۱۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۷ شوال ۱۴۴۵ | May 6, 2024
News ID: 394524
16 نومبر 2023 - 09:50
مولانا سید علی بنیامین نقوی

حوزه/ کردار اور شخصیت ایک دن میں نہیں بنا کرتے نہ ایک دن میں بدلے جاسکتے ہیں اور اگر آپ علم نفسیات کے اصولوں پر عمل کریں تو اس خوشگوار تبدیلی کی رفتار تیز کی جاسکتی ہے۔

تحریر: سید علی بنیامین نقوی

حوزه نیوز ایجنسی|

بظاھر یہ ہدایت غیر دانشمندانہ لگتی ہے. مشکلات اور مصائب سے بھلا کیسے مسرت حاصل کی جاسکتی ہے ؟

آگ سے پانی ابلتا ہے جمتا تو نہیں؛

جی، آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن مسرت حاصل کرنے سے ہمارا مطلب یہ نہیں کہ مشکلات اور مسائل سے چشم پوشی کرکے ہنسئیے کھیلیں!اسے فرار کہتے ہیں۔

ہمارا مطلب یہ ہے کہ جب تک آپ زندہ ہیں مشکلات اور مسائل تو پیدا ہوتے ہی رہیں گے، یہ زندگی کا لازمی جزو ہے بلکہ زندگی کا حصہ اور حسن ہے ان سے بھاگ کر آپ سکون حاصل نہیں کرسکتے۔

عزیزوں !

ان کا سامنا کیجئے،

ان کا تجزیہ کیجئے اور ان کا حل سوچیئے!

جس طرح آپ روزمرّہ کے دوسرے کام کرتے ہیں بالکل اسی طرح اپنے مسائل کے متعلق بھی سوچیں۔

ہماری بات کا لب لباب یہ ہے کہ بیشتر خواتین و حضرات نے اپنے آپ کو سلا رکھا ہے اور وہ روزمرہ کے کام کاج اور سوچ بچار نیند یعنی خواب بیداری کی کیفیت میں کرتے ہیں، ان کی حسیں (جمع حس) سوئی ہوئی ہوتی ہیں انسان کو خدا نے جو لا محدود قوتیں عطا کررہھی ہیں ان میں ایک قوت مدافعت اور اعصابی نظام کی مضبوطی بھی ہے کتنی بھیانک مصیبت کیوں نہ آ پڑے انسان برداشت کرلیتا ہے، پھر دماغی قوت دانشمندانہ جوابی حملہ کرکے مصیبت کو شکست دے سکتی ہے۔ جو لوگ مصائب سے شکست کھا جاتے ہیں وہ انہی لوگوں میں سے ہوتے ہیں جو نیم بیدار ہوتے ہیں۔ ان میں سوئی ہوئی حسیں(جمع حس) ان فوجوں کی مانند ہوتی ہیں جو بارکوں میں سوئی ہوئی ہوتی ہیں۔

لیکن یاد رکھیئے کہ کردار اور شخصیت ایک دن میں نہیں بنا کرتے نہ ایک دن میں بدلے جاسکتے ہیں اور اگر آپ علم نفسیات کے اصولوں پر عمل کریں تو اس خوشگوار تبدیلی کی رفتار تیز کی جاسکتی ہے۔

علم نفسیات نے تجربات سے ثابت کیا ہے کہ آپ اتنے ہی مسرور یا ملول ہیں، جوان یا بوڑھے ہیں، تندرست یا مریض ہیں اور اہم یا غیر اہم ہیں جتنا آپ اپنے آپ کو سمجھتے ہیں۔ انسان وہی کچھ ہوتا ہے جو کچھ وہ سوچتا رہتا ہے اور وہ جو کچھ سوچتا ہے اس کے پس منظر میں بچپن کی یادیں کارفرما ہوتی ہیں یہ یادیں انسان کو بالغ نہیں ہونے دیتیں اسکا صرف جسم بالغ ہوتا ہے جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے پیار، تحفظ، کھیل کود کی آزادی، بے فکری اور ہر طرح کی مسرت ملتی اور دستیاب ہوتی ہے وہ اسی کو زندگی سمجھتا ہے اور مسرت کے سوا کسی چیز کو قبول نہیں کرتا بڑا ہوکر بھی وہ بے فکری کی زندگی گزارنا پسند کرتا ہے یہ ایک ایسی قوت بن جاتی ہے جو انسان کو ذہنی لحاظ سے بالغ نہیں ہونے دیتی اور یہی وہ تخریبی قوت ہوتی ہے جو انسان کے اندر قوت ارادی اور خود اعتمادی پیدا نہیں ہونے دیتی۔ پختہ کار اور مقناطیسی شخصیت مسرت کے اس اصول سے آزاد ہوکر حقیقت پسندی کی طرف مائل ہوجاتی ہے یہ تربیت پر منحصر ہوتا ہے کہ بچہ حقائق کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہے یا نہیں۔

جو لوگ بڑے ہوکر بھی اداس رہتے ہیں ذرا سی بات پر بھڑک اٹھتے ہیں، جو دنیا کو اپنی خواہشات کے رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

جو حسد اور کڑھن کا شکار ہیں، جو کام سے گھبراتے اور کتراتے ہیں اور جھنجھلاتے رہتے ہیں اور جو طرح طرح کے طریقوں سے دوسروں سے ہمدردی کی بھیک مانگتے رہتے ہیں، وہ لا شعوری طور پر ابھی بچے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر افراد اپنی قوتوں سے بے خبر رہتے ہیں، وہ آنکھوں کو اس حد تک دیکھنے نہیں دیتے جس حد تک وہ دیکھ سکتی ہیں، وہ کانوں کو اتنا سننے نہیں دیتے جتنا کان سن سکتے ہیں، وہ لاشعوری طور پر ماں کی آغوش میں چھپنا اور باپ کی انگلی پکڑ کر چلنا چاہتے ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .