تحریر: مولانا غلام محمد شاکری
وہی بزم ہے وہی دھوم ہے، وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ہے کمی تو بس اسی چاند کی، جو تہہ مزار چلا گیا
حوزہ نیوز ایجنسی। گلشن ہستی میں جن قابل قدر شخصیات نے اپنے خون جگر سے چمن کی آب پاشی کی اور اپنے وجود سے انسانوں کی بہتری اور نجات کے لیے فانوس کا کردار ادا کرتی رہی اور رہتی دنیا تک کے لیے اپنی حیات مستعار کے بیش قیمت نقوش انسانی دلوں پر سجا گئی ان میں سے ایک نمایاں نام شیخ محمد مرزا کربلائی کا ہے،
یہ گوہر نایاب اپنی عظیم حیات اخلاق، عمل، ربّ سے راز و نیاز، بندگی ،خدمت، مشقت اور أمر معروف کے عمدہ نمونہ تھے جنہوں نے گمنامی میں اپنے راز و نیاز کے ذریعے سجاد آباد سیسکو کی بستی میں ایسی خدمت کر گئے جو رہتی دنیا تک یہاں کے باسی نہیں بھول پائیں گے، شیخ مرزا کی دعاؤں کے بدولت اس بستی نے کھبی بھی کوئی ایسا برا دن نہیں دیکھا جو اس بستی کے لیے ناقابلِ برداشت ہو ان کے وجود مقدس نے برکتوں اور فیوض کے وہ نقوش چھوڑے ہیں جس سے یہ بستی غیر محسوس طور پر مادی، علمی اور معنوی ترقی کرنے لگی مرحوم شیخ نے دشواریوں میں اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر جینے کا سلیقہ سکھایا یہی سبب ہے کہ آج بھی اس بستی کا طرّۂ امتیاز ہے کہ یہاں کے لوگ اپنی محنت سے زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کو اپنے لیے ننگ و عار سمجھتے ہیں۔
میری زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا کہ جس میں استاد محترم کی رہنمائی میسر نہ ہوئی ہو اور کوئی سفر ایسا نہیں گزرا جس سفر میں استاد کی دعائیں رستے کا سہارا نہ بنی ہوں۔ ہاں۔۔۔۔ وہ ایک مکمل استاد تھا جس کے رفتار و کردار سے یہاں کے لوگوں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا، یہ وہ باعظمت انسان، رہنما اور استاد ہے جس کی عظمت کے بارے میں بس یہی کافی ہے کہ کہتے ہیں جب فاتح عالم سکندر ایک مرتبہ اپنے اُستاد ارسطو کے ساتھ گھنے جنگل سے گزر رہا تھا تو رستے میں ایک بہت بڑا برساتی نالہ تھا، جس میں بارش کی وجہ سے طغیانی آگئی تھی ۔ اُستاد اور شاگرد کے درمیان بحث چِھڑگئی کہ نالہ پہلے کون پار کرے گا، استاد کہہ رہے تھے کہ پہلے مَیں جاؤں گا اور شاگرد بضد تھا کہ مجھے پار کرنے دیں۔ بالآخر ارسطو نے شاگرد کی بات مان لی اور پہلے سکندر نے نالہ پار کیا۔ نالہ عبور کرنے کے بعد ارسطو نے سکندر سے پوچھا ’’ تم نے پہلے نالہ پار کرکے میری بے عزّتی نہیں کی؟" سکندر نے جواب دیا ’’ نہیں اُستاد ِمحترم! مَیں نے اپنا فرض ادا کیا۔ ارسطو رہے گا، تو ہزاروں سکندر تیار ہو سکتے ہیں لیکن سکندر ایک بھی ارسطو تیار نہیں کرسکتا، اور شاید کوئی باور نہ کرے کہ مجهے یاد نہیں گھنٹوں گھنٹوں تک راز و نیاز سجدہ ریز رہنے والے اس شخص کی دعاؤں کی بدولت اس بستی میں کوئی شخص آج تک نہ کسی قسم کی مشکلات یا بیماری میں مبتلا ہوا نہ ہی اس بستی میں میں کوئی آفت آئی ہمیشہ پرسکون صحت مند اور خوشحالی میں دن گزارنے والی یہ بستی تھی، اور آج استاد کے بعد اسی بستی پر یہ وقت آگیا ہے کہ ابھی آپ کی پہلی برسی نہیں آئی اور روزانہ کسی نہ کسی کی بیماری کی خبر ملتی ہے۔ وہ مستجاب الدعوہ بندہ، وہ گمنام شخص اپنی دعاؤں کے ذریعے فالج زدہ افراد کے علاج و معالجہ کرنے میں علاقہ باشے میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا ان کی دعاؤں کے عجیب تاثیر کی وجہ سے ہر کوئی دل و جان مسے آپ کا معتقد تھا، شاید یہی امتحان الہی تها کہ اس بستی نے وہ دن بهی دیکھے کہ شب روز بے لوث خدمت کرنے والا انسان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی خدمات کے نقوش جابجا چھوڑ کر چلا گیا، مسجد سے اب وہ ریاکاری سے پاک دلوں کو جِلا بخشنے والی دعائیں اور مناجاتیں نہ سنائی دیں گی، ہر دکھ درد میں مبتلا انسان کا سب سے پہلے مسیحا بن کر ان کے دکھ درد میں شریک ہونے والا فرشتہ صفت انسان جس کے فراق میں ندامت کے آنسو بہانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ بس صرف اتنا عرض کروں گا اے بے سہاروں کے سہارا تیری عظمت کو سلام۔
گر خورد خون دلم مردمک دیدہ سزاست
کہ چرا دل به جگر گوشہ مردم دادم