۲۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۹ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 17, 2024
منافرت

حوزہ/برسوں سے مسلمانوں کی اس پریشانی کو دیکھ رہے کالی کرشنا نے اپنی ایک ایکڑ زمین مسلمانوں کے قبرستان بنانے کے لئے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ قبرستان کے ساتھ اس زمین پر عبادت کرنے کے لئے ایک عمارت بھی تعمیر کی جاٸے گی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،کولکاتہ۔ زمین کے ایک ٹکرے کے لئے آپس میں مارپیٹ، خون خرابے کے واقعات سننے کو ملتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کی زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں۔ مذہب کے نام پر سیاست کرتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ایسے بھی لوگ ہیں جو ان تمام باتوں سے بے پرواہ ہوتے ہیں۔ انکے سامنے انسانیت سب سے آگے ہوتی یے۔ مغربی بنگال کے بردوان ضلع میں ایک ہندو برہمن نے اپنی زمین کا بڑا حصہ مسلمانوں کو قبرستان بنانے کے لئے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

بنگال کے مشرقی بردوان میں کالی کرشنا مکھرجی ڈانگا پیرا گاٶں کے رہاٸشی ہیں۔ اس گاٶں میں مسلمانوں کی بھی ایک بڑی آبادی یے جو برسوں سے یہاں رہتی ہے اور مل جل کر رہتی ہے۔ یہاں کبھی کسی طرح کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ سب آپس میں مل جل کر رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں لیکن مسمانوں کی ایک بڑی آبادی کے باوجود یہاں مسلمانوں کے لئے کوٸی قبرستان نہیں ہے۔ کسی کی موت ہوتی ہے تو تدفین کے لئے یہاں کے لوگ دوسرے گاٶں میں جاتے ہیں۔

برسوں سے مسلمانوں کی اس پریشانی کو دیکھ رہے کالی کرشنا نے اپنی ایک ایکڑ زمین مسلمانوں کے قبرستان بنانے کے لئے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ قبرستان کے ساتھ اس زمین پر عبادت کرنے کے لئے ایک عمارت بھی تعمیر کی جاٸے گی۔ ریٹاٸرڈ سرکاری ملازم کالی کرشنا کے اس فیصلے سے ہر کوٸی حیران ہے۔ مسلم طبقہ ان کے اس فیصلے کو اہم بتارہا ہے۔ کالی کرشنا کے مطابق مذہب و دھرم سے اوپر انسانیت ہے۔ ہم سب کو مرنا ہے اور مرنے کے بعد اسی مٹی میں ملنا ہے ایسے میں مرنے کے بعد دو گز کی قبر کے لئے لاش کو دور لے جانا تکلیف دہ ہے۔ اسی علاقے میں قبرستان بھی ہونا چاہئے جبکہ یہاں شمشان گھاٹ ہے۔ اس لئے میں نے اپنی ایک ایکڑ زمین قبرستان کے لئے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاکہ اب لوگوں کو تدفین کے لئے دور نہ جانا پڑے۔

کالی کرشنا کے فیصلے سے ان کے گھر والے بھی خوش ہیں۔ ان کے پوتے نے بھی اپنے دادا کے فیصلے کو اہم بتاتے ہوٸے کہا کہ ہم اسکول کالج کے لئے زمین دیتے ہیں۔ ہماری زمین پر مسلمانوں کی آخری آرام گاہ بھی تعمیر ہوگی جس کا فیصلہ ہمارے بزرگ نے کیا ہے اور ہم اس کا احترام کرتے ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .