۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
ماہ رمضان المبارک کے انتیسویں دن کی دعا

حوزہ/دعاکا پیغام:1-  رحمت الہی کی درخواست؛2- ترک گناه کی توفیق کی درخواست؛3-  تہمت کی تاریکی سے قلب کے پاک ہونے کی درخواست؛4-  مؤمنین پر خدا کی خاص رحمت کی شمولیت۔

حوزہ نیوز ایجنسیl

ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

ماہ رمضان المبارک کے انتیسویں دن کی دعا

ماہ رمضان المبارک کے انتیسویں دن کی دعا/دعائیہ فقرات کی مختصر تشریح

أَللّـهُمَّ غَشِّنى فـيهِ بِالرَّحْـمَةِ وَ ارْزُقْنى فيهِ التَّوْفيقَ وَ الْعِصْمَةَ وَ طَهِّرْ قَلْبى مِنْ غَياهِبِ التُّهَمَةِ يـا رَحيماً بِعِبـادِهِ الْمُؤْمِنـينَ۔

ترجمہ:اے معبود! اس مہینے میں مجھے اپنی چادر رحمت میں ڈھانپ دے، مجھے اس میں توفیق اور تحفظ دے، اور میرے قلب کو تہمت کی تیرگیوں سے پاک کردے، اے اپنےبا ایمان بندوں پر بہت مہربان۔

اہم نکات

۱)چادرِ رحمت کے سائے تَلے؛۲)توفیق اور تحفظ؛۳)تہمت کی تاریکیوں سے نجات۔

دعائیہ فِقرات کی مختصر تشریح

۱–أَللّـهُمَّ غَشِّنى فـيهِ بِالرَّحْـمَةِ:

پروردگار نے یہ دنیا اپنی رحمت کے ظہور کے لیے بنائی ہے،اور اسکی رحمت''وسعت کل شئ'' (دعائے کمیل)کی منزل میں ہے، لیکن رحمت کا یہ ظہور انسان کے ارادے کی آزادی اور اختیار کے صحیح استعمال کے ساتھ وابستہ ہے ، خدا چاہتا ہے کہ بندے اسی کی عنایات، فضل و احسان اور مہربانیوں کے قدردان بن کر جینے کا عہد کریں اور ہرحال میں نیکی کی راہ اختیار کئے رکھیں، اس کے عوض میں وہ اپنے بندوں کو دنیا و آخرت، دونوں میں اپنے فضل و کرم کا سزاوار ٹھہراتا ہے، اللہ ایسے لوگوں کو دنیا میں پاکیزہ زندگی گزارنے کے حالات کو سازگار بنا دیتا ہے، وہ انہیں دنیا کی آزمائش میں صبر و استقامت کے ساتھ حق پر قائم رہنے کا حوصلہ دیتا ہے اور مصائب و تکالیف کی صورت میں ان کے ایمان کو قوی کرتا ہے، جس سے ان کے نفوس کا تزکیہ ہو جاتا ہے، وہ مشکلات و مصائب کے باوجود سکون اور اطمینان محسوس کرتے ہیں اور اپنے رب پر ان کا یقین اور مضبوط ہو جاتا ہے ۔

اس کے برخلاف انسان اگر پروردگار کے بارے میں بے پروا اور سرکش ہو جائے اور نافرمان ہو کر شیطان کی راہ پر چلنے کا فیصلہ کر لے تو ایسا نہیں ہوتا کہ اس کی فوراً گرفت ہو جاتی ہے بلکہ اسے ڈھیل ملتی ہے، اللہ اسے مہلت دیتا ہے تاکہ وہ اگر چاہے تو اپنی اصلاح کر لے، اس طرح کی مہلت ملنے کے باوجود بندہ اگر برائی پر جما رہے اور خدا کی طرف متوجہ نہ ہو اور اس ڈھیل ملنے کا فائدہ نہ اٹھائے تو پھر وہ خدا کے غضب کی زد میں آ جاتا ہے ۔ پھر ہو سکتا ہے کہ وہ اسی دنیا میں اس کو پکڑے اور اسے سزا بھی مل جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خدا اپنی حکمت کے تحت دنیا میں اس کی گرفت نہ کرے اور زندگی کے آخری سانس تک اسے کھیل کھیلنے کا موقع ملا رہے ، یہ صورت مجرموں کی آزمائش کو مزید سخت کر دیتی ہے ،وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ سرکشی کے باوجود خدا اگر ان کا راستہ نہیں روک رہا، بلکہ انھیں زیادہ کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں تو خدا کی مرضی بھی یہی ہے کہ میں ایسی ہی زندگی گزاروں،،اس سے اس کی شقاوت اور بدبختی میں اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے او ر بالآخر وہ شیطان کے راستے پر چلتے ہوئے زندگی کے آخری کنارے پر پہنچ جاتا ہے جہاں آخرت کی سختیاں اور جہنم کا عذاب اس کے منتظر ہوتے ہیں ۔اسی لئے بااختیار انسان کو خدا کی رحمت کی وجہ سے سرکشی کی راہ اختیار نہیں کرنی چاہیئے۔۔اب ہم نبی اکرم1 کی ایک پرمعنی اور واضح حدیث کے ساتھ بات ختم کرتے ہیں، آپ کا ارشاد ہے : أن للّٰه عزّ و جلّ مائة رحمة أنزل منها واحدة إلى الأرض فقسمها بين خلقه فبها يتعاطفون و يتراحمون و أخر تسعاً و تسعين لنفسه يرحم بها عباده يوم القيامة۔ خدا وندتعالی کی رحمت کے سو باب ہیں جن میں سے اس نے ایک کو زمین پر نازل کیا ہے اور (اس رحمت) کو اپنی مخلوق میں تقسیم کیا ہے۔ لوگوں کے درمیان جو عطوفت، مہربانی اور محبت ہے وہ اسی کا پر تو ہے لیکن نناوے حصے رحمت اس نے اپنے لئے مخصوص رکھی ہے اور قیامت کے دن اپنے بندوں کو اس سے نوازے گا[1]۔

۲–وَ ارْزُقْنى فيهِ التَّوْفيقَ وَ الْعِصْمَةَ:

دعا کے اس حصہ میں توفیق اور عصمت کو کلیدی مقام حاصل ہے:

(الف)توفیق: اصل چیز توفیقِ خداوندی ہی ہے ، جب تک خدا کی توفیق شاملِ حال نہ ہو کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا ہے، اس لئے خدا سے نیکی کے لئے توفیق کی دعا کرنی چاہیے۔

مولانا روم نے ایک بڑا نصیحت آموز واقعہ لکھا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں: ایک آقا اورغلام کا گزر مسجد کے پاس سے ہوا، نماز کا وقت ہوگیا، اذان دی جاچکی تھی غلام نے آقا سے کہا، تھوڑی دیر کے لیے اجازت دیں تو میں نماز ادا کرلوں، آقا نے جو دنیا کی دولت پا کر خدا کو فراموش کرچکا تھا، بے رخی سے اجازت دے کر کہا، جاؤ جلدی سے نماز پڑھ کر آجاؤ، میں یہیں باہر انتظار کرتا ہوں، غلام آقائے حقیقی کے دربار میں چلا گیا ، نماز شروع کردی، نماز کی لذت سے وہ آشنا تھا، وہ اس لذت میں محو تھا ؛لوگ اپنی اپنی نمازیں پڑھ کر چلے گئے، یہ غلام اور نمازیں پڑھتا رہا، جب کافی تاخیر ہوگئی تو آقا سے رہا نہ گیا، غصہ میں چلّانے لگا ، کمبخت! سب نکل گئے، تم وہاں کیا کررہے ہو؟ کیا کسی نے پکڑ لیا ہے جو باہر نہیں آنے دے رہا ہے، کون ہے وہ جس نے پکڑ رکھا ہے؟ غلام نے اندر سے جواب دیا ، جی ہاں آقا! ہم کو اسی نے پکڑ رکھا ہے اور باہر جانے نہیں دے رہا ہے جو آپ کو اندر آنے نہیں دیتا! ۔۔۔۔دیکھیئے توفیق کی بات اور خدا کی عنایت کا حال۔۔۔ ایک کو تو وہ لذت دی کہ باہر نہیں آرہا ہے جیسے پکڑلیا گیا ہو اور دوسرے کو توفیق نہیں دی کہ اندر جاکر نماز ادا کرے۔اس لئے توفیق خدا وندی کے لئے دعابہت ضروری ہے۔۔

(ب) عصمت : لغوی اعتبار سے عصمت "ع ص م" کے مادے سے اسم مصدر ہے جس کے معنی مصونیت اور محفوظ رہنا، پاکدامنی اور نفس کو گناہ سے بچانا،روکنے کا وسیلہ" کے ہیں[2]۔ اس فقرے میں یہی لغوی معنیٰ مراد ہے اور یہ اس اصطلاحی معنیٰ سے فرق کرتا ہے جو انبیاء و مرسلین یا آئمۂ کرام E کے لئے مذکور ہے ۔۔۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ خدایا مجھے گناہوں سے دور رکھ ۔۔۔ امام صادق Aبیان فرماتے ہیں:۔۔۔ وَ إِنَّ اَللَّهَ عَزَّ ذِكْرُهُ يَعْصِمُ مَنْ أَطَاعَهُ وَ لاَ يَعْتَصِمُ بِهِ مَنْ عَصَاهُ۔۔؛ پروردگار اس شخص کو گناہوں سے دور رکھتا ہے جو اسکی اطاعت کرتا ہے ، اور پروردگار کے دائرۂ حفاظت سے وہ خارج ہے جو اسکی نافرمانی انجام دے[3]۔

۳–وَ طَهِّرْ قَلْبى مِنْ غَياهِبِ التُّهَمَةِ:

دین اسلام نے ہمیشہ اپنی پیروی کرنے والوں کو دوستی و محبت کا درس، اچھی باتوں کا حکم اور بری باتوں سے منع کیا ہے اور انسانوں کو گناہوں سے دور رہنے کی تاکید کی ہے گناہان کبیرہ میں سے ایک بڑا گناہ " تہمت " ہے۔ جوانسان کی فردی اور اجتماعی زندگی پر زیادہ نقصان دہ اثر مرتب کرتا ہے ،اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص پر تہمت لگاتا ہے تو وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ خود اپنے آپ کو بھی نقصان پہنچاتا ہے اور اپنی روح کو گناہوں سے آلودہ کرلیتا ہے،فرزند رسول حضرت امام جعفرصادق Aفرماتے ہیں: بے گناہ پر تہمت لگانا عظیم پہاڑوں سے بھی زیادہ سنگین ہے،اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر تہمت ہے کیا ؟ تہمت کے معنی یہ ہیں کہ انسان کسی کی طرف ایسے عیب کی نسبت دے جو اس کے اندر نہ پائے جاتے ہوں ۔ تہمت گناہان کبیرہ میں سے ایک عظیم گناہ ہے اور قرآن کریم نے اس کی شدید مذمت کرتے ہوئےاس کے لئے سخت عذاب کاذکر کیا ہے۔ درحقیقت تہمت و بہتان، جھوٹ کی بدترین قسموں میں سے ہے اور اگر یہی بہتان ، انسان کی عدم موجودگی میں اس پر لگایا جا‏ئیں تو وہ غیبت شمار ہوگی اور ایسی صورت میں اس نے دو گناہ انجام دیئے ہیں ،ایک روزفرزند رسول حضرت امام جعفر صادقAکے ایک صحابی آپ کے ساتھ کہیں جارہے تھےاور اس کے غلام اس سے آگے بڑھ گئے تھے اس نے اپنے غلاموں کو آواز دی لیکن غلاموں نے کوئی جواب نہ دیا اس نے تین مرتبہ انہیں پکارا لیکن جب ان کی جانب سے کوئی جواب نہ ملا تو یہ شخص غصے سے چراغ پا ہوگیا اور اپنے غلام کو گالیاں دیں جودرحقیقت اس کی ماں پر تہمت تھی۔ راوی کا بیان ہے کہ امام جعفرصادق Aنے جب ان غیر شائستہ الفاظ کو سنا تو بہت زیادہ ناراض ہوئے اور اسے ان غیرمہذب الفاظ کی جانب متوجہ کرایا مگر اس نے غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے توجیہات پیش کرنا شروع کردیں جب امام Aنے دیکھا کہ وہ اپنی غلطی پرنادم نہیں ہے تو فرمایا: کہ تجھے اب اس بات کا حق نہیں کہ میرے ساتھ رہے ،تہمت معاشرے کی سلامتی کوجلد یا بہ دیرنقصان پہنچاتی ہے ، سماجی انصاف کو ختم کردیتی ہے ، حق کو باطل اورباطل کو حق بناکر پیش کرتی ہے ، تہمت انسان کو بغیر کسی جرم کے مجرم بناکر اس کی عزت و آبرو کو خاک میں ملادیتی ہے ۔ اگر معاشرے میں تہمت کا رواج عام ہوجائے اور عوام تہمت کو قبول کرکے اس پر یقین کرلیں تو حق ، باطل کے لباس میں اور باطل حق کے لباس میں نظر آئے گا،وہ معاشرہ ، جس میں تہمت کا رواج عام ہوگا اس میں حسن ظن کو سوء ظن کی نگاہ سے دیکھا جائے گا تو لوگوں کا ایک دوسرے سے اعتماد اٹھ جائے گا اور معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا یعنی پھر ہر شخص کے اندر یہ جرات پیدا ہوجائے گی کہ وہ جس کے خلاف ، جو بھی چاہے گا زبان پر لائے گا اور اس پر جھوٹ ، بہتان اور الزام لگا دے گا۔

۴–يـا رَحيماً بِعِبـادِهِ الْمُؤْمِنـينَ: اے اپنےبا ایمان بندوں پر بہت مہربان،اے معبود! اس مہینے میں مجھے اپنی چادر رحمت میں ڈھانپ لے، مجھے اس میں توفیق اور تحفظ دے، اور میرے قلب کو تہمت کی تیرگیوں سے پاک کردے۔

نتائج

دعاکا پیغام:1- رحمت الہی کی درخواست؛2- ترک گناه کی توفیق کی درخواست؛3- تہمت کی تاریکی سے قلب کے پاک ہونے کی درخواست؛4- مؤمنین پر خدا کی خاص رحمت کی شمولیت۔

منتخب پیغام:وہ تہمتیں کہ جو ظلمت اور تاریکی لاتی ہیں وہ دو طرح کی ہیں:

1) خدا پر تہمت

تہمت کی ظلمت و تاريكی ،کبھی ممکن ہے کہ ـ العیاذ بالله ـ خدا پراتہام‌سے پیدا ہوتی ہےکہ جو در حقیقت خدا کی تقدير اورمشيت الہی سے نارضایتی کی بنا پر سامنے آتی ہے۔

روايت میں آیا ہے کہ خدا نے موسیA کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: «میرا سب سے بڑا دشمن وہ ہے کہ جومجھ پر تہمت لگاتا ہے! حضرت موسیAنے کہا: پروردگارا وہ کون ہے جو تجھ پر تهمت لگاتا ہے؟ خدا نے ارشاد فرمایا: وہ کہ جویہ گمان کرتا ہے کہ وہ چیز جو میں نے کسی مصلحت کہ بنا پر مقدر کردیا ہے اس سے راضی نہ ہو اور یہ فکر کرے کہ ایسا نہ ہوتا تو بہتر تھااور میری تقدیر کی ہوئی چیز سے راضی نہ ہو[4]»

2) لوگوں پرتہمت

قلب کی ظلمت و تاريكی ،بعض اوقات لوگوں پر اتہام واردكرنے سے بھی پیدا ہوتی ہےکہ جو گناہان كبيره میں شمار ہے[5]۔


[1] – مجمع البیان ج۱؛ تفسير الصافي , ج 1 , ص 82

[2] – ابن منظور، ج۱۲، ص۴۰۵

[3] – الکافی , ج 8 , ص 81

[4]– مجلسی، بحار الأنوار، ج 68، ص 142

[5]– محمدی ری‌شهری، محمد، ميزان الحكمه، ج 1، ص 538

تبصرہ ارسال

You are replying to: .