۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
حضرت فاطمه (س)

حوزه/ واقعا قابلِ تعجب امر ہے کہ وہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ اور اہلبیت علیہم کہ جن کے قدموں کی دھول کو لوگ اپنی آنکھوں کا سرمہ سمجھتے تھے اور جن کے وضو کے پانی کو تبرک قرار دیتے تھے اور اذانوں میں نبی (ص) کا نام لے لیکر گلے پھاڑ دیتے تھے۔

تحریر: منظور حسین محمدی

حوزه نیوز ایجنسی|

سابقہ قسط میں صدر اسلام کے ابتدایی دور والے وہ سیاسی نا آشفتہ اور دفاعی غیر پایدار حالات جیسی داخلی مشکلات کا ایک جھلک پیش کیا۔ خصوصا یہ امر واضح ھوا کہ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں ایک فریب کار، مکار اور منافق ٹولہ موجود تھا جوکہ دوغلی پالیساں اور سرگرمیاں انجام دینے میں پیش پیش بھی تھا۔

اب اس مقام پہ یہ جاننا ضروری ھے کہ وہ منافق ٹولہ اپنی مکاری اور عیاری کے بنا کیسے سقیفہ سازی کے تحت رجیم چینج کرنے یا مارشلا جیسا نظام نافذ کرنے میں کامیاب ھو۔ا؟! درنتیجہ پاک نبی ص کی مبارک قبر والی مٹی خشک ھونے سے قبل مسلمانوں نے وہ پست اور غیر متوقع جرایم بجا لایا جسکا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔

واقعا قابل تعجب امر ھے کہ وہ نبی ص اور اھلبیت ع جنکے قدموں کے دھول کو لوگ اپنی انکھ کا سورما سمجھتے تھے۔ جنکے وضو کے پانی کو تبرک قرار دیتے تھے اور اذانوں میں نبی ص کا نام لے لیکر گلے پھاڑ دیتے تھے۔

اما نبی ص کا دنیا سے چلے جانے کے بعد مختصر مدت میں اسی نبی ص کی اکلوتی بیٹی کو بڑی بے دردی سے دھشت گردی کا نشانہ بنا دیا۔!!!!

لہذا درج ذیل نکات پہ دقت کرنے سے معلوم ھوتا ھے کہ پاک نبی مدفون ھونے سے قبل مفاد پرست اور منافق ٹولے نے رجیم چینج کرکے مارشلا جیسا نظام نافذ کر دیا۔

1- پاک نبی (ص) کے قتل کا منصوبہ

منافقین کے اس منھوس گروہ نے جنگ تبوک سے واپسی کے دوران کسی ٹیلے سے گزرتے ھوے پاک نبی ص کو رات کے اندھیرے میں قتل کرنے کا خطرناک نقشہ بنایا تاکہ اسے ایک نارمل حادثہ قرار دیکر اسی جگہ سقیفہ سازی کریں اور پھر اسی لشکر سے بیعت لے کر مدینہ آیں اور یوں ھی مولا علی ع کو مکمل طور پہ دیوار سے لگا دیا۔

لیکن حضرت جبریل ع نے اس سازش کے بارے پاک نبی ص کو اطلاع دیا اور پاک نبی ص بھی جناب حذیفہ کیساتھ آگے بڑھے، حتی اسی جگہ پہنچتے ھی ایک گرج چمک سے آسمانی بجلی برس پڑی جسکی وجہ سے سارے منافق لوگوں کے چہرے عیاں ھوے اور پاک نبی ص نے انہیں بلایا لیکن وہ بھاگ گیے۔ ھرچند وہ لوگ ٹوٹل چودہ نفر تھے، پانچ عدد اصحاب صحیفہ والے ملاعین اور پانچ اصحاب شوری + امیر شام اور عمرو عاص وغیرہ تھے۔

2- پاک نبی (ص) کے اقدامات اور ارشادات کی پامالی

ھرچند دسیوں قرآنی آیات اور دسیوں مستند روایات کی رو سے آپ ص نے مولا ع کی شخصیت اور انکی امامت والے معاملے کو متعدد بار مستقیم اور غیر مستقیم طریقے سے اجاگر کر دیا تھا۔

خصوصا پاک نبی ص کی رحلت سے 70 دن قبل غدیر خم کا واقعہ پیش آیا جسمیں مولا علی ع کی ولایت کا اعلان ھوتے ھی دین مکمل ھوا تھا۔

اسکے باوجود پاک نبی ص نے اپنی آخری ایام میں قلم اور دوات مانگا تاکہ کچھ لکھدیں جسکی وجہ سے امت گمراہ نہ ھوں تو انہی منافق اصحاب نے (فان الرجل لیھجر ۔۔۔حسبنا الکتاب اللہ) اھلبیت کے بغیر صرف کتاب خدا کافی ھونے کا نعرہ بلند کر دیا۔

جب آپ ص نے انہیں اسامہ کیساتھ جنگ کو بھیج کر مولی علی ع کی امامت اور قیادت کو مستحکم کرنا چاھا تو بھی یہ لوگ مخالفت کرکے ملعون قرار پاے تھے۔

مذکورہ اقدامات کے علاوہ آپ نے جناب سیدہ ع جیسی سچی اور پکی نشانی کو اول اور دوم کی رسوایی کیلیے آمادہ کیا۔ جناب ابوذر ع کو سوم کے خلاف حق گویی کرنے اور جناب عمار ع کو امیر شام سے پنگے لینے کیلیے تیار کر دیا۔

خصوصا پاک بی بی ع کی ناراضگی کو آپ ص نے اپنی اور خدا کی ناراحتی کا مترادف قرار دیا۔ یہ مسلم ھے کہ جناب سیدہ ع اول اور دوم سے ناراضگی کی حالت میں خصوصا ھر نماز میں ان پہ نفرین کرتی ھویی دنیا سے چل بسی۔

آپ ص نے مزید فرمایا تھا کہ آسمان تلے ابوذر ع سے بڑھ کر کویی سچا نہیں جب کہ یہ سچا شخص سوم کے ھاتھوں عالم غربت میں شھید ھوا۔

آپ (ص) نے پیش گویی کر دیا کہ جناب عمار ع کو ایک منحرف ٹولہ قتل کریں گا درحالیکہ ایسا سچا صحابی، امیر شام کے ھاتھوں قتل ھوا۔

اسکے علاوہ اجر رسالت والی ایت + حدیث ثقلین جیسی دسیوں مستند روایات کے سہارے ھر طرح کے بہانے اور سازشوں کا راستہ روکنا چاھا لیکن اسکے باوجود بھی منافق ٹولے کے ھاتھوں مسلم امت گرفتار اور گمراہ ھوگیی۔

3- انصار نے بھی سہل انگاری اور منافقت کا مظاھرہ کیا

ھر چند بہت سارے انصار نے پاک نبی ص سے سچی اور پکی وفاداری و فداکاری کا مظاھرہ کیا تھا لیکن اسکے باوجود وہ لوگ قریشی منافقین سے گھبراتے تھے کہ کہیں وہ انتقام جویی پہ نہ اتریں کیونکہ انصار نے ھی ان سے جنگ لڑ کر مارا تھا۔ خصوصا جانتے تھے کہ قریش والے فریب کار لوگ ھیں جوکہ پاک نبی ص کے فرامین کو بھی پایمال کرتے رھتے ھیں۔

قریش والوں کی بے ایمانی اور مکاری کے حوالے سے پاک نبی ص کی کچھ پیشگوییاں بھی سن چکے تھے لیکن ان امور سے ایمان مضبوط کرنے کے بجاے متزلزل ھوگیے۔

البتہ سعد بن معاذ جیسے مخلص، نڈر اور ھوشیار شخص بھی صرف انصار میں موجود نہیں تھا بلکہ سعد بن عباد جیسے بعض سرکردے بھی منافق اور مولی علی ع کے مخالف اور معاند بنے تھے۔

جب سعد بن عباد نے سقیفہ کے بعد مولا علی ع کی امامت کے متعلق کویی حکایت نقل کر دیا تو انکے بیٹے قیس نے اپنے بابا کی خاموشی پہ اعتراض کرکے ان سے بایکاٹ کیا۔

ھرچند انصار والے جناب سیدہ ع سے کہتے تھے کہ جناب علی ع نے بر وقت ھمیں نہیں بلایا لیکن در واقع سیاہ کاری اور مکاری بلکہ مولا علی ع سے دشمنی کرنے میں قریش والوں سے کم نہیں تھے۔ یہی انصار تھے جنہوں نے جنگ حنین کے دوران، مال غنیمت کی تقسیم بندی پہ پاک نبی ص کو بھی مورد اعتراض ٹھہرا کر ایمان سے ھاتھ دھو بیٹھے تھے۔

4- رسول خدا (ص) کی وفات سے انکار

پاک نبی (ص) دنیا سے جاتے ہی دوم نے باقاعدہ سے پاک نبی ص کے وفات سے انکار کرتے ھوے یہ دعوی کر دیا کہ پاک نبی ص، جناب موسی ع کی طرح واپس آنے والے ھیں۔ حتی تلوار ھاتھ میں لیکر ڈرانے لگے تاکہ کویی بندہ وفات کا قایل نہ ھوں اور مولا علی ع کی امامت کا تصور ھی ختم ہو جائیں۔

بعض کے بقول، اول کسی قبیلے کو خریدنے مدینہ سے باھر گیے تھے لھذا ان کے آنے تک دوم نے لوگوں کو مصروف رکھ کر اول کے آتے ھی حکومت سنبھالنے میں کامیاب ھوا۔

5- سیاسی نقشے میں ترمیم اور تبدیلی

جب منافقین سقیفہ میں جمع ھوکر پاک نبی ص کے وفات سے انکار کرکے مولا ع کی امامت کو مورد تردید قرار دے رھے تھے اسی اثنا میں انصار میں سے دو نفر نے اول سے جاکر ملاقات کر دیا اور پورے ماجرا کو سنایا تو انہوں نے آکر سب سے پہلے پاک نبی ص کے جنازے کو دیکھا، پھر دوم کو قانع کر دیا کہ آنحضرت ص دنیا سے چل بسے ھیں، لذا انکے موت سے انکار نہیں کیا جاسکتا. قرآنی آیات (انک میت و انہم میتون ۔۔۔ افان مات اور قتل انقلبتم علی اعقابکم) کو پڑھ سنایا تو دوم کچھ عرصہ کیلیے بے ھوش بھی ھوے۔

پھر وہ دونوں اور ابوعبیدہ (جوکہ اصحاب صحیفہ ملعونہ سے تھے) نے آپس میں ملکر گیم کو طے کرکے سقیفہ پہنچ گیے۔ گویا انہوں نے آپس میں ترتیب سے خلافت کرنے کا پلین بنا دیا تھا لیکن ابوعبیدہ، دوم کے دور میں مر گیے جسکی وجہ سے سوم انکی جگہ خلیفہ بن گیا۔

6- اول نے چالاکی اور مکاری کی انتہا کر دی

یوں اول سقیفہ پہنچ کر وھاں موجود انصار سے کہا: اگر اوس کے قبیلے سے کویی خلیفہ بن جایں تو خزرج کا قبیلہ اسے انکار کریں گا اور اگر خزرج کا کویی بندہ سر اٹھایں تو اوس والے اسے نہیں مان لیں گے اور یوں فساد و فتنے ایجاد ھوں گے۔

پھر انصار و مھاجر سبھی کو مخاطب کرکے کہا: البتہ اگر تم میں سے کویی سر اٹھایں تو کسی شیر کے چنگل میں ایسے پھنس جاے گا کہ انصار اسے مجروح کریں گے جبکہ مھاجر کھا جایں گے۔

مزید کہہ دیا کہ اے لوگو! ان مشکلات کے باجود دوم اور ابوعبیدہ میں سے کسی ایک کی بیعت کرو اسمیں تمہاری بھلایی ھے۔

گویا اول نے انتہایی چالاکی کیساتھ اوس و خزرج کے درمیان موجود سابقہ نفرقت کو بھڑکایا باقی مھاجرین کو بھی دھمکا کر طے شدہ پلانینگ کے تحت دو نفر کا اعلان کرتے ھی ان دونوں نے بھی اول کو پاک نبی ص کے یار غار کے عنوان سے خلافت کا حقدار ٹھہرایا اور بیعت کیلیے آگے بڑھ گئے۔

ھاں اوس والے خزرج کے سعد بن عبادہ کی خلافت سے گھبرانے کے علاوہ خلیفے کے نزدیک مقرب ھوکر اھم عھدے لینا چاھتے تھے اسلیے انہوں نے بھی فورا اول کی بیعت کا اعلان کر دیا۔ لھذا قبیلہ اوس میں (اسید بن حضیر) پہلا شخص تھا جس نے بیعت کر دیا جسکی وجہ سے انکے مرنے کے بعد بھی دوم اس کے قرضے چکاتا تھا، پس ایک ایسی چالاکی اور ناگھانی حالت میں سقیفے کے اندر خلافت کا بنیاد رکھا گیا۔ حتی اول، دوم اورل کی بیٹی تینوں، نے پاک نبی ص کی تجھیز و تکفین والے مراسم شرکت نہیں کیا، حتی جناب سوم کی بیٹی نے اقرار کیا کہ ھم نے صرف بیلچے اٹھانے کی آوازیں تو سن لیا لیکن پاک نبی ص کے دفن و کفن سے آگاہ نہیں ہوئے۔

مولا علی ع نے فرمایا: سقیفے کے اندر خلیفے کی بیعت کرنے والا پہلا شخص شیطان تھا جسنے کہا کہ کب سے اج کے دن کا منتظر تھا یقینا اس دن جناب آدم ع کو سجدہ نا کرکے جنت سے محروم ھوا تھا جب کہ اج آدم کی اولاد کو جنت سےمحروم کرکے بدلہ لینے میں کامیاب ھوا۔

جب اصحاب سقیفہ وھاں سے واپس لوٹ رھے تھے تو جناب سلمان ع نے ان سے کہا: کردید و نکردید، یعنی جو تم لوگ کرنا چاھتے تھے وہ کر ھی دیا لیکن جو نبی ص چاھتا تھا وہ تم لوگوں نے نہیں کیا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .