القرآن:
وَقُلِ اعْمَلُواْ فَسَيَرَى اللّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ 1
"اور تم فرما ؤ کام کرو اب تمہارے کام دیکھے گا اللہ اور اس کے رسول اور مسلمان۔۔۔ "
آیت کے تناظر میں:
آیت اشارہ کرتی ہے کہ کوئی بھی شخص یہ تصور نہ کرے کہ اگر وہ کوئی کام انجام دیتا ہے ، خواہ وہ رازداری میں ہو یا لوگوں میں لوگوں کے درمیان ، تو یہ عمل اور کام خدا سے پوشیدہ ہوگا اور وہ اللہ تعالی کے علم سے غائب رہے گا۔ بلکہ اللہ تعالی ، اس کے رسول ص اور مومنین بھی اس کے اعمال اور کاموں کے عینی شاہد ہیں۔ اس حقیقت پر ایمان رکھنا اور اس سچائی پر ہمیشہ دھیان دینا اور اس پر یقین رکھنے سے کام کی پاکیزگی اور کامیابی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے ، کیونکہ ایک شخص جب عام طور پر محسوس کرتا ہے کہ کوئی اس کا مشاہدہ کررہا ہے اور اس کی حرکات وسکنات کی پیروی کررہا ہے ، اور سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ تو پھر وہ اس انداز میں کام کرنے کی کوشش کرتا ہے جس میں کوئی کمی یا نقص نہ رہے، تاکہ اسکی نگرانی کرنے والوں کے سامنے وہ قصور وار نہ ٹھہرے۔ عام اور معمول کی زندگی میں اعمال اور کاموں کی مراقبت اور پیروی کی جاتی ہے۔ دنیا بھر کے اداروں اور کام کے مختلف شعبوں میں وسیع پیمانے پر اس کا اطلاق ہوتا ہے، پھر اسکی کیا کیفیت ہونی چاہیے کہ جب اس کا یقین ہو اور انسان یہ محسوس کرے کہ اس کا خدا، اس کے رسول ص، اور مومنین ع اس کے اعمال سے واقف ہیں۔ آیت کریمہ میں مومنین سے مراد عام مومنین نہیں بلکہ یہاں مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصیاء ہیں۔ روایت ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام سے کسی نے درخواست کی: آپ میرے اور میرے اھل خانہ کے لئے خدا سے دعا کریں، تو آپ ع نے فرمایا: کیا ہم ایسا نہیں کرتے؟ اور خدا کی قسم ، تمہارے دن رات کے اعمال میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں ، راوی کہتا ہے: تو میں نے تعجب کیا ، تو آپ ع نے مجھ سے فرمایا: کیا تم خدا تعالٰی کی کتاب نہیں پڑھتے ہو ؟:
وقل اعملوا فسيرى اللَّه عملكم ورسوله والمؤمنون 2
"اے نبی ان سے کہ دو کہ اعمال بجا لاو آپکے اعمال کا اللہ تعالی شاہد ہے اور اللہ کے رسول اور مومنین شاہد ہیں۔ اور وہ علی بن ابی طالب ہیں۔ (اور آئمہ طاہرین ہیں۔)۔"
یہاں پر جو کچھ جاننا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارا کام کس طرح کامیاب اور پاکیزہ ہوسکتا ہے اور اس کے لئے کیا شرائط ہیں ، اور ہم خدا ، اسکے نبی اور آئمہ طاہرین کی نگرانی اور مراقبت کے تابع ہیں۔ ہمارے سوال کا جواب مندرجہ ذیل نکات کے بیان سے واضح ہو جائےگا :
1- حُسنِ عمل اور کام میں اچھائی
خداتعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا 3
"بیشک ہم نے زمین کا سنگھار کیا جو کچھ اس پر ہے کہ انہیں آزمائیں ان میں کس کے کام بہتر ہیں"۔
یہاں اس آیت کی رو سے معیار کیفیت عمل ہے تعداد عمل نہیں۔ یعنی مقدار نہیں بلکہ کام اور عمل کا عمدہ اور احسن ہونا معیار ہے۔ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: اس کا مطلب زیادہ کام نہیں ہے، درست کام ہے۔ احسن اور درست اعمال کے شرط خوف خدا اور مخلصانہ نیت ہے۔ اور پھر فرمایا:
الابقاء على العمل حتى يخلص اشد من العمل والعمل الخالص الذي لا تريد ان يحمدك عليه احد الا الله عزوجل" 4۔
"کام کے ختم ہونے تک کام کو جاری رکھنا، کام اور خالص کام سے کہیں زیادہ سخت ہے جس کے لئے آپ نہیں چاہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کے علاوہ کوئی بھی آپ کی تعریف کرے"۔
2 - عمل اور کام تقویٰ کے ساتھ ہو
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو ذر کو یہ کہتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ: "اے ابوذر ، آپ اپنے اعمال اور کام سے زیادہ تقویٰ کے ساتھ اعمال اور کام کرنے کے فکرمند رہیں۔ اعمال کی قبولیت کا انحصار تقوی کے ساتھ بجا لانے پر ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا : ۔۔۔ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ6۔ "خدا وند تعالی فقط متقی اور پرھیز گاروں سے قبول کرتا ہے"۔
3 - اعمال اور کاموں میں دوام اور تسلسل
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
يا حمران .. واعلم ان العمل الدائم القليل على اليقين افضل عند الله عزوجل من العمل الكثير على غير اليقين۔
"اے حمران .. اور جان لو ، کہ یقین کے ساتھ ایک کم مقدار ميں لیکن مسلسل عمل اور کام اللہ رب العزت کے نزدیک بے یقینی کے کثیر تعداد کے اعمال اور کاموں سے بہتر ہے"۔
ورنہ کچھ لوگ اس امر میں مبتلا ہیں کہ وہ یقین کے بغیر کچھ خاص اعمال کرتے رہتے ہیں، بلکہ ان اعمال کو بجا لانا انکی عادت بن جاتی ہے اور اسے وہ نہیں چھوڑ سکتے اور اگر ان اعمال کو چھوڑ دیں تو وہ پریشان ہوجائیں ، ایسے اعمال انہیں اللہ تعالی کے قریب نہیں لاتے ، بلکہ وہ فقط مشقت برداشت کرتے رھتے ہیں۔
4 - اعمال میں توفیق
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے آپ نے فرمایا: سلوا اللہ السداد وسلوہ مع السداد سداد العمل 8۔
"خدا سے توفيق مانگو اور توفيق کے ساتھ اعمال کی توفیق کی دعا کرو"۔
5 - اعمال اور کاموں میں استحکام
ہمارے اکثر اعمال دلچسپی اور مستحکم فیصلوں کی کمی کی وجہ سے ضائع ہوجاتے ہیں۔ ہم ان میں ضروری پہلوؤں سے واقف ہوئے بغیر ہی ان کو انجام دیتے ہیں اور نہ ہی ان کا اچھی طرح سے مطالعہ کرتے ہیں جس سے ہمیں ان کو قابو میں رکھنے میں مدد مل سکے۔ لہذا وہ اعمال اور کام ناقص اور بے نتیجہ ہیں۔ حدیث شریف میں ہے: ...... ولكن الله يحب عبدا اذا عمل عملا احكمه 9۔
"۔۔۔۔۔ لیکن خدا وند تعالی اس بندے سے محبت کرتا ہے جو محکم کام کرتا ہے"۔
6 - کام کرنے کی رغبت اور تشویق
امیر المومنین ارشاد فرماتے ہیں: افضل الاعمال ما اكرهت نفسك عليه 10
"اعمال میں سے بہترین عمل وہ ہے جس کے بجا لانے کے لئے آپ اپنے نفس کو مجبور کرتے ہیں"۔
جب کہ انسانی نفس اکثر اعمال کو مسترد کرتا ہے۔ اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ تم نااہل اور ان کے بجا لانے کے قابل نہیں۔ یا وہ ان اعمال کو بجا لانے میں تاخیر اور ملتوی کرتا رھتا ہے ۔اور بعض لوگ بے بنیاد اوھام وخیالات کی بنیاد پر ضعف وکمزوری اور کاہلی وسستی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تو اس کا حل یہ ہے کہ دل میں کام کی تشویق اور رغبت پیدا کی جائے۔ اور نفس کو اعمال بجا لانے پر مجبور کیا جائے ، اور بہادری کے ذریعے دل سے خوف کو نکالا جائے ۔ جیسا کہ آپ ع سے روایت ہے
اذا هبت امرا فقع فيه ، فان شدة توقيه اعظم مما تخاف منه 11۔
"اگر کسی چیز سے خوف یا ڈر پیدا ہو تو اس میں گر پڑو یا داخل ہو جاو، پھر اس کے بچاو کی شدت اس سے کہیں بڑھ کر ہے جس سے آپ ڈرتے ہیں"۔
7 - کام اور عمل کو مکمل کرو
قال عيسى بن مريم عليهما السلام: يا معشر الحواريين بحق اقول لكم ، ان الناس يقولون لكم ان البناء باساسه وانا لا اقول لكم كذلك قالوا : فماذا تقول يا روح الله ؟ قال : بحق اقول لكم ان اخر حجر يضعه العامل هو الاساس۔ قال ابو فروة: انما اراد خاتمة الامر۔ 12
"عیسیٰ بن مریم ، سلام اللہ علیہما نے فرمايا: اے میرے حواریو! میں آپ کو حق بات کہتا ہوں کہ لوگ آپ کو بتاتے ہیں کہ عمارت اس کی بنیادوں سے ہے اور میں آپ کو اس طرح نہیں بتاتا ہوں۔ انہوں نے کہا: آپ کیا کہتے ہیں؟ اے خدا کی روح؟ فرمایا حق بات یہ ہے کہ عمارت کا آخری پتھر جب مزدور لگاتا ہے وہ اس کی اساس اور بنیاد ہے". ابو فروا نے کہا: انکی مراد فقط اختتام تھی"۔
8- اعمال اور کاموں میں نظم و ضبط
حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی وصیت میں ہے:
اوصیکما وجمیع ولدی واهلي ومن بلغه كتابي بتقوى الله ونظم امركم 13
"میں آپ کو اور اپنے تمام بچوں ، اپنے اہل خانہ اور ان لوگوں کو جن تک میرا پیغام پہنچے کہ تقوی الہی اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور اپنے امور کو نظم اور ترتیب دیں۔"
یہ شرط انفرادی واجتماعی زندگی کے امور میں فلاح و کامیابی کے حصول کے لئے اہم اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ خواہ وہ امور دینی ہوں یا دنیاوی ہوں یا اخروی ہوں۔
جب تک عمل غیر منظم اور بے قاعدہ ہے تو اس سے کسی بھی طرح کی اچھی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام بے ترتیب پن کو مسترد کرتا ہے اور انتشار اور پراکندگی کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے کیونکہ وہ اپنی عمدہ تعلیمات اور نظریات کو تہذیب اور نظم و ضبط کے اعلٰی اصولوں پر استوار کرتا ہے۔ خواہ ان امور کا تعلق عبادات سے ہو یا معاشیات سے اجتماعی امور ہوں یا سیاسی اور دیگر امور ہوں سب میں نظم و ضبط کی تاکید کرتا ہے۔
حوالہ:
1- التوبة:105.
2- أصول الكافي، ج1، ص171، باب عرض الأعمال.
3- الكهف:7
4- الوافي ج1، ص73.
5- مكارم الأخلاق، 55.
6- المائدة:27
7- الاختصاص، ص222.
8- المستدرك، ج1، ص360.
9- أمالي الصدوق، ص344.
10- نهج البلاغة، 1196.
11- نهج البلاغة، 1169.
12- معاني الأخبار، ص331.
13- نهج ابلاغة، 977.