مشورہ کریئے اور جب ارادہ کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کریئے کہ وہ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ » (11)

البتہ اسی قدر کہ امام خمینی (رہ) انقلابیوں کے حق میں مہربان تھے، انقلاب مخالفین اور سامراجی آلہ کاروں اور ان کے غلاموں کے حق میں نہایت ہی سخت تھے اور ان کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آتے تھے کہ اسے بھی قرانی کردار کا خاصہ شمار کیا جانا چاہئے جیسا کہ قران کریم کا ارشاد ہے : «‏‏أذِلَّة عَلَی الْمُؤْمِنِینَ أعِزَّة عَلَی الْکافِرِین ؛ جو مومنین محبت کرتا ہوگا اور کافروں پر سخت ہوگا ۔ » (12) انقلابیوں نے بھی اپنے امام و مقتدا کی سیرت کو اپناتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کیا اور اس اتحاد کو انقلاب اسلامی ایران کی پیروزی کا پل بنا دیا۔

قومی اتحاد کے سلسلہ میں امام علی علیہ السلام نے أبو موسى اشعری کو تحریر کردہ خط میں کہ جس کا سعید بن یحیى اموی نے اپنی کتاب "المغازی" میں ذکر کیا ہے لکھا : فَاعْلَمْ أَحْرَصَ عَلَى جَمَاعَةِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ (ص) وَ أُلْفَتِهَا مِنِّی ؛ لہذا آگاہ ہوجاو کہ امت محمد (ص) میں مجھ سے بہتر کوئی نہیں جسے امت محمد (ص) کی محبت ہو، ان سے مانوس ہو اور ان کے حق میں زیادہ رحم دل ہو، میں اس عمل کیلئے خداوند متعال سے اچھی جزاء اور اچھے سرانجام کا خواہش مند ہوں ۔ » (13)

اپ نے ایک دوسرے مقام پر یوں فرمایا کہ اتحاد و ہمدلی رحمت و فیض الہی کے نزول کا سبب ہے ۔ (14) نیز آپ نے اھل شام سے اختلاف کی صورت میں تشویش کا اظھار کرتے ہوئے ایک خدا اور ایک رسول کو مسلمانوں کے اتحاد کا مرکز بیان فرمایا ہے : «وَ كَانَ بَدْءُ أَمْرِنَا أَنَّا الْتَقَيْنَا وَ الْقَوْمُ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَ الظَّاهِرُ أَنَّ رَبَّنَا وَاحِدٌ وَ نَبِيَّنَا وَاحِدٌ وَ دَعْوَتَنَا فِي الْإِسْلَامِ وَاحِدَةٌ ۔ » (15)

ہماری اس گفتگو کا ماحصل اور نتیجہ یہ ہے کہ امام خمینی (رہ) کی سیرت، اپ کا کردار اور انقلاب اسلامی کی تحریک کی بنیاد و اساس قران کریم اور اسلامی تعلیمات رہی ہیں، سرزمین ایران کی عوام امام خمینی (رہ) کے اخلاق کی گرویدہ اور اپ پر فدا تھی، اسی بنیاد پر انہوں نے امام خمینی (رہ) کی خواہشات اور آرزوں کو جامعہ عمل پہنانے میں اپنی تمام توانائی صرف کردی اور جان کی بازی لگا دی ۔

لہذا اگر صنف علماء، دنیا کے رہبر خصوصا اسلامی جمھوریہ ایران میں عصر حاضر اور مستقبل کے عہدیدار، منصب دار اور اس ملک کا حکمراں اور ذمہ دار طبقہ بھی عوامی محبوبیت سے ہمکنار ہونا چاہتا ہے تو انہیں حضرت امام خمینی (رہ) کے قرانی اخلاق اور کردار کو اپنانا چاہئے اور اسے نمونہ عمل بنانا چاہئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:

1: سورہ انعام، ایت 162

2: امام خمینی (رہ) کے حالات زندگی، مصطفی وجدانی، پبلیشر: پیام آزادی، مطبوعہ سن : 1363 ھ ش، ج 6، ص 144 ۔‏‏

3: امام خمینی (رہ) کے حالات زندگی، مصطفی وجدانی، پبلیشر: پیام آزادی، مطبوعہ سن : 1363 ھ ش، ج 3، ص 18۔

4: امام خمینی (رہ) کے حالات زندگی، مصطفی وجدانی، پبلیشر: پیام آزادی، مطبوعہ سن : 1363 ھ، ش، ج2، ص101 ۔

5: من لا يحضره الفقيہ‏، ابن بابويہ، محمد بن على‏، پبلیشر: دفتر انتشارات اسلامى، قم‏، سال نشر: 1413 ق‏، ج4، ص396 ۔

6: سورہ نحل، ایت 41 و42

7: قران کریم، سورہ احزاب، ایت 48

8: قران کریم، سورہ توبہ، ایت 38

9: صحیفہ امام‏‏ خمینی(رہ)، امام خمینی(رہ)، پبلیشر: مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تهران، سن طباعت : 1378، ج 21، ص 99۔

10: اصول کافی، جلد2، صفحہ 136
11: قران کریم، سورہ آل‌عمران، ایت 159
12: قران کریم، سورہ مائده، 57
13: نہج البلاغہ، خط 78
14: فرهنگ آفتاب، ج 1، ص 85 اور فیض الاسلام، خطبه 175 ۔
15: نہج البلاغہ، خط 58

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .