۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ/ علم و ہنر اور مہارت کے باوجود ان لوگوں کو کبھی منزل نہ مل سکی جو استاد کی عزت سے محروم رہے یا یوں کہا جائے کہ مقدر نے کبھی ان کو کچھ نہ سمجھا جنہوں نے استاد کو کبھی کچھ نہ سمجھا۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسیملک و ملت کی تعمیر میں بنیادی کردار ایک معلم ادا کرتا ہے۔ نسلوں کے تابناک مستقبل کا ضامن ایک معلم ہوتا ہے۔ وہ قومیں ترقی کرتی ہیں جو استاد کی عزت کرتی ہیں ۔ وہ لوگ کامیاب ہو گئے جنہوں نے استاد کی جوتیوں کو اپنے سر کا تاج سمجھا ۔ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود وہ لوگ ناکام و نامراد ہو گئے جنہوں نے اساتذہ کی شان کی میں گستاخیاں کیں۔ علم و ہنر اور مہارت کے باوجود ان لوگوں کو کبھی منزل نہ مل سکی جو استاد کی عزت سے محروم رہے یا یوں کہا جائے کہ مقدر نے کبھی ان کو کچھ نہ سمجھا جنہوں نے استاد کو کبھی کچھ نہ سمجھا۔

تعلیم و تربیت انبیاء علیہم السلام کا کام اور انکی سنت ہے اور انکے بعثت کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے۔ ’’هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ‘‘ وہ (اللہ) وہی ہے جس نے اُمّی قوم میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کو اس (اللہ) کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاکیزہ بناتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ اس سے پہلے یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے۔ (سورہ جمعہ ، آیت ۲) مذکورہ آیت اور اس جیسی دیگر آیات سے واضح ہے کہ تعلیم دینا انبیاء علیہم السلام کے کاموں میں سے ایک کام ہے۔

بلکہ اگر ہم غور کریں تو تعلیم دینا خود خدا کے کاموں میں سے ایک کام ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے۔ ’’الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ‘‘ جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی۔ انسان کو وہ سب تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا۔ ؔ(سورہ علق ، آیت ۴، ۵)

تاریخ و احادیث کی کتابوں میں مرقوم ہے کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کے حواری آپ کو ’’معلم خیر‘‘ کے لقب سے مخاطب کرتے تھے۔

کائنات کے سب سے بڑے اور عظیم معلم سرکار ختمی مرتب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے۔ ایک بار آپؐ مسجد میں داخل ہوئے دیکھا کہ ایک گروہ عبادت میں مصروف ہے اور دوسرا حصول علم میں مصروف ہے تو آپؐ نے دوسرے گروہ کو بہتر اور افضل جانا جو تعلیم میں مصروف تھااور فرمایا ’’اِنَّمَا بُعِثْتُ مَعَلِّما‘‘ میں بعنوان معلم مبعوث ہوا ہوں ، بھیجا گیا ہوں۔ حضورؐ نے اساتذہ کے حق میں دعا کرتے ہوئےبارگاہ الہی میں عرض کیا۔ ’’اللّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُعَلِّمِینَ وَاَطِلْ اَعْمارَهُمْ وَبارِکْ لَهُمْ فی کَسْبِهِمْ‘‘خدایا! معلمین (اساتذہ) کی مغفرت فرما، انکی عمروں کو طولانی فرما اور انکے امور میں برکت عطا فرما۔

تاریخ بشریت میں یو ں تو بہت سے استاد اور معلم گذرے جنہوں نے اپنے خون جگر سے انسانیت کی آبیاری کی۔ لیکن کچھ اساتذہ نے اپنے عظیم کردار اور شجاعت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ خود تو اس دنیا سے چلے گئے لیکن ان کا تذکرہ آفاق پر چھا گیا ۔ انہیں عظیم معلمین میں سے ایک عالم، ادیب، شاعر، محدث اور شجاع اور بہادر معلم جناب ابو یوسف یعقوب بن اسحاق المعروف بہ ابن سکیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہ تھے۔

آپ کے والد جناب اسحاق ایک عظیم عالم، ادیب اور شاعر تھے۔ کثرت سکوت کے سبب آپ کو سکیت کہا جاتا تھا ۔اگر ہم امیر کلام حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی حدیث شریف پر غور کریں تو یہ سکوت انکے کمال عقل کی علامت تھا۔ (جب عقل کامل ہو جاتی ہے تو گفتگو کم ہو جاتی ہے۔ )

جناب اسحاق ؒنے بچپن ہی سے اپنے نور نظر جناب یعقوب ؒ کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھا بلکہ جب حرم الہی مکہ مکرمہ پہنچے اور خانہ کعبہ کے سامنے جو دعا کی وہ اپنے فرزند کی تعلیم کی دعا تھی۔ اس مستجاب الدعوات پروردگار نے انکی دعا قبول کی اور انکے فرزند ایک نامور عالم، محدث ، شاعر ، ادیب بنے۔ نیز ستارہ شناسی اور نباتات کی پہچان میں بھی مہارت حاصل کی اور مختلف موضوعات پر گرانقدر کتابیں تالیف فرمائیں جو آج بھی اپنی مثال آپ ہیں۔

جناب یعقوبؒ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اور حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے مخلص شیعہ تھے لیکن تقیہ میں زندگی بسر کر رہے تھے۔

جب آپ کی علمی شہرت و مقبولیت زباں زد و خاص و عام ہوئی اور یہ خبر عباسی حاکم متوکل کے دربار تک پہنچی تو اس نے آپ کو دربار میں بلایا اور کچھ ذمہ داریاں دیں جنمیں سے ایک اس کے بیٹوں کی تعلیم تھی۔

جناب ابن سکیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے قبول کیا اور اس کے بچوں کو پڑھانے لگے۔ ایک دن استاد اپنے شاگروں کو تعلیم دینے میں مصروف تھے کہ متوکل ملعون درسگاہ میں داخل ہوا اور استاد سے سوال کیا کہ کیا تم میرے بیٹوں کو زیادہ چاہتے ہو یا علی بن ابی طالب ؑ کے بیٹوں حسنؑ و حسینؑ سے زیادہ محبت کرتے ہو۔ ابن سکیتؒ نے انتہائی جرات اور شجاعت سے جواب دیا کہ مولا علیؑ کے غلام قنبر کو تم سے اور تمہارے بیٹوں سے افضل سمجھتا ہوں۔

استاد کے اس جواب کو سن کر متوکل آگ بگولہ ہو گیا اور انہیں شہید کرنے کا حکم دے دیا اور یہ عظیم استاد جناب ابن سکیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہ ۵ ؍ رجب المرجب ۲۴۴ ؁ھ کو شہید ہو گئے۔

اگرچہ بعض روایات کے مطابق درباری ملاؤوں نے حسد میں آپ کی شکایت متوکل سے کی اور اسے قتل پر اکسایا تھا۔ اور یہ بعید بھی نہیں کیوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ شہید اولؒ، شہید ثانیؒ اور شہید ثالثؒ جیسے نہ جانے کتنے غدیری مخلص علماء ان درباری ملاؤوں کی حسد کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .