۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
مسلمان

حوزہ/غیرت و حمیت کا تعلق کسی ملک و ملت، یا دین و  آئین سے نہیں بلکہ انسان کی فطرت سے ہے، یعنی ذات واجب خالق اکبر  اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں غیرت قرار دیا ہے اور اس کا بنایا دین اسلام انسانی فطرت کے عین مطابق ہے ۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ ایک غیرت مند انسان نہ کبھی منکر خدا ہو سکتا ہے اور نہ ہی کبھی کسی کو خدا کا شریک سمجھ سکتا ہے ، اسی طرح جو حقیقی مسلمان ہو گا وہ غیرت مند انسان بھی ہو گا۔

تحریر: سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی| غیرت و حمیت کا تعلق کسی ملک و ملت، یا دین و آئین سے نہیں بلکہ انسان کی فطرت سے ہے۔ یعنی ذات واجب خالق اکبر اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں غیرت قرار دیا ہے اور اس کا بنایا دین اسلام انسانی فطرت کے عین مطابق ہے ۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ ایک غیرت مند انسان نہ کبھی منکر خدا ہو سکتا ہے اور نہ ہی کبھی کسی کو خدا کا شریک سمجھ سکتا ہے ، اسی طرح جو حقیقی مسلمان ہو گا وہ غیرت مند انسان بھی ہو گا اور ممکن نہیں کہ کوئی بےغیرت حدود اسلام میں داخل ہو سکے۔

غیرت یعنی اپنے پسندیدہ اور ذاتی امور میں دوسروں کی دخالت برداشت نہ کرنا۔ (مجمع‌البحرین، جلد3، صفحہ 432)دوسرے لفظوں میں یوں بیان کیا جائے کہ اپنے ذاتی اور محبوب امور میں دوسروں کی دخالت سے پاسبانی کرنا۔ ظاہراً اس رد عمل کا سبب حمیت اور عزت نفس ہے۔

غیرت کی اصطلاحی تعریف کے سلسلے میں اہل علم و نظر میں زیادہ اختلاف نہیں ہے۔
مرحوم ملا احمد نراقیؒ فرماتے ہیں غیرت انسانی صفات میں وہ شرافت و فضیلت ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے دین، اپنی عزت، اپنی اولاد اور اپنے مال کی حفاظت کرتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کی حفاظت کے لئے وہ ان میں سے کسی میں بھی تجاوز برداشت نہیں کرتا ہے۔ (معراج‌السعاده، صفحہ 164)

صاحب تفسیر المیزان علامہ طباطبائیؒ فرماتے ہیں غیرت عام حالت اور اعتدال سے انسان کی تبدیلی ہے کہ یہ ایک شخص کو دفاع کرنے اور کسی ایسے شخص سے بدلہ لینے کے لئے کھڑا کر دیتا ہے جس نے اس کی کسی مقدس چیز مثلاً دین، عزت یا اس جیسی کسی چیز میں تجاوز کی کوشش کی ہو۔ یہ ایک ایسی فطری خوبی ہے کہ کوئی بھی انسان اس سے بے تعلق نہیں ہوتا لہذا غیرت انسان کی فطرت میں شامل ہے اور اسلام بھی ایک ایسا دین ہے جو فطرت کی بنیاد پر قانون سازی کرتا ہے اور ان فطری چیزوں کو معتدل کرتا ہے۔ وہ تعداد جو انسانی زندگی میں ضروری اور لازم ہے اسے معتبر اور واجب قرار دیتا ہے اور جو غیر ضروری ہے اسے ختم کر کے غیر معتبر قرار دیتا ہے۔ (تفسیرالمیزان، ترجمه سیدمحمدباقر موسوی همدانی، جلد 4، صفحہ 280)
دوسری جگہ علامہ طباطبائیؒ فرماتے ہیں کہ اولاً اسلام نے غیرت اور تعصب کو باطل نہیں کیا ہے بلکہ اس کی اصل کو باقی رکھا ہے کیونکہ اس کی بنیاد انسان کی فطرت ہے اور اسلام دین فطرت ہے لیکن اس کے فرعی مسائل میں دخالت کی ہے اور کہا کہ وہ غیرت و تعصب جو انسان کی فطرت کے مطابق ہے وہ حق ہے اور جو دوسرے لوگوں یا قوموں نے ایجاد کیا ہے وہ باطل ہے۔ یعنی جہاں پر بھی غیرت و تعصب خدا‌ کی خوشنودی کا سبب ہو بہتر ہے اور جہاں خوشنودی معبود نہ ہو وہ بہتر نہیں ہے۔ (تفسیرالمیزان، ترجمه سیدمحمدباقر موسوی همدانی، جلد 4، صفحہ ۶۷۴)
شہید مطہریؒ نے امیر المومنین علیہ السلام کی حدیث کہ جس میں آپؑ نے فرمایا "شریف اور غیرت مند کبھی زنا نہیں کر سکتا۔" (غررالحکم و دررالکلم، صفحہ 259، حدیث 5534؛ مستدرک‌الوسائل، جلد14، صفحہ 331) تحریر فرماتے ہیں غیرت ایک انسانی شرافت ہے اور معاشرے کی پاکیزگی کے سلسلہ میں انسانی حساسیت ہے۔ (مسئلہ حجاب ، صفحہ ۶۴)

