حوزہ نیوز ایجنسیl،ہندوستان اور پاکستان کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا ایسا مقام نہ ہوگا جہاں عزاداری ہوتی ہو اور گیارہ محرم کی شب میں شام غریباں کی مجلس نہ ہوتی ہو،دعوے سے کہا جاسکتا ہے کہ پینتالیس برس کی مختصر مدت میں مراسم عزاء کی کسی رسم کو بھی اتنی ہمہ گیری اور مقبولیت حاصل نہیں ہوئی،اس اہم اور اثر انگیز مجلس کی ابتدا لکھنؤ میں بالکل اچانک اس طرح ہوئی کہ ۱۹۲۶ءمیں ابن سعود کے مظالم سے تنگ آکر مدینہ منورہ کے رہنے والے دو عرب جن میں سے ایک کا نام سید صالح تھا (دوسرے کا نام یاد نہیں آرہا ہے) ۲؍محرم کو لکھنؤ آئے۔ امامباڑہ غفران مآبؒ کی مجلس میں شرکت کرنے کے بعد ان دونوں نے اپنا تعارف کرایا۔ اور کہا کہ لکھنؤ میں ان کا کوئی واقف کار نہیں ہے۔ امامباڑے کے ہی حجرہ میں ان دونوں کے قیام وطعام کا انتظام کیا گیا۔ عشرہ محرم کو میری اور سرکار عمدۃ العلماء کی یہ رائے ہوئی کہ ان دونوں مہمانوں کے ساتھ ہی امامباڑہ میں فاقہ شکنی کی جائے۔ مکان سے فاقہ شکنی کا سامان اور سماور وغیرہ منگا لیا گیا۔ فاقہ شکنی کے بعد چائے کا دور چل رہا تھا۔ برادر مرحوم انتخاب العلماء مولانا سید سبط محمد ہادی عرف کلن صاحب قبلہ، برادر عزیز سید محمد رضی اجتہادی مرحوم، سید شجاع حسین عرف شجن صاحب مرحوم بھی شریک فاقہ شکنی تھے۔ اچانک سید صالح (عرب) نے کہا کہ اس وقت دیگر باتوں کے بجائے اگر ذکر مصائب ہو تو بہتر ہے سب نے اس رائے کو پسند کیا۔ سید کاظم حسین (نگران امامباڑہ) کو بھیجا گیا کہ سادی چائے کا کچھ اور انتظام کرلیں اور مومنین کو اطلاع کردیں۔ تقریباً ستّر، اسّی حضرات جمع ہوگئے۔ انتخاب العلماء نے بہت کامیاب ذاکری فرمائی۔ عمدۃ العلماء نے مجلس کے بعد فرمایا مناسب ہے کہ یہ مجلس جس کی ابتدا اب کی ہوئی ہے ہر سال ہوا کرے مولوی سید رضی ہدفؔ اجتہادی صاحب مرحوم کی تجویز ہوئی کہ اس مجلس میں فرش اور نمگیرے وغیرہ کا کچھ انتظام نہ ہوا کرے۔ میرے منھ سے بے ساختہ نکلا کہ اس کا نام ’’شام غریباں‘‘ قرار دیاجائے۔ دوسرے سال باقاعدہ اعلان کے بعد مجلس منعقد کی گئی۔ اور خلاف امید اتنا مجمع ہوا کہ تقریباً نصف صحن بھر گیا۔ سرکار عمدۃ العلماء کا بیان اتنا اثر انگیز تھا کہ کئی آدمیوں کو غش آگیا۔ چونکہ قاعدہ ہے کہ کسی کے انتقال کے بعد دوستوں کی طرف سے سوگواروں کو کڑوی روٹی کے نام سے کھانا بھیجا جاتا ہے۔ اور یہ بھی شہرت ہے کہ زوجہ حُر اہل حرم کے لئے کھانا اور پانی لائی تھی۔ لہٰذا تیسرے سال یہ طے ہوا کہ شبیہوں کے بجائے کچھ خوان اور مشکیں مجلس کے بعد لائی جائیں اور کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں شمعیں روشن ہوں اس مظاہرے سے اثرانگیزی میں اور اضافہ ہوگیا۔
یہ مجلس سال بہ سال ترقی کرتی چلی گئی۔ اوربعض مومنین پر اتنا شدید گریہ طاری ہوتا تھا اور اس طرح غش آتا تھا کہ میڈیکل کالج لے جانا پڑتا تھا۔ لہٰذا مولوی علی حسین صاحب مرحوم کی تحریک پر وکٹوریہ گنج اسپتال کے انچارج ڈاکٹر اشتیاق حسین صاحب مرحوم دو کمپونڈروں اور دوائوں کے ساتھ آنے لگے۔ بکثرت بے ہوش ہوجانے والوں کو اٹھانے کے لئے شعبۂ اسکائوٹس نے اپنی خدمات پیش کیں۔ مجمع کی کثرت سے امام باڑہ غفران مآبؒ کا وسیع صحن تنگ داماں ہوگیا۔
سید کلب حسین مجتہد
شاید ۳۰ یا ۳۱ عیسوی میں جناب مہاراجکمار محمود حسن خان صاحب آف اقبال منزل اور حسینی شاعر فضلؔ صاحب نقوی کی تحریک سے لکھنؤ ریڈیواسٹیشن نے اس مجلس کو براڈکاسٹ کرنا شروع کیا۔ ابتداء میں کل ستّرہ منٹ دئیے گئے تھے جس میں پندرہ منٹ مجلس اور دو منٹ ماتم نشر کیا جاتا تھا۔ سرکار عمدۃ العلماءؒ کی خطابت اور قادرالکلامی کا یہ اعجاز تھا کہ جیسے ہی ایک چھوٹے سے بلب کے روشن ہونے سے براڈکاسٹنگ کا اشارہ ہوتا تھا، آپ بغیر اس کے کہ مجمع کو ذرا سا بھی احساس ہو اپنے بیان کا رُخ موڑ دیتے تھے۔ اور وہ انداز بیان اختیار فرما لیتے تھے جو بین الاقوامی نوعیت کا ہو۔ اور ہر مسلم اور غیر مسلم کے سننے کے لائق ہو۔ اور اس پندرہ منٹ میں نہ صرف معرکۂ کربلا کی تاریخ اور مقاصد جنگ بلکہ مقصد اسلام، رسولؐ اسلام کے انداز تبلیغ، اہلبیتؑ کی سیرت، مصائب کربلا سب کچھ ہی سمیٹ لیتے تھے کوزے میں نہیں بلکہ گویا قطرے میں سمندر سمو دیتے تھے۔ اس مجلس کا انداز دیگر مجالس سے ہمیشہ امتیازی اور جداگانہ رہا ہے۔ فضائل بھی ہوں، تذکرہ اہلبیتؑ بھی ہو، نکات بھی بیان کئے جائیں مگر انداز بیان ایسا رہے کہ سوگواری کا اثر قائم رہے۔ درود وصلوٰۃ اور تعریف کے ہمہموں سے یہ تاثر ختم نہ ہونے پائے۔
مجلس کے براڈکاسٹنگ ہونے کے بعد سے تو یہ ایک مجلس ہزاروں جگہ ہونے لگی۔ عزاخانوں میں یہ انتظام کیا گیا کہ اس مجلس کے وقت کے قریب روشنیاں گل کردی جائیں۔ فرش ہٹا دیا جائے اور بجائے ذاکر کے ریڈیو رکھ دیا جائے۔ لطف یہ کہ ہر جگہ وہی اثرانگیزی قائم رہتی ہے جو خود امام باڑہ میں سامعین پر ہوتی ہے۔
ایک نادر تصویر (دائیں سے بائیں) مولانا کلب عابد، مولانا کلب حسین اور ڈاکٹر مولانا کلب صادق۔
جناب عمدۃ العلماء نے اپنی حیات کے آخری دور تک اس مجلس کو نباہا۔ جناب مرحوم نے سب سے پہلی مجلس اسی امامباڑہ میں پڑھ کر اپنی ذاکری کی اتبدا کی تھی اور اپنی زندگی کے آخری محرم ۱۹۶۳ء میں دہم محرم کو عصر کے وقت آخری مجلس بھی اسی امامباڑے میں یوں پڑھی کہ فینس پر تشریف لے گئے کئی آدمیوں نے سنبھال کر منبر پر بٹھایا۔ اور بیس منٹ اس ضعف ونقاہت کے عالم میں مجلس پڑھی جب کہ کسی دوسرے کے لئے بات کرنا بھی مشکل ہوتا۔ اسی سال کی شام غریباں کی مجلس وہ آخری مجلس تھی جس کا مسودہ مرحوم نے تحریر فرمایا تھا خود تو نہ پڑھ سکے مگر مولانا کلب صادق صاحب سلمہٗ ایم۔اے۔ نے بالکل مرحوم ہی کے لب ولہجہ میں اس طرح بیان کیا کہ باہر کے سننے والوں کو یہ اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ سرکار مرحوم خود نہیں پڑھ رہے ہیں۔ یہ مجلس خطابت اور ادبیت کے اعتبار سے بھی ایک یادگار مجلس تھی۔ جس میں مرحوم نے چمکتے ہوئے چاند کو خطاب کرکے اس کی زبانی پوری تاریخ کربلا دہرائی تھی۔ جو کتابی صورت میں طبع ہوکر ہزاروں مومنین کے پاس بطور یادگار اب بھی موجود ہے۔ ہندو پاک کا شاید ہی کوئی ایسا جریدہ ہو جس میں مرحوم کے انتقال کے بعد یہ مجلس طبع نہ ہوئی ہو۔ جناب عمدۃ العلماء کی حیات ہی میں اس مجلس کی مقبولیت کو دیکھ کر ریڈیو اسٹیشن کے ذمہ داروں نے اس کا وقت بڑھا کر ۳۰ منٹ کردیا اور بعض مجبوریوں کی بنا پر اس کے نشر کا وقت ۱۰ بج کر چالیس منٹ کردیا میرے خیال میں تبدیلی وقت سے ان لاکھوں عزاداروں کو اور مجلس کے مشتاقوں کو بڑی زحمت پڑتی ہے جو شب عاشور بیدار رہنے کے بعد دن بھر مجلس وماتم میں مشغول رہتے ہیں۔ اور فاقہ شکنی کے بعد تھک کر چور ہوتے ہیں۔
میں بہت مایوس تھا کہ جناب مرحوم کے بعد امام باڑہ غفران مآبؒ کے عشرے اور خاص طور پر شام غریباں کی مجلس کا کیاہوگا جو اپنے رنگ کی منفرد مجلس ہے مگر جناب مرحوم کے مرض الموت میں عزیزی مولوی سید کلب صادق صاحب سلمہٗ نے بڑی خوبی سے مجلسوں کی سابقہ روایات کو قائم رکھا اور ان کے انتقال کے بعد عزیزم صفوۃ العلماء مولانا سید کلب عابد صاحب سلمہٗ نے اپنے پدر مرحوم کے قدم بہ قدم چل کر مجالس حسینیۂ غفران مآبؒ کو جن کے دم سے لکھنؤ کی عزاداری کی رونق ہے چار چاند لگادئیے۔ یہ تو نہ کہوںگا کہ صفوۃ العلماء کا طرز خطابت اپنے پدر بزرگوار سے بہتر ہوتا ہے مگر اس کہنے میں کوئی تکلف نہ کروںگا کہ اب اجتماع پہلے زیادہ ہی ہوتا ہے۔ اور میں تو اس کو بھی جناب مرحوم کے ایثار اور روحانی برکتوں اور حضرت غفران مآبؒ کے خلوص نیت کا فیض سمجھتا ہوں۔ اب تو یہ مجلس دس بج کر ۴۰ منٹ پر لکھنؤ سے براڈکاسٹ ہوتی ہے اور لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن کے علاوہ دہلی، کشمیر اور بعض دیگراسٹیشن بھی اس کو دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچاتے ہیں۔ مجلس شام غریباں کا لکھنؤ سے اتنا گہرا تعلق ہوگیا ہے کہ تھوڑے ہی دن پہلے لکھنؤ پر (اردو مجلس میں) جب ایک فیچر نشر کیاگیا تو اس میں خاص طور پر اس مجلس کا ذکر کیا گیا اور اس کا ایک حصہ بھی نشر کیا گیا۔ اب مجمع کا یہ عالم ہوتا ہے کہ امام باڑہ کے طویل وعریض صحن کے علاوہ منڈی کی پوری سڑک (جس کا لکھنؤ کارپوریشن نے حال ہی میں مولانا کلب حسین مارگ نام تجویز کیا ہے) آغا باقر مرحوم کا امامباڑہ جنّت کی کھڑکی کا صحن اور سلطان المدارس کے پہلو سے گذرنے والی سڑک مجمع سے مملو نظر آتی ہے۔ بعض لوگ پہلے ہی جگہ لینے کے لئے آجاتے ہیں اور فاقہ شکنی بھی (جس کا انتظام پہلے عمدۃ العلماء اور اب صفوۃ العلماء کی طرف سے عصرعاشور کی مجلس کے بعد کیا جاتا ہے) کرکے یہیں ٹھہر جاتے ہیں نہ صرف مومنین اور دیگر برادران اسلامی شرکت کرتے ہیں بلکہ غیرمسلم افراد بھی دلچسپی سے شرکت کرتے ہیں۔ بیرون ملک سے آئے ہوئے سیاح بھی اس منظر کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ دو سال سے یو۔پی۔ کے ہر دل عزیز گورنر جناب بی۔ گوپالا ریڈی صاحب بھی شریک ہوتے ہیں اور کافی متاثر ہوتے ہیں۔ لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن کے مدراسی ڈائرکٹر صاحب نے شرکت فرمائی اور کہا ’’کوئی ریلیجس پروگرام کسی بھی فرقہ کا اتنا مقبول نہیں ہے جو اس مجلس کو مقبولیت حاصل ہے میں نے خود دیکھا ہے کہ جس ہوٹل یا دوکان کے ریڈیو سے یہ مجلس نشر ہوتی ہے وہاں لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے ہیں‘‘ گور نر صاحب غیر مسلم حضرات اور سیاح حضرات کے لئے علاحدہ ہال میں انتظام ہوتا ہے تاکہ مجمع کی کثرت کی بنا پر زیارت سے محروم نہ ہوجائیں اور مجلس کے بعد ان حضرات کی چائے وغیرہ سے ضیافت کی جاتی ہے۔(رازؔاجتہادی عفی عنہ، مارچ۱۹۷۲ء)
صفوۃ العلماء رحمت مآب اپنی ساری زندگی مجلس شام غریباں کو خطاب کرتے رہے اورمرحوم کی وفات کے بعد سے ان کے جانشین قائد ملت (متّع اللّٰہ المسلمین بطول بقائہٖ) اپنے مخصوص انداز میں کئی لاکھ کے مجمع کو جو امامباڑہ کے اطراف وجوانب میں بحیثیت سامع ہمہ تن گوش رہتا ہے (ویسے تو، دوردرشن سے نشر ہونے کی وجہ سے سننے والے پوری دنیا میں کروروں ہوتے ہیں) خطاب فرما رہے ہیں۔
(مذکورہ بالا مضمون تقریباً چالیس سال قبل تحریر کیا گیا تھا)