۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
News ID: 380284
7 مئی 2022 - 15:27
جنت البقیع

حوزہ/ ہاں وہ دن دور نہیں جب غیبت سے میرے حقیقی وارث کا ظہور ہوگا تو وہ اپنے دست مبارک سے ان شاندار روضوں کی تعمیر کر کے یہ اعلان کرے گا کہ بقیع آج بھی اپنی عظمت و منزلت کے ساتھ پاٸیدار ہے ۔

تحریر: سید حسین عباس

حوزہ نیوز ایجنسیعالم ہستی میں جس طرح ایک انسان اپنے علم و عمل اور تقوی کی بنیاد پر دوسروں سے ممتاز ہوتا ہے اور دوسرے اس کی برابری نہیں کر پاتے
قل هَلْ یسْتَوی الذینَ یعْلَمُونَ والذینَ لَا یعْلَمُونَ
(کہہ دیجئے : کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے یکساں ہو سکتے ہیں؟) {١}
اسی طرح خداوند عالم کی دیگر مخلوقات بھی فضیلت و کمالات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے مساوی نہیں ہوتی اور ان کے درمیان بھی مختلف اسباب کی بنا پہ درجہ بندی ہوتی ہے ۔ بسا اوقات دنیا کے شہروں اور زمینوں میں بھی بعض زمینیں ایسی ہوتی ہیں جن کی عظمت اور وقار تک دوسری زمینوں کی رساٸی ممکن نہیں ہوتی اور ان کا یہ مقام خداوند عالم انھیں کسی خاص جہت سے عطا کرتا ہے جیسے مساجد چونکہ ان میں خداٸے وحدہ لا شریک کی عبادت ہوتی ہے۔ لہذا ان کا اپنا ایک خاص مقام ہے اسی طرح اگر کسی زمین پر خدا کے کسی خاص بندے کا قدم پڑ جاٸے یا اس جگہ اس کا مدفن ہو تو اس زمین کی عظمت میں چار چاند لگ جاتے ہیں اور دوسری کوٸی زمیں اس کی برابری نہیں کر سکتی۔
میںری خوش نصیبی اور عظمت و سر بلندی کا ادراک کوٸی معمولی انسان نہیں کر سکتا کیونکہ خداوند عالم نے مجھے وہ مقام عطا کیا ہے جو دنیا کی کسی دوسری زمین کو حاصل نہیں ہے۔
میں ہی وہ خوش قسمت زمین ہوں جسے شہر مدینہ میں مسجد نبوی کے نزدیک جگہ ملی اور جس پر رسول و آل رسول کی خاص توجہ رہی اور وہ زیارت کو آیا کرتے تھے چنانچہ ہر شب جمعہ کبھی میں پیغمبر اکرم کے مبارک قدموں کی زیارت سے مشرف ہوتی
اسْتَغْفَرَ لِأَهْلِ الْبَقِیع طویلا
(ہر شب جمعہ پیغمبر بقیع جایا کرتے اور وہاں مدفون افراد کے لٸے طلب مغفرت فرماتے) {٢}
تو کبھی بیت الاحزان میں بنت رسول کے قدموں کا دیدار کرتی، جب آپ اپنے بابا پر گریہ و زاری کے لٸے وہاں آتی اور کبھی میں امام مظلوم کربلا کی قدم بوسی فرماتی
أَنَّ الْحُسَیْنَ بْنَ عَلِیٍّ کَانَ یَزُورُ قَبْرَ الْحَسَنِ فِی کُلِّ عَشِیَّةِ جُمُعَةٍ
(امام حسین علیه السلام ہر شب جمعہ امام مجتبی علیه السلام کی قبر کی زیارت سے مشرف ہوتے) {٣}
اور مجھے یہ بھی امتیاز حاصل ہے کہ میری مقدس زمین پہ جو بھی با ایمان شخص دفن ہوگا وہ بغیر حساب جنت میں داخل ہوگا۔{۴}
میری فضیلت کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔ حدیث کے مطابق کل آخرت میں میرے ہی قبرستان سے ستر ہزار لوگ محشور ہونگے اور بغیر حساب و کتاب جنت میں داخل ہونگے جن کے چہرے چودویں کے چاند کی طرح چمک رہے ہونگے ۔ {٥} میری آغوش میں تاریخ بشریت کی وہ بزرگ شخصیات آرام فرما ہیں جن پر خود خداوند عالم کو ناز ہے۔ جن کے صدقے میں کاٸنات کے ذرے ذرے نے وجود پایا ہے۔ جو اخلاق کا وہ سرچشمہ ہیں جن کا اٹھنے والا ہر قدم خدا پسندانہ، جن کا ہر فعل مطابق قرآن، جن کا ہر عمل معرفت کا دریا، جن کا ہر کام عین اسلام قرار پایا ہے، جن کی تطہیر و پاکیزگی پہ قرآن مجید کی مہر لگی ہوٸی ہے
اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا
(اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔) {٦} جن کی نظیر رہتی دنیا تک ملنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔
میری آغوش، عظمت و فضیلت کا وہ جزیرہ ہے جس کے نور سے دنیا کے اجالے بھیک پاتے ہیں ۔ میری زمین وہ گلشن ہے جس کے پھولوں سے سخاوت و بندگی کی خوشبو اٹھتی ہے۔ میری زمین ایک ایسی کان ہے جس میں علم و صداقت کے ذخیرے پوشیدہ ہیں۔ مختصر کہوں تو کون سی ایسی فضیلت ہے جو میری آغوش میں ان سونے والوں کے قدم نہ چھومتی ہو۔
سخاوت کی بات کروں تو وہ فرد لاجواب، وہ سخی ابن سخی کہ جس کا در تمام انسانوں کے لٸے بے نظیر نمونہ تھا۔ وہ کریم کہ جس کے دروازے سے کبھی کوٸی خالی پیٹ نہیں پلٹا، سخاوت کا وہ سمندر جس نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ آنے والا اپنا ہے یا پرایا بلکہ ہمیشہ ہر شخص کے لٸے اس کا دسترخوان حاضر رہا، جس نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ اپنا تمام سرمایا اور تین مرتبہ اپنی پوری دولت کا آدھا حصہ راہ خدا میں ہدیہ کر دیا۔ ایسا کریم انسان کہ جسے آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کریم اہل بیت کا لقب ملا یعنی امام مجتبی علیہ السلام، وہ میری ہی آغوش میں مدفون ہے۔
اگر بندگی کا تذکرہ ہو تو خداوند عالم کا وہ عبادت گذار بندہ کہ جب کبھی وہ عبادت و نماز کے لٸے آمادہ ہوتا تو ایک لرزہ اس کے وجود پر طاری ہوجاتا اور جب سبب پوچھا جاتا تو فرماتا : وائے ہو تم پر! کیا تم جانتے ہو کہ میں کس ذات کے سامنے جاکر کھڑا ہونے والا ہوں! کس کے ساتھ راز و نیاز کرنے جارہا ہوں!؟
جس کی عبادتوں اور سجدوں کا یہ عالم تھا کہ آج بھی دنیا اسے زین العابدین اور سید الساجدین کہہ کر پکارتی ہے. اسی حضرت علی ابن الحسین علیھما السلام کا مرقد اطہر بھی میری ہی سر زمین ہے۔
میدان علم کا ذکر ہو تو علوم کو پھاڑنے والی اور علم و دانش کا سینہ چاک کرکے اس کے راز و رموز تک پہنچنے والی اور دنیا میں تنہا باقر العلوم کا لقب پانی والی بے مثال ذات جسے دنیا حضرت محمد ابن علی علیھما السلام کے نام سے جانتی ہے، ان کی مقدس اور پاک و پاکیزہ قبر بھی میری ہی زمین قرار پاٸی ۔
صداقت کا ذکر ہو تو وہ ذات والا صفات جس پر صداقت ہمیشہ نازاں رہی اور دل و جان سے قربان، جسے اہل آسمان صادق کے نام سے جانتے ہیں {۷} اور جو زمین پر ملقب ہی صادق آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہوا یعنی حضرت جعفر ابن محمد علیھما السلام کا مرقد نورانی بھی میری ہی آغوش میں ہے ۔
میری اتنی عظمتوں اور فضیلتوں کے بعد بھی کہ جسے آسماں بھی جھک کر سلام کرتا ہو، کوٸی گمان کر سکتا ہے کہ کوٸی دوسری زمین میری برابری کر سکتی ہے!؟ نہیں، ہرگز نہیں ۔۔۔۔
مگر افسوس ابن تیمیہ جیسے فریب خوردہ افراد کی طرف سے مقدس قبروں کے احترام کا انکار اور ابن قیم کا قبروں پر تعمیر قبوں کو منہدم کرنے کا جاہلانہ فتویٰ مجھ جیسی پاک و پاکیزہ زمین کے لئے مصیبت بن گیا۔ اور افسوس کہ میری فضیلتوں کو بھلا کر مجھ پر تعمیر مقدس مزارات پر بنے ہوئے قبوں کو منہدم کر دیا گیا۔
افسوس کہ مجھ جیسی اتنی با شرف زمین کی عظمتوں کو کم کرنے کی کوشش کی گٸی ۔
افسوس کہ مجھ پہ وہ قیامت ڈھاٸی گٸی کہ جسے بیان کرنا بھی خون کے آنسو رلاتا ہے۔
اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے والوں! کیا تم بھول گٸے کہ بنت رسول کی قبر اطہر کے لٸے میرا بھی نام آتا ہے۔ کیا تمہیں مسمار کرنے سے پہلے یہ خیال بھی نہ آیا کہ کل رسول کو کیا منہ دکھاٶ گے، اتنا بھی نہ سوچا کہ جس کی قبر کے نشان کو مٹانے چلے ہو وہ رسول اکرم کے دل کا ٹکڑا ہے، ان کو اذیت دینے والا خدا و رسول کو اذیت دینے والا ہے
فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ آذَاهَا فَقَدْ آذَانِي {٨}
افسوس صد افسوس
کیا میرا یہی حق تھا، میں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا!؟ میری آغوش میں سونے والے آل رسول تو تمہارے لٸے چراغ ہدایت تھے تم نے انھیں کے با برکت اور مقدس قبروں پر بنے قبوں کو مسمار کر دیا کہ جس کے غم میں آج بھی دنیا بھر میں ٨ شوال المکرم کو شیعیان اہل بیت علیھم السلام یوم انہدام جنة البقیع کے نام سے مناتے ہیں اور اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہوٸے انھیں فوری دوبارہ تعمیر کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
لیکن وہ دن دور نہیں، ہاں وہ دن دور نہیں جب غیبت سے میرے حقیقی وارث کا ظہور ہوگا تو وہ اپنے دست مبارک سے ان شاندار روضوں کی تعمیر کر کے یہ اعلان کرے گا کہ بقیع آج بھی اپنی عظمت و منزلت کے ساتھ پاٸیدار ہے ۔

اے میرے وارث! خدارا پردہ غیبت سے چلیں بھی آٸیے کہ

بنانا مرقد زہرا پہ روضہ اقدس
تمہارے ہاتھ سے ایک شاندار باقی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١ ۔ سورہ زمر/ ٩
٢ ۔ الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، شیخ مفید، ج ۱، ص١٨١، حدیث ۲۹۱۵۵۳، موسسہ آل بیت علیھم السلام لاحیا التراث، چاپ دوم، ١٤١٦ ھ، قم
٣ ۔ حدیث امام صادق علیہ السلام، قرب الإسناد ج ۱، ص ۱۳، حدیث ۲۰۴۳۹
۴ ۔ زندگانی چہاردہ معصوم، ص ٦٥۴، علی عطایی اصفہانی، آیین دانش، چاپ پنجم، تابستان ١٤٠٠، قم
٥ ۔ حدیث رسول خدا، زندگانی چہاردہ معصوم، ص ٦٥٤
٦ ۔ سورہ احزاب/ ٣٣
٧ ۔ حدیث امام سجاد علیہ السلام، زندگانی چہاردہ معصوم، ص ١٠٣٣
٨ ۔ حدیث رسول اکرم، بحار الأنوار ج ۲۸، ص ۲۹۷، حدیث
۲۳۶۶۲۰

تبصرہ ارسال

You are replying to: .