علامہ مطہریؒ نے دوسری جگہ غیرت پر اعتراض کرنے والوں کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خود غرضی کے مقابلے میں غیرت کو چھوڑ دینا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی انسان سے کہا جائے کہ اپنے بیٹے سے محبت نہ کرو جب کہ اولاد کی محبت انسان کی فطرت میں ہے اور یہ نہ صرف انسان بلکہ یہ محبت حیوانات میں بھی پائی جاتی ہے۔ (مسئلہ حجاب، صفحہ ۶۲)
غیرت کے اسباب و بنیاد کے سلسلے میں مختلف نظریات ہیں امیر المومنین علیہ السلام غیرت کی بنیاد شجاعت فرماتے ہیں، ملا احمد نراقیؒ نے شجاعت اور قوت نفس کو بتایا، علامہ طباطبائیؒ نے فطرت کو اور شہید مطہری رحمۃ اللہ علیہ نے احساس اور بشری عاطفہ کو جانا ہے۔

تاریخ بشریت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں میں انبیاء و مرسلین اور ائمہ معصومین علیہم السلام سب سے زیادہ غیرت مند تھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے باپ ابراہیمؑ غیرت مند تھے اور میں ان سے زیادہ غیرت مند ہوں۔ (وسائل‌الشیعہ، جلد20، صفحہ 154، حدیث 25288)حضورؐ کی اس حدیث سے آپؐ کی غیرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاص شاگرد یعنی امیر المومنین علیہ السلام نے آپؐ کی غیرت کے سلسلے میں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کبھی دنیا کے لئے غضبناک نہیں ہوتے تھے، آپ جب بھی حق کے لئے غضبناک ہوتے تو کوئی آپؐ کو پہچان نہیں سکتا تھا اور جب تک آپ کا ساتھ نہیں دیتا تب تک اپ کا غصہ ختم نہیں ہوتا تھا۔( المحجۃ‌البیضاء، جلد 5، صفحہ 303)

کتب تاریخ میں بہت سی مثالیں ہیں جو حضورؐ کی غیرت مندی کی غمازی کرتی ہیں ۔ جنمیں سے چند کی جانب اشارہ مقصود ہے۔

1۔ دشمن کے ایک اسیر کو اس کی غیرت کے سبب آپؐ نے آزاد کر دیا۔ (خصال، شیخ صدوق، جلد1، صفحہ313.)

2۔ اعلان بعثت سے قبل حلف الفضول میں آپؐ کی شرکت۔ (فروغ ابدیت، جلد1، صفحہ 184)

3۔ غزوہ قینقاع اسی غیرت کے سبب وقوع پذیر ہوا کہ جب ایک یہودی نے ایک مسلمان خاتون کی بے حرمتی چاہی تو غیرت محمدی نے یہودی کی اس جسارت کو برداشت نہیں کیا۔ (سیره رسول خدا، جلد 1، صفحہ 503)

4۔ اسی غیرت کے سبب حضورؐ نے حکم بن ابی العاص اور اس کے بیٹے مروان کو مدینہ منورہ سے باہر نکال دیا ۔ (سقیفہ، علامہ سیدمرتضی عسکریؒ، صفحہ 156.)

سرکار ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے متعدد مقامات پر غیرت کی بنیاد ایمان بتایا ہے۔ ‘‘ان الغیره من الایمان’’ (بے شک غیرت ایمان سے ہے۔ وسائل‌الشیعہ، ج 20، ص 154)، ‘‘الغیره من الایمان و البداء من النفاق’’ (غیرت ایمان سے ہے اور بے غیرتی نفاق سے ہے۔ مستدرک الوسائل، جلد ۱۴، صفحہ ۲۳۴)، اسی طرح آپؐ نے فرمایا: ‘‘ان الله تعالی یحب من عباده الغیور’’ (بے شک اللہ غیرت مند بندوں سے محبت کرتا ہے۔ کنزالعمال، جلد ۳، صفحہ ۳۸۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت و سیرت کی روشنی میں غیرت کی دو قسمیں ہیں ۔
1۔ ناموس کے سلسلہ میں غیرت۔
2۔ دین کے سلسلہ میں غیرت

اسی طرح غیرت کبھی مثبت ہوتی ہے یعنی خدا پسند اور کبھی منفی ہوتی ہے یعنی وہ تعصب جو خدا کو ناپسند ہے اور اس سلسلہ میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اہل بیت علیہم السلام ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں آپ حضرات نہ کبھی اپنی ذات کے لئے کسی سے ناراض ہوئے اور نہ ہی کبھی دنیا کے لئے کسی سے بر سر پیکار ہوئے بلکہ جب بھی کسی سے ناراض ہوئے تو دین کی خاطر ناراض ہوئے ۔

ممکن ہے یہ سوال ذہن میں آئے کہ جب مولا علی علیہ السلام کی حکومت اور باغ فدک غصب ہوا تو کیوں اہل بیت علیہم السلام نے اعتراض و احتجاج کیا َ؟ تو اس میں بھی دین ہی محور تھا کیوں کہ حکومت اہل بیت علیہم السلام کا مقصد نہیں بلکہ عدل کو قائم کرنے کے لئے وسیلہ تھا ۔ اسی طرح باغ فدک کا حصول بھی مقصد نہیں بلکہ وسیلہ تھا تاکہ اللہ کے ضرورتمند بندوں کی حفاظت و کفالت کی جا سکے۔

غیرت کے مقابلے میں بے غیرتی ہے اور جس طرح غیرت ایمان ، شجاعت ، احساس، قوت نفس اور بشری عاطفہ کے سبب ہے اسی طرح بے غیرتی ایمان میں کمزوری یا فقدان ایمان ، بزدلی، نفس کی اسیری اور بشری نفرت کے سبب ہے۔

وہ انسان بے غیرت ہے جس کے پاس کردار، پاک دامنی، خواہشات نفسانی کی مخالفت کا جذبہ اور گناہوں کے ترک کرنے کی ہمت نہ ہو۔

بات آگئی تو بیان کر دینا بہتر سمجھتا ہوں کہ عصر غیبت میں جب فقیہ کی تقلید کے سلسلہ میں امام حسن عسکری علیہ السلام کی حدیث ‘‘فأما من كان من الفقهاء صائنا لنفسه، حافظا لدينه، مخالفا لهواه، مطيعا لامر مولاه فللعوام أن يقلدوه.’’ یعنی فقہاء میں سے جو اپنے نفس کو بچانے والا، دین کا محافظ ، خواہشات نفسانی کا مخالف اور حکم مولا کا پابند ہو تو عوام کو چاہئیے کہ اسکی تقلید کریں۔ (تفسیر امام حسن عسکری علیہ السلام جلد ۱، صفحہ ۳۰۰) پر غور کریں تو اس میں ایک مرجع تقلید کے جو شرائط بیان کئے ہیں ان سب کا تعلق غیرت سے ہے، یعنی عوام کو چاہئیے کہ ایک غیرتمند کی تقلید کریں ، ایک غیرتمند سے دین لیں ، ایک غیرتمند کو اپنا رہبر و رہنما سمجھیں ۔

