۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
ایام فاطمیه

حوزه/جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ تعالی علیھا، لیلۃ القدر اور سورۂ کوثر کا کامل مصداق اور رسالت کے امور میں شریک اور امامت والے امور کا مضبوط قلعہ ہیں۔

تحریر: منظور حسین محمدی قم المقدسہ ایران

حوزه نیوز ایجنسی|

مقدمہ:

جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ تعالی علیھا، لیلۃ القدر اور سورۂ کوثر کا کامل مصداق اور رسالت کے امور میں شریک اور امامت والے امور کا مضبوط قلعہ ہیں۔ جناب زھرا ع بیداری اور ھدایت سے مربوط درس و بحث کی تلاوت ھیں۔ جناب زھرا ع صداقت اور شھادت کا وہ سچا اور پکا داستان ھیں جسکی شان و شوکت دیکھ کر نجران کے عیسایی علما بھی سر تسلیم خم ھوگیے۔ جناب زھرا ع صرف صنف نسواں کے کمال کا نام نہیں بلکہ انسانیت کے عروج اور معراج کا نام بھی ھیں۔

یقیناً ھم نے اب تک جناب سیدہ ع کی فقط توصیف کیا جب کہ اج کے نسل کیلیے جناب زھرا ع کے بارے تحلیل اور تبیین چاھیے۔

جناب زھرا ع وہ شخصیت ھیں جسکے گفتگو کا انداز ضرب حیدری سے کم نہیں۔ جناب زھرا ع وہ شخصیت ھیں جسکی جنازے پہ خورشید طلوع ھوکر غروب ھوا اور اللہ تعالی کے مقرب فرشتوں نے اس جنازے پہ سجدہ کرتے ھوے غم میں اشک بہا بہا کر کمال اور جلال کی راھیں پا گیے۔

جناب زھرا ع زھرا وہ شخصیت ھیں جسکے ھاتھ میں عصای موسی جب کہ زبان اقدس پہ جناب عیسی کی مسیحایی آثار رونما ہوئے۔

جناب زھرا ع وہ شخصیت ھیں جسکے پاکیزہ سر پہ پاک نبی ص کا دستار اور شانوں پہ پاک نبی ص کی کالی کملی زیب و زینت بنی ھے۔

جناب فاطمہ علیہا السلام کی جگر سوز شہادت کا پس منظر:

ہمارے پیارے نبی کے دنیا سے چلے جانے کے بعد درج ذیل کٹھن حالات معرض وجود میں آئے جن حالات کی وجہ سے پیارے نبی ص کی اکلوتی بیٹی ع انتہائی مظلومانہ انداز میں شھید ہوئیں۔

1- حیرت و اضطراب کا سماں: پاک نبی ص جیسے ایک آگاہ، بیدار اور ھوشیار رھبر کا سایہ اٹھ جانا ھی ایک سنگین اضطراب اور پریشانی کا سبب بنا کیونکہ داخلی طور پہ مسلمان ابھی سٹرونگ نہیں ھوے تھے۔ اسکے علاوہ مسلمان اور کفار قریش کے مابین لڑی جانے والی جنگوں کیوجہ سے بہت سارے ضدی اور منافق لوگ پیدا ھوے تھے۔ اسلیے کچھ لوگ کھل کر نبوت کا دعوی کرنے رھے تھے جبکہ بعض افراد تو اھلبیت ع سے عداوت کا دم بھرتے بھی تھے۔ یوں پاک نبی ص کے آخری لمحات میں انہوں نے صرف قلم دوات لانے سے انکار کیا بلکہ (ان الرجل لیھجر ۔۔۔ حسبنا کتاب اللہ) نبی ص کی طرف ھزیان کی نسبت بھی دے دیا۔

داخلی دشمنوں کے علاوہ جزیرۃ العرب کے دونوں طرف سے دو بڑی سوپر طاقتیں (ایران اور روم) بھی مسلم طاقت کو کچلنا چاھتی تھیں۔

2- مخلص ساتھیوں کا فقدان: نبی اکرم ص جیسے جیسے اپنے آخری ایام کی سمت بڑھ رھے تھے ویسے ویسے دو پیچیدہ اور مشکل امر شدت پکڑ رھے تھے پہلا امر یہ تھا کہ آپ ص کے مخلص اور فدا کار ساتھی جنگوں میں شھید ھونے سے انکی تعداد شارٹ ھوتی جا رھی تھی جب کہ دوسری سمت اسلامی حکومت کا دایرہ بڑھ رھا تھا۔ صرف جنگ احد میں تقریبا 70 سے زاید مخلص اصحاب شھید ھوچکے اور جو بچے تھے وہ فراری تھے۔ اسلیے مولی علی ع نے فرمایا: اگر مجھے چالیس نفر بھی مل جاتے تو خانہ نشین نہ ھوتا۔ امام باقر ع نے فرمایا : اگر حضرت عقیل اور عباس کے بدلے جناب جعفر ع اور حمزہ ع ھوتے تو مولی علی ع ھرگز خانہ نشین نہ ھوتے۔ نہج البلاغہ میں آپ ع نے فرمایا: میرے اھلبیت ع کے سوا کویی نہیں تھا اور میں نے نہیں چاھا کہ وہ مارے جایں، گلے میں ھڈی پھنسنے کیساتھ آنکھوں میں کانٹے کا چبھن اور درد محسوس کرتے ھوے مجھے خاموش رھنا پڑا۔ اسکے علاوہ پاک نبی ص نے مولی علی ع کو وصیت بھی کر دیا تھا کہ قریش کی جانب سے مظلوم قرار پاو گے اگر کویی ساتھ دینے والا ھو تو جنگ لڑو ورنہ خاموشی اختیار کرو۔

البتہ صرف ام سلمہ ع نے باغ فدک کے بارے خلیفہ پہ اعتراض کیا تھا لیکن اسے بھی ایک سال کیلیے بیت المال سے محروم کر دیا گیا۔

3- جاہلانہ قبایلی نظام: لوگ مکمل طور پہ تعصب اور قبایلی نظام میں جھگڑے ھوے تھے۔ قوم کا سرکردہ جو بھی فیصلہ کریں وہ فیصلہ بلا چوں و چرا مانا جاتا تھا۔ یہی سرکردگان جنگ کرنے یا صلح کرنے کے معاملات ڈیل کرتے تھے۔ انکے کیلیے حق و باطل اور ظالم و مظلوم سے کویی سرکار نہیں تھا۔ اسلیے جب پاک نبی ص شعب ابی طالب میں محصور ھوے تو کچھ کفار قریش بھی قومی تعصب کے بنا آپ ص سے ملحق ھوے تھے۔ ایسے جاھلانہ امور کو مٹانے کیلیے پاک نبی ص نے نظام امامت کا اھتمام کر دیا تھا اما لوگوں نے وہ نظام ٹھکرا دیا۔

بعض اوقات یہی سرکردگان، مدینہ آکر قبیلے کی طرف سے اسلام کی قبولی کا اعلان کرتے تھے۔ اکثر لوگ دیہاتوں میں ھوتے جنہوں نے ایک بار بھی نبی ص کو نہیں دیکھا تھا۔ اسلیے بعض اوقات آپ ص سے نماز ترک کرنے اور شراب پینے کی اجازت تک مانگتے تھے۔

اسکے علاوہ جب مکہ فتح ھوا تو بعض قبایل اسقدر ڈرے کہ جلد سے پاک نبی کے ھاں آکر ھم پیمان ھونے لگے تاکہ آنحضرت ص انہیں اپنے باغات اور اموال سے محروم نہ کریں۔

بعض مؤرخین کے بقول جب اھل مکہ کو پاک نبی ص کے دنیا سے جانے کا پتہ چلا تو اکثر لوگوں نے مرتد ھونے اور اسلام سے منہ موڑنے کا ارادہ کر لیا اور مکے کا والی وھاں سے بھاگ گیا۔ سھیل بن عامر نامی شخص نے کعبے کے دروازے پہ کھڑے ھوکر آواز بلند کیا اور سب کو اپنے ارد گرد جمع کرکے ان کو پاک نبی ص کا وہ وعدہ یاد دلایا کہ عنقریب مسلمان قیصر کسری کے خزاین پانے والے ھیں تب جاکر وہ مرتد ھونے سے رک گیے۔

4- مولا علی ع سے بغض: وہ جاھل اور بدو عرب جنہوں نے ابھی تازہ اسلام لایا لیکن ایمان انکے دلوں میں نہیں اترا تھا۔ ایسے لوگوں کا مولی علی ع سے دشمنی کرنا ایک طبیعی معاملہ تھا۔ کیونکہ اپ ع نے جنگ بدر میں تیس کفار کو مارا، اسکے علاوہ عمرو بن عبدود جسیوں کو مارا تھا۔

اسلیے جاھلیت کے دور میں اگر قاتل موجود نہ پایں تو مقتول کے بدلے میں قاتل کے رشتہ داروں سے بدلہ لیتے تھے لھذا کسی اور مسلمان نے کسی کافر کو مارا ھو تو بھی پاک نبی ص کی غیر موجودگی میں مولی علی ع سے ھی بدلہ لینا چاھتے تھے۔

مولی ع نے معاویہ سے کہا تھا کہ میں وھی ھوں جسنے تیرے دادا، بھایی اور ماموں کو مارا، اب اجاو جنگ لڑتے ھیں۔ لھذا اسی بغض کی وجہ سے معاویہ نے اپنے دور اقتدار میں مولی علی ع پہ ناروا سب و شتم کا بازار گرم کر دیا۔

5- فتح مکہ کے دوران کفار کا ھتھیار ڈالنا: فتح مکہ کے بعد بہت سارے لوگ مجبوری کے عالم میں اسلام قبول کرچکے تھے۔ (و لما یدخل الایمان فی قلوبکم) اسلام لاچکے تھے لیکن ایمان نامی کویی چیز انکے دلوں میں داخل نہیں ھوچکا تھا۔ بعض قبایل ڈر کر اور بعض لالچ میں آکر سبقت لے گیے جب کہ اسلام سے آشنا نہیں تھے اسلیے انکے گمراہ ھونے کا چانس زیادہ تھا۔ لھذا بنی تمیم میں سجاح نامی ایک عورت نے نبوت کا دعوی کرکے ایک لشکر بھی تشکیل دیا، اسکے علاوہ جنگ یمامہ میں مسیلمہ نامی جس شخص نے نبوت کا جو جھوٹا دعوی کیا تھا اور مسلمانوں نے ایک ھزار کی قربانی دیکر انہیں شکست دیا اسی شخص سے اس جھوٹی عورت نے شادی بھی کر دیا تھا۔

6- منافقین کا مضبوط ٹولہ: مدینہ کے نا آشفتہ بہ حالات میں منافق اور دوغلی پالیسی والوں کا ایک مضبوط ٹولہ بھی موجود تھا، جس کا سلسلہ پاک نبی ص کی مکی زندگی سے چلا آرھا تھا۔

بعض لوگ اقتدار اور شھرت کی لالچ میں مسلمان ھوچکے تھے چونکہ انہوں نے اھل کتاب سے متعدد بار سنا تھا کہ پاک نبی ص کی حکومت پورے جزیرۃ العرب میں چھا جانے والی ھے۔ بعض لوگوں کا یہودیوں کیساتھ رھن سہن تھا اسلیے انہوں نے ان کو ایسی باتیں تورات اور دیگر کتابوں سے بتا دیا تھا اور وہ لوگ کسی شہر کے والی بن جانے کی لالچ میں پاک نبی ص کیساتھ دے رھے تھے۔

بعض کے بقول کچھ چیدہ لوگ یہودیوں کے ایجنڈے کے مطابق گھس گیے تھے تاکہ پاک نبی کے بعد اسلام کو منحرف کرسکیں اور ایسا کرنے میں کامیاب بھی ھوے۔

مولی علی ع نے فرمایا: اگر پاک نبی ص کو کویی بیٹا ھوتا اور وہ میری طرح خانہ نشین نہ ھوتا تو قریش والے اسے بھی مار دیتے حتی پاک نبی ص کے نام اقتدار پانے کا اندیشہ نہ ھوتا تو یہ لوگ ایک لمحے کیلیے بھی اسلام قبول نہ کرتے۔ دوسری جگہ فرمایا: منافق ٹولے نے باھم یہ طے کر دیا تھا کہ پاک نبی ص کے بعد ھر حال میں اھلبیت ع سے حکومت چھیننا ھے۔ بلکہ انہوں نے اس حوالے سے کسی کاغذ پہ لکھ کر ساین کرکے کعبے پہ لٹکایا دیا تھا اور پاک نبی ص نے یہ بات مجھے بتا دیا حتی جناب سلمان، مقداد اور ابوذر ع بھی اس امر پہ گواہ ھیں۔

ھاں صحیفہ ملعونہ والے وہ سات نفر تھے جنہوں نے جنگ تبوک سے واپسی پہ پاک نبی ص کو قتل کرنے کا نقشہ بنایا تھا۔ بعض روایات کے مطابق امام حسین ع اسی وقت قتل ھوے جسوقت وہ صحیفہ لکھ دیا گیا۔

حتی منافقین کے اس ٹولے نے صلح حدیبیہ کے دوران پاک نبی ص کو مورد اعتراض قرار دیا۔ جنگ تبوک سے بچنے کی کوشش کیا، بعض نے جاکر مسجد ضرار بنا دیا۔

پاک نبی ص کے آخری ایام تک انکی تعداد بڑھ گیی حتی پاک نبی ص نے مولی علی ع کو اپنی جگہ رکھ کر جنگ تبوک لڑنے تشریف لے گیے تو اسی گروہ نے مولی علی ع کے خلاف جھوٹی افواھیں پھلایا بلکہ اسامہ بن ذید کی قیادت میں جنگ لڑنے سے بھی انکار کر دیا اور پاک نبی ص کے بقول (لعن اللہ من تخلف عنہ) کے مصداق قرار پائے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .