حوزہ نیوز ایجنسیl
ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی
ماہ رمضان المبارک کے ستائیسویں دن کی دعا
أَللّـهُمَّ ارْزُقْنى فيهِ فَضْلَ لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَ صَيِّرْ اُمُورى فيهِ مِنَ الْعُسْرِ اِلَى الْيُسْرِ وَ اقْبَلْ مَعاذيرى وَ حُطَّ عَنّىِ الذَّنْبَ وَ الْوِزْرَ يـا رَؤُفـاً بِعِـبادِهِ الصّـالِحـينَ۔
ترجمہ:اے معبود اس مہینے میں مجھے شب قدر کی فضیلت نصیب فرما، اور اس میں میرے امور و معاملات کو سختی سے آسانی کی طرف پلٹا دے، میری معذرتوں کو قبول فرما اور گناہوں کا بھاری بوجھ میری پشت سے اتار دے، اے نیک بندوں پر مہربانی کرنے والے۔
اہم نکات ۱)نورانی لحظات کے فراق میں؛۲)مشکلات سے آسانیوں کی جانب سفر؛۳)عذر کی قبولیت اور گناہوں کا تمام ہوجانا۔ |
۱–أَللّـهُمَّ ارْزُقْنى فيهِ فَضْلَ لَيْلَةِ الْقَدْرِ:
ممکن ہے کہ ذہن میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہو کہ شب قدر کی فضیلت سے مربوط دعا کو ہم ستائیسویں دن کیوں پڑھ رہے ہیں؟
جواباً عرض کرینگے کہ:مرحوم شیخ عباس قمیؒ نے ''مفاتیح الجنان'' میں روزانہ کی دعاؤں کی ترتیب میں اختلاف کا ذکر کیا ہےاور اس جانب اشارہ کیا ہے کہ بعض دعائیں مقدم ہوگئی ہیں تو بعض مؤخر؛ مرحوم کفعمی نے اس دعا کو تھوڑے سے رد و بدل کے ساتھ انتیسویں دن کے ذیل میں ذکر کیا ہے،اس بنا پر آگے پیچھے ہونے کی وجہ سے کوئی خاص مشکل پیش نہیں آتی اور نہ ہی اسمیں کوئی خاص پیغام پوشیدہ ہے کیونکہ دعا میں موجو د ''فیہ' کا مرجع ماہ مبارک رمضان ہے نہ کہ کوئی خاص دن، اس لئے دعا کے معنیٰ یہ ہونگے کہ اے معبود اس مہینے میں مجھے شب قدر کی فضیلت نصیب فرما، بہر حال اہم یہ ہے کہ ان فِقرات کے معانی کو مد نظر رکھا جائے۔
ماہ رمضان کی سب سے اہم مناسبت شب قدر ہے جس کو مؤمنین شروع سے اہمیت دیتے ہیں اور اسی طرح اہمیت دیتے رہیں گے ، شب قدر سے مراد کیا ہے؟قدر سے مراد تقدیر اور اندازہ گیری ہے اور شب قدر ، اندازہ کرنے کی رات ہے اور خداوند عالم اس رات میں آئندہ سال کے حوادث کو معین کرتا ہے ۔ زندگی، موت، رزق، سعادت اور شقاوت وغیرہ کو اس رات میں معین کرتا ہے ۔شب قدر کس رات کو کہتے ہیں؟قرآن کریم میں کوئی ایسی آیت نہیں ملتی جس میں شب قدر کوصریح طور پر بیان کیا گیاہو ۔ لیکن قرآن کریم کی چند آیتوں کو ایک جگہ جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شب قدر ماہ رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات ہے ۔ قرآن کریم ایک طرف فرماتا ہے : إِنّٰا أَنْزَلْنٰاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبٰارَكَةٍ إِنّٰا كُنّٰا مُنْذِرِينَ ؛ ہم نے اس (کتاب) کو ایک بابرکت رات (شبِ قدر) میں نازل کیا ہے بےشک ہم (عذاب سے) ڈرانے والے رہے ہیں۔ ﴿الدخان، 3﴾اس آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پورا قرآن کریم ایک مبارک رات میں نازل ہوا ہے اور دوسری طرف فرماتا ہے : شَهْرُ رَمَضٰانَ اَلَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ اَلْقُرْآنُ؛ ماہ رمضان وہ (مقدس) مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ﴿البقرة، 185﴾، گویا پورا قرآن کریم ماہ رمضان میں نازل ہوا ہے ۔ اور سورہ قدر میں فرماتا ہے : إِنّٰا أَنْزَلْنٰاهُ فِي لَيْلَةِ اَلْقَدْرِ ؛ بےشک ہم نے اس (قرآن) کوشبِ قدر میں نازل کیا۔ ﴿القدر، 1﴾ ان تینوں آیات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ قرآن کریم ماہ مبارک رمضان کی ایک رات میں نازل ہوا ہے اور وہی رات، شب قدر ہے ۔ اس بنا پر کہہ سکتے ہیں شب قدر ماہ رمضان میں ہے ، لیکن ماہ رمضان کی کون سی رات شب قدر ہے ، اس سےمتعلق قران کریم میں کوئی آیت دلالت نہیں کرتی۔ اور صرف روایات کے ذریعہ شب قدر کو معین کیا جاسکتا ہے ۔
ائمہ اطہار Eسے منقول بعض روایات میں شب قدر، ماہ رمضان کی انیسویں، اکیسویں او رتیئسویں راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے اور ان میں سے بعض روایات میں اکیسویں اور تیئسویں رات میں سے کوئی ایک رات ہے اور بعض روایات میں تیئسویں شب میں معین ہے [1]، اورشب قدر کی عظمت اور اہمیت کی وجہ سے اس کو کسی ایک رات میں معین نہیں کیا ہے تاکہ خدا کے بندے اپنے گناہوں سے اس کی توہین نہ کریں ۔
ائمہ اہل بیت Eکی روایات میں شب قدر ، ماہ رمضان کی انیسویں، اکیسویں او رتیئسویں راتوں میں سے ایک رات ہے ۔ لیکن اہل سنت کے طُرق سے منقول روایات میں عجیب طرح کا اختلاف ہے ۔ جو جمع کے قابل نہیں ہے لیکن اہل سنت کے درمیان مشہور یہ ہے کہ ماہ رمضان کی ستائیسویں رات شب قدر ہے [2]، اور اس رات میں قرآن کریم نازل ہوا ہے ۔۔۔
۲–وَ صَيِّرْ اُمُورى فيهِ مِنَ الْعُسْرِ اِلَى الْيُسْرِ:
دنیا دارالامتحان ہے اس میں انسانوں کو آزمایا جاتا ہے ۔آزمائش سے کسی مومن کوبھی مفر نہیں۔ اسے اس جہاں میں طرح طرح کی مصائب اور پریشانیوں کاسامنا کرنا پڑتاہے۔ قسم قسم کےہموم وغموم اس پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔اور یہ تمام مصائب وآلام بیماری اور تکالیف سب کچھ آزمائش ہے تاکہ بندے اطاعت پرمضبوط ہوکر نیکی کے کاموں میں جلدی کریں اور جوآزمائش انہیں پہنچی ہے اس پر وہ صبر کریں تاکہ انہیں بغیر حساب اجروثواب دیا جائے ۔ اور یقیناً سنت ِ الٰہی کا بھی یہی تقاضا ہےکہ وہ اپنے نیک بندوں کوآزماتا رہے تاکہ وہ ناپاک کوپاک سےنیک کو بد سے اور سچے کوجھوٹے سے جدا کردے ۔ لیکن جہاں تک ان کے اسباب کا تعلق ہے تو وہ سراسر انسان کے اپنے کئے دھرے کا نتیجہ سمجھنا چاہیے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’جوکچھ تمہیں مصائب پہنچتے ہیں وہ تمہارے ہی کردار کا نتیجہ ہیں جبکہ تمہارے بے شمار گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے ‘‘ دنیا میں غم ومسرت اور رنج وراحت جوڑا جوڑا ہیں ان دونوں موقعوں پر انسان کو ضبط نفس اور اپنے آپ پر قابو پانے کی ضرورت ہے یعنی نفس پر اتنا قابو ہوکہ مسرت وخوشی کے نشہ میں اس میں فخر وغرور پیدا نہ ہو اور غم وتکلیف میں وہ اداس اور بددل نہ کیونکہ رب العزت نے ہر پریشانی کے ساتھ ساتھ ہی آسانی بھی فراہم کررکھی ہے۔۔
۳–وَ اقْبَلْ مَعاذيرى:
توبہ کے بعد عقاب اور مجازات کے ساقط ہونے میں خدا کے فضل و احسان کا پہلو پایا جاتا ہے ، اگر خداوندعالم ارادہ کرلے کہ توبہ کے بعد اپنے بندہ کے گناہ کو نہ بخشے تو ممکن ہے جس طرح لوگوں کے درمیان رائج ہے کہ جب کوئی کسی کے حق میں ظلم کرتا او رپھر عذر خواہی کرتا ہے تو وہ اس کو بخشے یا نہ بخشے، بہر حال اللہ کے حضور عذر خواہی کے کوئی معنیٰ تو نہیں ہیں کیونکہ وہ ہر حقیقت سے واقف تو پھر عذر، عذر ہے ہی نہیں ۔۔پھر بھی ہم ناچیز وں کی جیب میں ان سب چیزوں کے علاوہ کچھ اور ہے بھی تو نہیں۔۔،
۴–وَ حُطَّ عَنّىِ الذَّنْبَ وَ الْوِزْرَ:
گناہوں کا بھاری بوجھ میری پشت سے اتار دے، اس جملہ میں موجود لفظ ”وزر“ قابل توجہ ہے ؛ اس کے معنی بھاری بوجھ کے ہیں ، یہ لفظ گناہ کے معنی میں بھی آیا ہے اور یہ جو” وزیر“ کو ”وزیر“ کہا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہوتی ہے ۔ کس قدر دشوار ہے انسان اپنے گناہوں کا بوجھ اپنے کاندھے پر اٹھائے ساتھ ہی ہزاروں دوسرے افراد کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھائے اور اگر ان کی گمراہ کن باتیں بعد کی نسلوں کی گمراہی کا سر چشمہ بناجائیں تو ان کا بوجھ بھی ان کے کندھے پر پڑے گا ۔۔۔۔
۵–يـا رَؤُفـاً بِعِـبادِهِ الصّـالِحـينَ:
اے نیک بندوں پر مہربانی کرنے والےاس مہینے میں مجھے شب قدر کی فضیلت نصیب فرما، اور اس میں میرے امور و معاملات کو سختی سے آسانی کی طرف پلٹا دے، میری معذرتوں کو قبول فرما اور گناہوں کا بھاری بوجھ میری پشت سے اتار دے۔
نتائجدعا کا پیغام:1- شب قدر کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کی درخواست؛2- مشکلات کے آسانیوں میں تبدیل ہونے کی درخواست؛3- صالح بندوں پر خدا کی رأفت و محبت۔ منتخب پیغام:️ اگر زندگی میں مصائب و آلام نہ ہوں سختیاں اور پریشانیاں نہ ہوں، تو انسان آرام و آسائش کے مطلب و مفہوم کو سمجھ بھی نہیں سکتا اور پتہ ہی نہیں چلے گا کہ راحت و آرام کہتے کسے ہیں،در اصل یہ مشیتِ الٰہی ہے کہ ہر سختی کے ساتھ آسانی بھی ہواور ہر رنج وغم کے بعد راحت و آرام : «فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً*اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً؛ ہاں زحمت کے ساتھ آسانی بھی ہے * بے شک تکلیف کے ساتھ سہولت بھی ہے » [3]۔ |