ایک بے غیرت انسان نہ خدا سے شرم کرتا ہے ، نہ اپنی ناموس کی حفاظت کرتا ہے اور نہ ہی دوسرے کی ناموس کے سلسلہ میں احتیاط کرتا ہے، جس سے یہی نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ غیرت اہل ایمان کا خاصہ ہے جس کا ایمان جس قدر قوی ہے وہ اس قدر غیرتمند ہے اور جس کا ایمان جس قدر کمزور ہے وہ اسی کے مطابق بے غیرت ہے۔
اہل علم ونظر نے قرآن و احادیث کی روشنی میں مندرجہ ذیل باتوں کو بے غیرتی کے اسباب میں شمار کیا ہے۔
1۔ خدا اور قیامت پر ایمان نہ ہونا۔
2۔ سور کا گوشت کھانا۔ کیوں کہ غیرت و بے غیرتی کا تعلق صرف انسانوں سے نہیں ہے بلکہ حیوانات سے بھی ہے۔ حیوانات میں مرغ غیرتمند ہوتا ہے اور سور بے غیرت ہوتے ہیں ، لہذا سور کا گوشت کھانے والا بھی بے غیرت بن جاتا ہے ۔
3۔ برا گھرانہ
4۔ برے ہمنشین اور برے دوست و احباب
5۔ جوا اور قمار کے آلات کا استعمال اور الکوحل کا کھانا
6۔ شراب نوشی
7۔ بے حجابی اور برہنگی
8۔ تذکیہ نفس کا نہ ہونا ، خود کی تربیت نہ کرنا
9۔ حرام غذا کا کھانا
10۔ گناہ پر تکرار اور توبہ میں کوتاہی کرنا۔
آج اگر ہم دنیا پر نظر ڈالیں تو جدھر نظر اٹھائیں ظلم ہی ظلم نظر آتا ہے۔ کہیں گولی، کہیں میزائیل، کہیں بم ، کہیں قید و بند ، کہیں پیاس سے تڑپتی انسانیت، کہیں بھوک سے تڑپتے بچے، کہیں یتیموں کے آنسو تو کہیں بیواؤں کی فریاد، کہیں جسم و بدن پر ستم تو کہیں فکر و روح پر غلبہ۔ ہر جانب ظلم ہی ظلم ہے۔ جدھر دیکھیں ظلم کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے۔
75 برسوں سے قبلہ اول کے مجاور مظلوم فلسطینی ان یہودیوں کے ظلم کا شکار ہیں جنکو انہوں نے رحم کھا کر پناہ دی تھی، پناہ دیتے وقت فلسطینی یہ بھول گئے تھے کہ یہ یہودی جس کلیم الہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کلمہ پڑھتے ہیں جب یہ ان کے نہ ہوئے تو فلسطینیوں کے کیا ہوں گے، جس نبی ؑ نے ان کو ذلت و رسوائی سے نکال کر عزت و احترام بخشا تھا جب انکی کی نافرمانی میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی تو ان سے کسی خیر کی امید عبث ہے۔ جن سانپوں کو پالا تھا وہی آج ڈَس رہے ہیں ۔
1948 میں یہودی دین کے نام پر سرزمین فلسطین پر ایک ملک بنا جسے اسرائیل کہتے ہیں اور اس سے ایک سال قبل 1947 میں مسلمانوں کے نام پر پاکستان بنا ، دونوں جگہ کے حالات ایک جیسے نظر آتے ہیں ۔ فلسطین کے سنّی مسلمانوں نے صیہونیوں پر رحم کھایا اور آج انہیں صیہونیوں کے ظلم کےسبب خود رحم کے طلبگار ہیں۔ پاکستان کی تعمیر میں جہاں بانیٔ پاکستان کا عمل تھا وہیں راجہ محمود آباد کی دولت تھی، دونوں ہی شیعہ تھے لیکن آج اسی پاکستان میں شیعہ ہی ظلم کا شکار ہیں ۔ کبھی کراچی کی زمین شیعوں کے خون سے رنگین کی جاتی ہے تو کبھی کوئٹہ میں شیعہ مسجد میں بم دھماکہ ہوتا ہے اور ہزاروں شیعہ شہید اور زخمی ہوتے ہیں تو کبھی زائرین کی بس مسافروں سمیت جلا دی جاتی ہے۔ کبھی ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے تو کبھی کسی اور علاقہ میں شیعوں کی ٹارکٹ کلنگ ہوتی ہے۔ پارہ چنار میں تو ظلم کی ساری حدیں ہی پار ہو گئیں ۔
