تحریر: مولانا کرامت حسین جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی | موت برحق ہے اِس دنیا میں اربوں کھربوں لوگ آئے اپنی معینہ حیات جیئے اور پھر آل اولاد ، خاندان رشتے داروں کوچھوڑ کر اپنی ابدی منزل کی طرف چلے گئے جانے والوں کی یادوں کے نقوش ایک مدت تک رہتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ وہ یادیں دل و دماغ سے محو ہوجاتی ہیں۔البتہ کچھ ایسے نایاب اور یکتائے زمانہ افراد بھی ہوتے جو مر جانے بعد کے بھی اپنی نفع بخش زندگی ، نیک سیرتی اور خوش اخلاقی کی بدولت لوگوں کے دل و دماغ اور اذہان میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
خادم دین و ملت الحاج مولانا سید محمد علی آصف طاب ثراہ کی شخصیت بھی اُن صفات حمیدہ کی حامل تھی کہ جن کی یادیں امتداد وقت سے محو نہیں ہو سکتیں۔ آپ بافضل اور باعمل عالم دین تو تھے ہی ایک درمند اور نرم دل انسان بھی تھے جن کی پوری زندگی دوسروں کی زندگی کی تعمیر و ترقی اور اُن کی پریشانیوں اور ضرورتوں کے مواقع پر ہر گھڑی اور ہمہ تن وقف تھی۔
ایک عالم دین ہونے کے ناطے آپ نے علاقے کے گاوں کاوں بستی بستی علم کے چراغ جلائے ، آپ کے فیضِ علمی کی برکات ہیں کہ آج مغربی یوپی کی درجنوں بستیاں سینکڑوں کی تعداد میں علماء اور طلبا کے وجود سے فیضیاب ہو رہی ہیں۔
اللہ نے آپ کو اگر مال و دولت سے نوازا تو اس نعمت کو صرف اپنے اور اپنے سے وابستہ افراد تک محدود نہ رکھا بلکہ علاقے کے مفلوک الحال مومنین کی ضرورتوں کو بھی پیش نظر رکھا، نادار مومنین کے لیے مکانات، اُن کے بچوں کی تعلیم و تربیت مساجد، مکاتب اور حسینہ وغیرہ کی تعمیر و آبادی کے لیے بھی ہر ممکن معاون و کوشاں رہے، آپ کے علم و تجربے، دولت و ثروت اور بانفوذ و بااثر شخصیت پر آپ کا کریمانہ اخلاق ہمیشہ غالب رہا شیرین زبان، خندہ پیشانی اور منکسر المزاجی آپ کی سدا بہار صفات تھیں۔
زمیں کی رونق چلی گئی ہے اُفق پہ مہر مبیں نہیں ہے
تری جدائی سے مرنے والے وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے