تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی। جناب محمد بن محمد بن نعمان المعروف بہ شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ ۱۱ ؍ذی القعدہ ۳۳۸ ھ کو بغداد کے قریب عکبری نامی علاقہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد معلم تھے اس لئے آپ کو ابن معلم بھی کہا جاتا ہے۔
ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کرنے کے بعد بغداد تشریف لے گئے جہاں مختلف شیعہ اور سنی علماء سے کسب فیض کیا اور بیس برس سے کم عمر میں درجہ اجتہاد و استنباط پر فائز ہوئے، آپ کے اساتذہ میں محدث عالی مقام جناب شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ سرفہرست ہیں۔ جناب شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ میں ملتا ہے کہ وہ کثرت سے نماز پڑھتے، صدقہ دیتے اور مطالعہ کرتے تھے۔ جیسا کہ آپ کے داماد اور جانشین جناب ابو یعلی جعفری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا کہ آپ راتوں میں کم سوتے تھے، نماز پڑھتے، قرآن کریم کی تلاوت کرتے، مطالعہ کرتے یا تدریس کرتے تھے۔
علامہ بحرالعلوم رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ابن شہر آشوب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مطابق حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف نے آپ کو مفید کے لقب سے لوازا، لیکن دوسرے لوگوں کے مطابق یہ لقب ’’مفید‘‘ قاضی عبدالجبار معتزلی نے دیا تھا۔ جیسا کہ جناب ابن ادریس حلی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب مصباح القلوب میں نقل کیا ہے کہ ’’ایک دن قاضی عبدالجبار اپنے شاگردوں کو پڑھا رہے تھے کہ جناب شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ داخل ہوئے، اس وقت تک آپ نے صرف قاضی عبدالجبار کا نام سنا تھا ، اسے دیکھا نہیں تھا، تھوڑی دیر بعد آپ نے اس سے کہا کہ میرا ایک سوال ہے ، قاضی نے کہا پوچھیں تو آپ نے فرمایا یہ جو شیعہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے روز غدیر فرمایا: ’’ من کنت مولاہ و فھذا علی مولاہ‘‘ (جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں) کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ قاضی نے کہا : ہاں۔ آپ نے پو چھا کہ مولا کے کیا معنی ہیں ؟ قاضی نے جواب دیا : مسلمانوں پر حکومت ۔ تو جناب شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اگر یہ معنیٰ ہیں تو پھر شیعہ اور سنی میں اختلاف کیوں ہے؟ قاضی نے کہا کہ البتہ یہ حدیث غدیر روایت ہے اور جناب ابوبکر کی خلافت درایت ہے ، روایت درایت کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ تو جناب شیخ مفیدؒ نے پوچھا اچھا یہ بتائیں اس روایت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ ’’یا علی حربک حربی و سلمک سلمی‘‘ (ائے علی! تم سے جنگ مجھ سے جنگ اور تم سے صلح مجھ سے صلح ہے۔) قاضی عبدالجبار نے کہا یہ روایت صحیح ہے تو جناب شیخ مفیدؒ نے پوچھا جنگ جمل والوں کے سلسلہ میں کیا خیال ہے؟ تو قاضی نے کہا کہ البتہ ان لوگوں نے توبہ کر لی تھی تو جناب شیخ مفید ؒ نے فرمایا جنگ جمل درایت ہے اور انکا توبہ کرنا روایت ہے اور ابھی آپ ہی نے فرمایا تھا کہ عقلمند انسان درایت کی موجودگی میں روایت کے پیچھے نہیں جاتا ، روایت درایت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
جب قاضی عبد الجبار کوئی جواب نہ دے سکا تو پوچھا آپ کون ہیں تو جناب شیخ مفید نے فرمایا: محمد بن محمد بن نعمان ہوں ۔ یہ سننا تھا کہ قاضی عبدالجبار اپنی جگہ سے اٹھے اور آپ کو اپنی جگہ بٹھایا اور کہا ’’انت المفید حقا‘‘ (حقیقت میں آپ عالم اسلام کے لئے مفید ہیں) نشست میں موجود علماء کو بہت ناگوار گذرا تو قاضی نے ان سے کہا کہ میں تو ان کا جواب نہ دے سکا اگر آپ میں سے کوئی ان کا جواب دے سکے تو جواب دے لیکن کسی نے کلام کی جرات نہیں کی ۔
اسی طرح ملتا ہے کہ شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شب خواب میں دیکھا آپ بغداد کی مسجد کرخ میں تشریف فرما ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے دونوں بیٹوں امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تشریف لائیں اور آپ سے فرمایا:’’ یا شیخ! علمھما الفقہ‘‘ (ائے شیخ ! ان دونوں کو فقہ کی تعلیم دیں ۔)
خواب سے بیدار ہوئے تو حیرت میں پڑ گئے کہ میں کون ہوتا ہوں دو معصوم اماموں کو تعلیم دوں ، دوسری جانب یہ بھی فکر لاحق ہوئی کہ معصوم کو خواب میں دیکھنا شیطانی خواب نہیں ہو سکتا ۔ صبح ہوئی تو شیخ نے جس مسجد کا خواب دیکھا اسی مسجد میں تشریف لے گئے ابھی تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ ایک جلیل القدر سیدہ خاتون کنیزوں کے جھرمٹ میں اپنے دو بیٹوں کو لے کر آئیں اور فرمایا:’’ یا شیخ! علمھما الفقہ‘‘ (ائے شیخ ! ان دونوں کو فقہ کی تعلیم دیں ۔) آپ کو خواب کی تعبیر مل گئی اور وہ دو بیٹے کوئی اور نہ تھے ایک جناب سید مرتضیٰ علم الہدیٰ رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے جامع نہج البلاغہ جناب سید رضی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔
شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو اس طرح تعلیم دی کہ آگے چل کر دونوں بھائی افق علم پرمہر و ماہ بن کر چمکے۔ کہ ایک مرتبہ جناب شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ اور جناب سید مرتضیٰ رحمۃ اللہ علیہ میں کسی علمی نکتہ میں اختلاف ہوا تو دونوں نے طے کیا کہ اس کا فیصلہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے کرائیں گے۔ جب مسئلہ کو کاغذ پر لکھ کر مولا کی ضریح مطہر کے حوالے کیا تو ادھر سے جواب آیا : ’’انت شیخی و معتمدی والحق مع ولدی علم الہدیٰ‘‘ (ائے شیخ مفید! آپ میرے لئے قابل اعتماد ہیں لیکن حق میرے بیٹے علم الہدیٰ (سید مرتضیٰؒ) کے ساتھ ہے۔ )
جناب شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ کی درس میں جہاں شیعہ علماء و طلاب شرکت کرتے ہیں وہیں اہل سنت علماء کی بھی کثرت تھی۔ آپ کی ذہانت اور حاضر جوابی اپنی مثال آپ تھی کہ اگر کوئی کتاب مذہب شیعہ کے خلاف لکھی جاتی تو آپ اس کا جواب ضرور لکھتے کہ جب آپ کی وفات ہوئی تو مخالفین نے سکون کی سانس لی کہ ان کا جواب لکھنے والا گذر گیا۔ (مرات الجنان فی تاریخ مشاہیرالاعیان ، جلد ۳، صفحہ ۱۹۹)
افسوس ۳ ؍ رمضان المبارک ۴۱۳ ھ کو بغداد میں رحلت فرمائی، آپ کے شاگرد جناب سید مرتضیٰ علم الہدیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے نماز جنازہ پڑھی ۔ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے روضہ مبارک میں دفن ہوئے۔