تحریر: مولانا سید حمید الحسن زیدی
حوزہ نیوز ایجنسی । انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی اور ایران میں اسلامی حکومت کاقیام ایک ایسا بے نظیر تاریخی واقعہ ہےجس نےخدائی طاقت کے مقابلے میں تمام طاغوتی طاقتوں کی بےبسی کاعینی ثبوت فراہم کردیا ۔
شاہ ایران محمد رضا پہلوی جو بظاہر ڈھائی ہزار پرانی شہنشاہیت کا وارث تھا ایک مرد مجاہد کے تقدس اور تدبیر کے مقابلے میں ڈھیر ہوگیا وہ اپنی تمام خباٹتوں عیاریوں اور مغربی آقاوں کی حمایت کے باوجود امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی شجاعت جواں مردی تدین اور عزم وحوصلہ کی تاب نہ لا کر ملک چھو ڑنے پر مجبور پوگیا اور امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے جمہوری اقدار کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے ایران میں اسلامی حکومت کے قیام کی ایسی کارآمد مثال پیش کی جسکی کامیابی سے ساری دنیا کی بڑی طاقتیں انگشت بدنداں ہیں اور اسے مٹانے کے لئے ساری دنیا مشینریاں بےکار ثابت ہوتی رہی ہیں آج 43سال بعد بھی انقلاب اور اس کے مقدس مقاصد پوری آب وتاب کےساتھ دنیا کی مظلوم قوموں کے سامنے امید کی کرن بنے ہوئے ہیں ۔
کچھ شاہ ایران کے بارے میں
شاید یہ بہت کم لوگ جانتے ہوں کہ شاہ ایران جو انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے حالات دیکھ کر ملک بدر ہوا وہ خاندانی اعتبار سے شاہ نہیں تھا بلکہ رضاخان کا بیٹا تھا جوصرف ایک معمولی سپاہی تھا لیکن اتنا عیار اور سیاست باز کہ معمولی سپاہی کے منصب سے مکر فریب اور دوسروں کو نیچا دکھانے نیز اپنی ترقی کے لیے کسی کو بھی ذلیل و خوار کردینے یہاں تک کہ قتل و غارت گری کرنے تک سے گریز نہیں کرتا تھا وہ اپنے اس طرح کے سیاہ کرتوتوں کے ذریعہ ایران کے تخت حکومت تک پہونچ گیا اور اپنی ساری خباثتوں کا نتیجہ اپنا وہ تخت حکومت اپنے بیٹے کے حوالہ کرنے اور اسے اپنے خاندان میں باقی رکھنے کی ہوس کے نتیجہ میں ہر صاحب صلاحیت اور خوددار کردار سے ٹکراتا رہا اور نہ جانے کتنے بے گناہوں کا خون اپنی گردن پر لیکر واصل جہنم ہوگیا وقتی طور پر کچھ دن کے لیے بظاہر اس کی یہ آرزو پوری ہوگئی کہ اس کا تخت و تاج اس کے نااہل بیٹے کو نصیب ہوگیا لیکن اس معمولی سپاہی کی غاصبانہ شہنشاہیت کو اس کا نا اہل بیٹا باقی نہ رکھ سکا اور ایک غیرتمند عالم دین و شریعت نے اس کے بساط ظلم وستم کو الٹ کر رکھ دیا جس سے اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ عیاریوں سے حاصل ہونے غاصبانہ اقتدار دیر پا نہیں ہوتا اور کوئی غیرت مند بیدار ضمیر اپنے معصوم رہبروں کی ہدایات اور زمانے کے امام ع کی تائید سے اس کی بساط ستم کو ڈھا سکتا ہے چاہے اس کے پیچھے کتنے ہی طاقتور اور عیار أقاؤں کاہاتھ کیوں نہ ہو ۔
شاہ ایران کے ذلت آمیز قوانین:
۲۸ اكتوبر١۹٦۴ء كا ذكر ہے شاہ كى حكومت نے ایک قانون كى منظورى دى جس كے تحت امریكى فوجى مشن كے افراد كو سفارتكاروں كے ہم پلہ وہ حقوق دیے گئے جوویانا كنونشن كے تحت سفارتكاروں كو حاصل ہیں اس كے معنى یہ ہیں کہ امریکى جو چاہیں کرتے رہیں ان پر ایرانى قانون لاگو نہ ہو گا۔
اگلے دن امام خمینى نے مدرسہ فیضیہ قم مىں وہ شہرہ آفاق تقریركى جو ایک عظیم انقلاب كا پیش خیمہ بن گئى انہوں نے کہا:
”میرا دل درد سے پھٹا رہا ہے میں اس قدر دل گرفتہ ہوں کہ موت كے دن گن رہا ہوں اس شخص (اشارہ: رضاشاہ پہلوی) نے ہمیں بیچ ڈالا ہمارى عزت اور ایران كى عظمت خاک میں ملا ڈالی،اہل ایران كا درجہ امریكى كتے سے بهى كم كر دیا گیا ہے اگر شاہ ایران كى گاڑی كسى امریكى كتے سے ٹکرا جائے تو شاہ كو تفتیش كا سامنا ہو گا لیكن كوئى امریكى خانساما شاہ ایران یا اعلى ترین عہدے داروں كو اپنى گاڑی تلے روند ڈالے تو ہم بے بس ہوں گے، آخر كیوں ؟ كیونكہ ان كو امریكى قرضے كى ضرورت ہے"-
امام خمینی:
جن کا نام نامی سید روح اللہ خمینی تھاایران کے اسلامی مذہبی رہنما اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی تھے۔ آیت اللہ العظمٰی امام روح اللہ موسوی خمینی ۲۴ستمبر ١۹۰۲ء کو خمین میں پیدا ہوئے جو تہران سے تین سو کلومیٹر دور واقع ہے۔
امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی کامیاب قیادت کے خصوصیات
ذاتی خصوصیات:
۱ـ وقت کی قدروقیمت پرتوجہ اور نظم وترتیب:
امام خمینی نے اپنے دن اور رات کا پور ا ٹایم ٹیبل بنایا ہوا تھا ان کے کھانے پینے سونے ٹہلنے خبریں سننے اور فیملی کےساتھ وقت گذارنے سے لیکر عبادتوں اورملاقاتوں وغیرہ تک کا سارا وقت معین تھااور وہ ہرکام اپنے وقت پر ہی کرتے تھے ان کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے منظم ٹایم ٹیبل کو دیکھ کر لوگ اپنی گھڑیوں کاوقت ملا لیا کرتے تھے ۔
امام خمینی کا ماننا تھا کہ انسان کےاپنےکاموں میں نظم و ترتیب اور وقت کی پابندی ان کے فکر و خیال کو بھی منظم کردیتی ہے اور جب انسان کی سوچ منظم ہوجاتی ہے... تووہ انسان مکمل طور پر خدائی یعنی خدا کا سچا بندہ بننے کی راہ میں قدم بڑھا دیتا ہے۔
۲ـ حسن اخلاق
امام خمینی نےحکم پروردگار'سیرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے اتباع میں حسن اخلاق کو اپنا شعار بنایا تھا جیسے سلام میں پہل کرنااور کلام میں نرمی برتنا وغیرہ۔
٣-زہد اور سادگی:
امام خمینی اپنے معصوم رہنماؤں کی سیرت پر عمل کرتے ہوئےانتہائی زاہدانہ اور سادگی کی زندگی بسر کرتے تھے دوران طلبگی سے لیکر ملک کے سب سے زیادہ طاقت ور عہدے پر فائز ہونے تک آپ کی زاہدانہ زنگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تہران کے محلہ جمران کے ایک معمولی کرایہ کے مکان میں زندگی بسر کردینا آپ کی سادی اور زاہدانہ زندگی کی بہترین مثال ہے۔
اس کے علاوہ ہمیشہ فعال رہنا پابندی سے ورزش کرنا صفائی ستھرائی اور ظاہری سج دھج کا خیال رکھنا وغیرہ آپ کے اہمترین فردی خصوصیات ہیں جن کی تفصیل کے لیے اس سلسلہ میں لکھی جانے والی کتابوں اور تحریروں کی طرف رجوع کیاجاسکتاہے۔
سماجی اورمعنوی خصوصیات
١-صرف خدا کے لیے:
امام خمینی کی سب سے بڑی خصوصیت خدا محوری ہے آپ نے اپنے معصوم رہنماؤں کی تعلیمات کی روشنی میں صرف رضای پروردگار کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا تھا وہ کبھی بھی مخلوق کی مرضی کو خدا کی رضا پر مقدم نہیں کرتے تھے انقلاب اسلامی کے لیے اٹھنے والے سب سے پہلے قدم کے موقعہ پر ہی آپ نے قران مجید کی آیہ کریمہ قل انما اعظکم بواحدۃ ان تقوموا للہ میں تمھیں صرف ایک نصیحت کرتا ہوں کہ صرف خدا کے لیے قیام کرو کو اپنا عنوان قرار دیا رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای مد ظلہ امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں ہمارے رہبر (امام خمینی) کی سب سے بڑی تعریف یہ ہے کہ انھیں عبد خدا یعنی اسکی ذات کے لیے تسلیم محض قرار دایجائے۔
۲-حق کو قبول کرنا :
انسان کاہٹ دھرمی سےدور ہوکرحق کوقبول کرلینا وہ امتیازی ہنر ہے جوامام خمینی رضوان اللہ علیہ کوعام دنیاوی رہبروں کے درمیان ممتاز بناتا ہے جس کی بہت سی مثالیں ہیں ایک مرتبہ ایک رپورٹر نےآپ سے دریافت کیا کہ آپ نے کبھی غلطی کی ہے آپ نے جواب دیا کبھی غلطی نہ کرنے کا تصور صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے یہاں ہے باقی ہم جیسوں سب کے لیے غلطی کا امکان ہے۔
٣- شرح صدر:
رہبران دین کی زندگی میں شرح صدر کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ جناب موسیٰ ع کی دعارب اشرح لی صدری اور پیغبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خدا کی خاص عنایت الم نشرح لک صدرک سے لگایا جاسکتا ہے امام خمینی نے اپنے معصوم رہنماؤں کی تعلیمات کی روشنی میں اس صفت کو اپنی ذات میں کس طرح اتارا تھا کہ بڑے سے بڑے حادثات آپ کے پائے ثبات میں ذرہ برابر لغزش نہ لا سکے چاہے وہ ١٥خرداد کے تلخ واقعات ہوں یا جوان فرزند آیت اللہ مصطفیٰ خمینی کی خبر شہادت یہاں تک کہ عزیز ترین شاگردوں اور حکومت کے اہم عہدہ داروں کی ایک ساتھ شہادت تک کے موقعہ پر آپ نے شرح صدر اور صبروتحمل کا مظاہرہ فرمایا۔
۴- سکون و اطمینان :
انقلاب کی کامیابی کے لیے کوششوں سے لیکر جنگ کے قیامت خیز مناظر بھی آپ کے سکون و اطمینان میں ذرہ برابرکمی نہ لاسکے آپ کے وصیت نامہ کا وہ جملہ آپ کے اطمینان قلب پر بہترین گواہ ہے جس میں آپ نے لکھا ہے ۔
"میں اپنے پرسکون دل اور مطمئن قلب کے ساتھ.... اپنے برادران اور خواہران سے رخصت ہوکر اپنی ابدی آرامگاہ بارگاہ خداوندی میں حاضر ہورہا ہوں" ۔
اس کے علاوہ خداکی ذات پر توکلاوراپنےتمام کاموں میں احتیاط سےکام لیناجیسے نہ جانے کتنے خصوصیات ہیں جو امام خمینی رضوان اللہ علیہ کا طرۂ امتیاز ہیں جن سب کا تذکرہ اس مختصر مضمون کی وسعت سے باہر ہے ۔
امام خمینی رہ کے بعد:
1989 میں امام خمینی کی رحلت کے بعد ایران کی مجلس خبرگا (ماہر فقہا کی اسمبلی )نے جمہوری اسلامئ ایران کی قیادت اور رہبری کے لئے حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای دام ظلہ کا انتخاب کیا جنھوں نے اپنے حسن تدبیر سے تمام اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں کو ناکام بنا کر انقلاب اسلامی ایران کو قائم اور سربلند رکھا اور دنیا کو ایک لمحہ کےلئے بھی اس عظیم رہبر کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا اج ایران کا اسلامی انقلاب ساری دنیا کی مظلوم قوموں کے لئے امید کی کرن ہے اور ساری دنیا ہر دینی سماجی اور عزت نفس سے متعلق مسائل میں اپ ہی کی طرف دیکھتی ہے ہماری دعا ہے کہ خداوند متعال رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نیز تمام علماء ومراجع اور خدمت گذاران اسلام کو صحت وسلامتی عطا فرمائے اور نئی نسل کے ان کی راہ پر گامزن ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔
آپ کا تبصرہ