فلسطین میں سنّی مسلمانوں کو صیہونی قتل کر رہے ہیں ، پارہ چنار میں صیہونی زادے نام نہاد مسلمان شیعوں کو قتل کر رہے ہیں ، فلسطین میں چونکہ مملکت کے باہر سے حملے ہو رہے ہیں اس لئے اس غیر قانونی حملہ کو غیر قانونی سمجھا جا رہا ہے اور اس کی ہر ایک مذمت بھی کر رہا ہے لیکن پارہ چنار میں اموی و عباسی پیروکار حکومت کی مکمل حمایت سے شیعہ قتل ہو رہے ہیں اور اس قتل و خونریزی کے لئے افغانستان سے کرایہ کے طالبانی بھی بلائے جاتے ہیں لہذا وہ قانون کے دائرے میں ہے، نتیجہ میں دنیا پارہ چنار میں ہو رہے مظالم کی جانب متوجہ نہیں ہے۔
افغانستان میں بھی برسوں سے ظلم کا سلسلہ جاری ہے ، طالبان و القاعدہ کے اقتدار میں انسانیت تڑپ رہی ہے، نہ جانے اب تک کتنے افغانی اپنے ملک سے فرار کر کے دوسرے ملک میں پناہ گزیں ہیں ۔ لیکن افسوس مملکت خدا داد کا نعرہ لگانے والی پاکستانی حکومت نے پاکستان میں پناہ گزیں افغانیوں کو انتہائی بے رحمی سے نکال باہر کر دیا، پاکستانی پولیس نے ان بےچاروں کی ضروریات زندگی کے سامان بھی چھین لئے۔
چین میں اویغور مسلمان چینی حکام کے تشدد کا نشانہ ہیں ۔ گھروں کے بجائے کیمپوں میں زندگی بسر رہے ہیں ، کتنے اویغور مسلمان جلا وطن ہیں ۔
برما میں بھی ظلم کا سلسلہ جاری ہے ، جو برما میں ہیں وہ ظلم کا شکار ہیں اور جو برما میں نہیں ہیں وہ یا تو کسی ملک کے پناہ گزیں کیمپ میں ہیں یا کشتی میں سوار حسرت سے ساحل کی جستجو کر ہے ہیں کہ آخر کوئی ملک اجازت دے تو انکا سفر ختم ہو۔
سو سال سے حرمین شریفین اور حجاز پر قابض خائن نجدیوں کا ظلم اپنی مثال آپ ہے، حرمین شریفین میں بنام توحید جنت البقیع اور جنت المعلیٰ جیسے علامات توحید منہدم کر دئیے، قطیف میں آئے دن ظلم کا سلسلہ جاری ہے۔ شیخ باقر النمر رحمۃ اللّٰہ علیہ جیسے نہ جانے کتنے بے گناہ اب تک شہید ہو گئے۔
بحرین میں برسوں سے آل خلیفہ کا ظلم جاری ہے، یمن کی بھی صورت حال مذکورہ ممالک سے مختلف نہیں ۔
شام میں داعش کے باقی ماندہ دہشت گرد دہشت گردی کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
جدھر نظر اٹھائیں ظلم ہی ظلم نظر آے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ صرف اسلام دشمن طاقتوں کے جرائم ہیں بلکہ نام نہاد اسلامی حکام کی خیانتیں بھی ہیں ۔
اسلام جو دین فطرت و غیرت ہے اور مسلمان جو ایک غیرتمند قوم ہے آج اس کی بے حسی اس کی غیرت پر سوالیہ نشان ہے۔
قانون قانون ہے مسلمانوں کی بے حسی کا سبب بھی ایمان میں کمزوری بلکہ قفدان ایمان ہے، گناہوں پر تکرار ہے بلکہ حد تو یہ ہوگئی کہ خادم حرمین شریفین کی جانب سے رقص کی محفلیں منعقد ہونے لگیں، نام نہاد اسلامی بادشاہوں کی یہودیوں سے رشتہ داریاں ہونے لگیں، جوا اور شراب عام ہو گیا، بے حجابی اور بے حیائی پروان چڑھنے لگی تو ایسے عالم میں کسی سے احساس کی توقع ہی عبث ہے۔ لہذا ضرورت ہے کہ ایمان کا دم بھرنے والے اپنے ایمان پر نظر ثانی کریں اور اپنے اسلام کا محاسبہ کریں ، خدا کی جانب پلٹ آئیں ، قرآن کریم اور سنت رسولؐ پر عمل کریں ۔
کیوں کہ قرآن و سنت پر عمل اور قرآن و اہل بیت علیہم السلام سے تمسک ہی نجات کا ضامن ہے۔
خدا ہمیں اپنی، اپنے رسولؐ اور اپنی حجتؑ کی معرفت عطا کرے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .