تحریر: مولانا سید محمد سعید نقوی
حوزہ نیوز ایجنسی। امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ دنیا کا ہر انسان اس بین الاقوامی اور آفاقی شخصیت سے اچھی طرح واقف ہے۔ ان کی خدمتیں ہی ان کی شناخت ہیں۔ وہ بظاہر اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک ان کو زندہ رکھیں گے۔تاہم ایک انتہائی مختصر تعارف یہ ہے کہ روح اللہ الموسوی نام تھا۔ ۲۰؍جمادی الثانیہ۱۳۲۰ھ کو ’’ خمین‘‘ میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنے نام کے بجائے امام خمینیؒ کے لقب سے زیادہ یاد کئے جاتے تھے اور کئے جاتے ہیں۔ آپ نے ۴؍جون ۱۹۸۹ کو رحلت فرمائی۔
آپ میدان فقاہت و علوم اسلامی کے عظیم شہسوار تھے۔ اپنے زمانے کے قابل قدر علماء و فقہاء اور مجتہدین میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ آپ علمی و فقہی نقطۂ نگاہ سے سبھی معاصرین میں بڑے محترم سمجھے جاتے تھے ۔ فقہ و معارف اہل بیت ؑ کے حوالہ سے آپ کا قلمی سفر بڑا طویل اورنہایت دلچسپ ہے۔ آپ نے معاشرہ کو اپنے بہت سے علمی و فقہی سرمایہ سے فیضیاب و روشناس کیا۔ آپ کی تحریریں آج بھی اس بات کا زندہ ثبوت ہیں ۔ آپ سے منسوب ایک متطوم مجموعۂ کلام بھی ہے کہ جو آپ کے شاعرانہ ذوق اور عرفانی شاعری کی ترجمانی کرتا ہے۔
امام خمینیؒ صرف ایک عالم و فقیہ ہی نہیں بلکہ ایک عظیم ،روشن فکر، مخلص، معاشرہ شناس اورہمدرد قوم قائد بھی تھے۔ آپ ایک اچھے عالم دین بھی تھے اور اچھے رہنما بھی۔ آپ ایک قابل قدر مجتہد بھی تھے اور غیر معمولی لیڈر بھی۔ جس طرح آپ کے علمی و فقہی کمالات اور فیوض و برکات کو نظر نہیں کیا جا سکتا اسی طرح آپ کی بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ۔
ویسے تو آئے دن عالمی سیاسی منظرنامے پر نئے نئے چہرہ ابھر کر سامنے آتے رہتے ہیں مگر وہ کوئی ایسا آفاقی کارنامہ انجام نہیں دے پاتے کہ جس سے ان کا نام تاریخ سیاست و قیادت میں سنہرے حرفوں سے لکھا جائے اور رہتی دنیا تک انہیں یاد رکھا جائے۔ویسے اس کی ایک غیر معمولی وجہ ہے اور وہ یہ کہ عام طور ایسے لیڈروں کی سیاست سے وابستگی ذاتی مفاد، ہوس اقتدار، جاہ و حشمت، دولت و ثروت کی بناء پر ہوتی ہے۔ اور جب ان کے تمام مقاصد پورے ہو جاتے ہیں تو وہ پھر بغیر کسی تامل کے عوام کو اس کے حال پر چھوڑ کر قیادت سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف امام خمینیؒ ایک آفاقی قائدو رہبر اور عظیم سیاسی مبصر ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم مصلح بھی تھے۔اور سیاست و قیادت سے آپ کی وابستگی ذاتی مفاد، دولت و شہرت یا جاہ و حشم کی بناء پر نہ تھی بلکہ آپ کی اس سیاسی وابستگی میں اصلاح معاشرہ کو لے کر ایک تڑپ تھی، اک درد تھا اور ایک مخلصانہ جذبہ تھا۔
امام خمینیؒ نے جس دور میں آنکھیں کھولی تھیں وہ بہت ہی خطرناک دور تھا۔ ایرانی قوم پر مغربی تہذیب و تمدن نے حملہ بول رکھتا تھا۔ ’’European Culture ‘‘ نے بری طرح سے پورے ملک کو اپنی چپیٹ میں لے رکھا تھا ۔ ہر طرف مغربی کلچر کا ماحول تھا۔ جوئے، شراب ،ناچ،گانے کا بازار گرم تھا ۔ آزادی کے نام پر بدکرداری اور بدچلنی کو بڑھاوا دیا جا رہا تھا۔ مسجدیں ویران اور شرابخانے آباد رہتے تھے۔ غریبوں ناداروں اور کمزوروں کا استحصال کیا جا رہا تھا۔ انسانیت سسک سسک کر اپنی بے بسی پر آنسو بہا رہی تھی ۔ ایسے میں حق پسند اگران بدعنوانیوں کے خلاف آواز اٹھاتے تھے تو موت کی نیند سلا کر ان کی ’صدائے حق‘‘ کا گلا گھونٹ دیا جاتا تھا ۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ یہ بدعنوانیاں ، یہ گھناونی حرکتیں، یہ ظلم و ستم کسی غیر ایرانی کی طرف سے نہ تھے بلکہ یہ سب کچھ ایران ہی کے ایک ضمیر و ایمان فروش شاہ رضا پہلوی اور اس کے کارندوں کے اشاروں پر ہو رہا تھا۔
ایسے خطرناک اور بے راہ روی کے ماحول میں ایران کو در حقیقت ایسے مصلح اور مسیحا کی تلاش تھی جو باطل طاقتوں، دنیاوی طاقت کے نشہ میں چور حکومتوں اور ظالموں و ستمگروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جس کے صبر و ثابت قدمی کے سامنے ظلم ڈھیر ہوتا ہوا نظر آتا ہو اور جس کی آواز میں اتنا دم ہو کہ لوگ اس کی طرف کھنچے چلے جاتے ہوں اور اسی کے ساتھ وہ ایسا باعمل بھی ہو کہ جو کہے اس پر پہلے خود عمل بھی کرتا ہو۔ اس لئے کہ عمل سے خالی زبانی وعظ و نصیحت کانوں سے آگے نہیں بڑھتی۔ ایسی باتیںایک کان سے داخل ہو کر دوسرے کان سے نکل جاتی ہیں۔ پیغام کو دلوں تک پہنچانے کے لئے عمل کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔
امام خمینی نے جب شاہ رضا پہلوی کے دور میں سسکتی ہوئی انسانیت کو فریادی دیکھا اور شاہ رضا پہلوی کے مظالم و استحصال کا مشاہدہ کیا تو آپ سے رہا نہ گیا اور رضا پہلوی اور اس کے ظلم و استبداد کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی دل میں ٹھان لی۔ اور یہ عزم مصمم کر لیا کہ وہ مظلوم ایرانیوں کو صیہونیت، استکباریت اور آمریت سے نجات دلوا کے ہی دم لیں گے۔ حالانکہ شاہ رضا پہلوی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا موت کو دعوت دینے سے کم نہ تھا لیکن یہ سچ ہے کہ اگر عزم مصمم ہو، حوصلہ جوان ہو اور للٰہیت شامل حال ہو تو پھر دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت پائے ثبات میں لرزش پیدا نہیں کر پاتی۔
بہر حال آپ نے بے دینی، بے عملی اور تہذیب و ثقافت کے نام پر غیر مہذب معاشرہ کے خلاف عملی انقلاب کا نعرہ بلند کیا اور تمام بدعنوانیوں کو ختم کر کے ایک نیا معاشرہ تعمیر کرنے کا محکم ارادہ کیا ۔ بظاہر یہ تحریک چھوٹے پیمانے پر شروع ہوئی لیکن بعد میں ؎
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر لوگ ساتھ آتے گئے اور کاروان بنتا گیا
کا سلسلہ دیکھنے کو ملا۔ حق پسند علماء کے ساتھ ظلم کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے مظلوموں نے امام خمینیؒ کی آواز میں آواز ملائی۔
امام خمینیؒ نے اپنی عملی زندگی کے ساتھ اپنی عرفانی تقریروں سے لوگوں کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ خدائی جذبے اور ایمان سے لبریز اپنے خطبوں کے ذریعہ سوئے ہوئے ضمیروں کو جھنجھوڑا۔ لوگوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کیا اور آپ نے جگہ جگہ ایسے انقلابی خطبے دئیے کہ بچے بوڑھے، مرد عورت سب سر سے کفن باندھ کر شاہ رضا پہلوی جیسے ڈکٹیٹر کی ظالم و جابر حکومت اور بادشاہت کے خلاف میدان جنگ میں کود پڑے۔
اس فکری و عملی انقلاب کے روح رواں اور نقیب بے مثال امام خمینیؒ نے آج کے خود غرض سیاسی لیڈروں کے بر خلاف اس انقلاب یا یوں کہا جائے کہ ایرانی مستعفین کی خوشیوں کے لئے بہت سے مصائب برداشت کئے، قید و زندان میں رہے،چودہ سال کی جلا وطنی کی زندگی گذاری ، اپنے جوان بیٹے سے ہاتھ دھونا پڑا مگر اپنے مقصد سے ایک لمحہ کے لئے بھی سمجھوتہ نہ کیا ۔بلکہ ہر قیمت پر اپنی تحریک کو مستقل مزاجی کے ساتھ جاری رکھا۔ اور پھر انتہائی جد وجہد اور فیصلہ کن محاذ آرائی کے بعد وہ حسین لمحہ بھی آیا کہ جب شاہ رضا پہلوی کی اپنی خود ساختہ اور باطل حکومت کی چولیں ہلتی ہوئی نظر آئیں اور اس ضمیر فروش نے ایران سے فرار کرنے میں اپنی عافیت سمجھی او روہ بھاگ گیا ۔ اس طرح یکم فروری ۱۹۷۹ کو سر زمین ایران پر انقلاب کا سورج طلو ع ہوا، حریت پسندوں کا خون رنگ لایا اور پورے ملک میں انقلاب اسلامی کا اعلان کردیا گیا اور ایرانیوں کو وہ تمام حقوق مل گئے جن سے وہ اب تک محروم تھے۔ سر زمین ایران پر ایک نئی تاریخ کی صبح نمودار ہوئی اور ایک نئے کلچر نے جنم لیا جس کے زیر اثر ایران نئی سیاسی، مدنی، شاہراہ ترقی پر گامزن ہوگیا ۔