۲۲ آذر ۱۴۰۳ |۱۰ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 12, 2024
حضرت علی

حوزہ/ یتیموں پر شفقت و محبت قرآن کریم کا اعلان بھی ہے اور رسول و آل رسول علیہم السلام کا فرمان بھی ۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یتیموں کے ساتھ حُسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔ ذیل میں چند آیتیں پیش ہیں۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | یتیموں پر شفقت و محبت قرآن کریم کا اعلان بھی ہے اور رسول و آل رسول علیہم السلام کا فرمان بھی ۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یتیموں کے ساتھ حُسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔ ذیل میں چند آیتیں پیش ہیں۔

‘‘فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ’’ لہذا اب تم یتیم پر قہر نہ کرنا۔ (سورہ ضحیٰ ، آیت 9)

‘‘أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ۔ فَذَٰلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ’’ کیا تم نے اس شخص کو دیکھا ہے جو قیامت کو جھٹلاتا ہے۔ یہ وہی ہے جو یتیم کو دھکےّ دیتا ہے۔ (سورہ ماعون، آیت 1، 2)

‘‘وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۚ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا’’ اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جانا مگر اس طرح جو بہترین طریقہ ہے یہاں تک کہ وہ توانا ہوجائے اور اپنے عہدوں کو پورا کرنا کہ عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (سورہ اسراء، آیت 34)

‘‘وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ۔ كَلَّا ۖ بَل لَّا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ’’ اور جب آزمائش کے لئے روزی کو تنگ کر دیا تو کہنے لگا کہ میرے پروردگار نے میری توہین کی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ تم یتیموں کا احترام نہیں کرتے ہو۔ (سورہ فجر، آیت 16، 17)

مذکورہ آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے صراحت فرما دی کہ خبر دار ! یتیم پر قہر نہ کرنا، دھکے نہ دینا اور یتیم کو دھکے دینے والا در اصل قیامت کا منکر ہے۔ خیانت کی نیت سے یتیم کے مال کو ہاتھ لگانا تو دور قریب بھی مت جانا۔ یتیموں کا احترام و اکرام رزق و روزی میں اضافہ کا سبب ہے۔

یتیموں کے ساتھ حُسنِ سلوک کی تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے قول و عمل سے دی۔ آپؐ کے بعد آپؐ کے حقیقی جانشین امیرالمومنین علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اس سلسلہ میں بھی آپؐ کے مشن کو آگے بڑھایا یہاں تک کہ اشقی الاولین والآخرین عبدالرحمٰن بن ملجم علیہ اللعن و العذاب نے فرق مبارک پر شمشیر لگائی اور آپؑ شہید ہو گئے۔ آپؑ کی یتیم پروری کے واقعات کتب روایات میں کثرت سے موجود ہیں ، ذیل میں چار روایات بطور نمونہ پیش ہیں ۔

1۔ ایک رات امیر المومنین امام علی علیہ السلام اپنے غلام جناب قنبر رضوان اللہ تعالی علیہ کے ہمراہ ایک غریب عورت کے گھر کے پاس سے گذرے تو مشاہدہ کیا کہ وہ غریب عورت چولہے پر پانی سے بھرا برتن چڑھائے ہوئے ہے اور اپنے یتیم بچوں کو دلاسہ دے رہی ہے کہ کھانا پک جائے تو تمہیں کھلاتے ہیں۔ وہ یتیم بچے بھوک سے تڑپ رہے تھے مولائے کائنات نے اس منظر کو دیکھا تو تڑپ گئے فورا اپنے غلام کے ہمراہ گھر گئے اور کھجور کی ٹوکری، آٹے کی بوری، تیل، چاول اور روٹی وغیرہ کاندھے پر اٹھایا تاکہ اس خاتون کے گھر پہنچائیں۔ جناب قنبر نے چاہا کہ وہ سامان خود اٹھا لیں تو امیر المومنین علیہ السلام نے انہیں منع کر دیا۔

مولا جب اس خاتون کے گھر کے دروازے پر پہنچے تو دق الباب کیا اور اجازت لے کر گھر میں داخل ہوئے۔ تھوڑا چاول اور تیل اس ڈیگ میں ڈالا تاکہ کھانا پک جائے۔ جب کھانا تیار ہو گیا تو امیر المومنین علیہ السلام نے انتہائی محبت اور عطوفت سے ان یتیم بچوں کو کھانا کھلایا۔

کھانا کھانے کے بعد وہ بچے ہنسنے لگے اور کھیلنے لگے تو امیر المومنین علیہ الصلوۃ والسلام بھی خوش ہو گئے اور ان کو خدا حافظ کہہ کر گھر سے باہر آ گئے اور جناب قنبر سے فرمایا: جب میں گھر میں داخل ہوا تو بچے بھوک کی شدت سے گریہ کر رہے تھے اور جب میں ان سے رخصت ہوا تو وہ سیراب تھے اور ہنس رہے تھے۔ (کشف الیقین، صفحہ 115)

2۔ امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے دور حکومت میں ایک بار کچھ شہد بیت المال میں آیا تو ابو الیتامی امیر المومنین علیہ السلام نے حکم دیا کہ تمام یتیم بچوں کو حاضر کیا جائے۔ مولائے کائنات کا حکم سنتے ہی تمام یتیم بچے خوش ہو گئے اور اپنے مہربان پدر کی جانب دوڑ پڑے۔

امیر المومنین علی علیہ السلام اپنے دست مبارک سے یتیم بچوں کو شہد کھلانے لگے تو آپ کے اس عمل کو دیکھ کر وہاں موجود ایک شخص نے کہا کہ آپ حاکم وقت ہیں آپ خلیفۃ المسلمین اور امیر المومنین ہیں یہ عمل آپ کی شان کے خلاف ہے۔

مولائے کائنات نے فرمایا: امام یتیموں کا باپ ہوتا ہے۔ میں ان بچوں کو اپنے ہاتھ سے شہد کھلا رہا ہوں تاکہ ان کو باپ کی محبت محسوس ہو سکے۔ (بحار الانوار، جلد 41، صفحہ123)

3۔اپنے دور حکومت میں ایک دن امیر المومنین علیہ السلام نے کوفہ میں دیکھا کہ ایک خاتون پانی کا مشک لئے جا رہی ہے اور وہ کافی پریشان لگ رہی ہے۔ آپ اس کے قریب گئے اور مشک کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے فرمایا: کنیز خدا کیا میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں؟ وہ خاتون آپ کو نہیں پہچانتی تھی لہذا اس نے مشک مولا کو دے دی مولا مشک لے کر اس کے آگے چلے اور اس سے پوچھا کہ تمہارا شوہر کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ وہ ایک جنگ میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے لشکر میں شہید ہو گیا اور ہمارے یتیم بچے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

مولا نے پانی اس کے گھر پہنچایا اور واپس آ گئے اور کھجور، گوشت، آٹا اور دیگر کھانے کا سامان لے کر اس خاتون کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے راستے میں کسی نے کہا مولا یہ سامان میں اٹھا لوں تو آپ نے فرمایا: روز قیامت میرے اعمال کون اٹھائے گا؟ اس خاتون کے گھر کے دروازے پر پہنچے دق الباب کیا۔ اندر سے آواز آئی کون؟ فرمایا میں وہی ہوں جو ابھی پانی لے کر آیا تھا۔ اب میں بچوں کے لئے کھانا لایا ہوں تاکہ ان کو کھلاؤں۔

اس خاتون نے کہا: اللہ تم سے راضی ہو جائے اور میرے اور علی ابن ابی طالب کے درمیان وہ خود فیصلہ کرے۔

مولا گھر میں داخل ہوئے اور اس خاتون سے پوچھا کہ تم روٹی پکاؤ گی یا بچوں کو سنبھالو گی؟ اس خاتون نے کہا میں روٹی پکاؤں گی آپ میرے بچوں کو سنبھالیں۔

خاتون نے آٹے کو خمیر کیا مولائے کائنات نے گوشت کو کباب کیا اور محبت سے کھجوریں بچوں کو کھلانے لگے۔ آپ نے تنور بھی روشن کیا تاکہ روٹی پک سکے۔

اسی وقت پڑوس کی کوئی خاتون گھر میں داخل ہوئی اور اس نے امیر المومنین علیہ السلام کو پہچان لیا اور یتیم بچوں کی ماں سے کہا: تجھ پر وائے ہو تو نہیں جانتی یہ کون ہے یہ ہمارے حاکم خلیفۃ المسلمین امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

وہ خاتون شرمندہ ہو گئی اور امیر المومنین علی علیہ السلام سے معذرت کرنے لگی کہ مجھے معاف کر دیں۔

امیر المومنین علیہ السلام نے انتہائی تواضع اور انکساری سے فرمایا: تم ہمیں معاف کرو کہ تمہاری کفالت میں ہمیں تاخیر ہوئی۔ (بحار الانوار، جلد 41 صفحہ 52)

4۔ عبد الواحد بن زید کا بیان ہے۔ فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ گیا تو خانہ کعبہ کے طواف کے دوران ایک پانچ سال کی بچی کو دیکھا جو غلاف کعبہ کو پکڑے ہوئے کہہ رہی تھی۔ اس کی قسم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصی منتخب ہوا، لوگوں کے درمیان احکام خدا کو برابر سے نافذ کرتا تھا، اس کی ولایت پر واضح دلیل تھی، وہ فاطمہ مرضیہ علیہا السلام کا شوہر تھا۔

اس کمسن بچی کی زبان سے امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل سن کر تعجب ہوا کہ ایک کمسن بچی اس طرح امیر المومنین علیہ السلام کے فضائل بیان کر رہی ہے۔

میں نے اس سے پوچھا میری بیٹی یہ اوصاف کس کے ہیں جو تم بیان کر رہی ہو؟

‘‘قالَتْ: ذلِکَ وَاللَّهِ عَلَمُ الاَعْلامِ وَ بابُ الْاَحْکامِ وَ قَسیمُ الجَنَّهِ وَ النَّارِ وَ رَبَّانِیُّ هذِهِ الْاُمّه وَ رَأسُ الاءئِمَّهِ، اَخُو النَّبِیِّ وَ وَصِیُّهُ وَ خَلیفَتُهُ فی اُمَّتِهِ ذلِکَ اَمیرُالْمُؤمِنینَ عَلِیٌّ بنُ ابی طالِبٍ’’

اس نے کہا: خدا کی قسم وہ بزرگوں میں سب سے بزرگ، باب احکام دین، جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے، اس امت کے مرد الہی پہلے امام رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بھائی اور وصی و جانشین ہمارے مولا امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

یہ بات سن کر میرا تعجب اور بڑھ گیا کہ اس کمسن بچی کو امیر المومنین علیہ السلام کے یہ فضائل کیسے معلوم ہوئے، میں نے اس سے پوچھا تم نے کیسے بیان کر دیا کہ یہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے صفات ہیں؟

اس بچی نے کہا میرے والد (عمار بن یاسر) ان کے محب اور صحابی تھے جو جنگ صفین میں شہید ہوگئے۔ ایک دن امیر المومنین علی علیہ السلام ہمارے گھر تشریف لائے اس وقت میں او میرا بھائی چیچک کے سبب نابینا ہو گئے تھے۔ جیسے ہی مولا نے ہم کو دیکھا تڑپ گئے اور یہ شعر پڑھا۔

‘‘ما اِنْ تَأوَّهْتُ مِنْ شَیْی ءٍ رُزیتُ بِهِ۔ کَما تَأَوَّهْتُ لِلْاَطْفالِ فِی الصِّغَرِ۔ قَدْ ماتَ والِدَهُمْ مَنْ کانَ یَکْفُلُهُمْ۔ فی النَّائِباتِ وَ فی الْاَسْفارِ وَ الْحَضَرِ’’

میں نے کسی مصیبت میں اس طرح گریہ نہیں کیا جیسے چھوٹے بچوں کے لئے گریہ کیا۔ ان کا کفیل و نگہبان کون ہے سفر و حضر میں ان کا خیال کون رکھے گا؟

اس کے بعد مولا امیر المومنین علیہ السلام نے ہمیں اپنے پاس بلایا اپنے دست مبارک کو میرے اور میرے بھائی کی آنکھوں پر رکھا اور دعا پڑھی۔ جیسے ہی آپ کا ہاتھ نیچے ہوا ہماری آنکھوں کی بینائی واپس آگئی۔ فی الحال ہم ایک فرسخ (تقریبا ساڑھے پانچ کلومیٹر) تک اونٹ کو دیکھ سکتے ہیں. اس کے بعد اس بچی نے مجھ سے پوچھا کیا تم علی علیہ السلام سے محبت کرتے ہو؟ میں نے کہا ہاں تو اس نے کہا تم نے مضبوط رسی کو پکڑ رکھا ہے جو ٹوٹنے والی نہیں ہے اور اس کے بعد وہ ہم سے جدا ہوئی اور یہ اشعار پڑھ رہی تھی۔

‘‘ما بُثَّ عَلِیٍّ فی ضَمیرِ فَتیً۔ اِلاَّ لَهُ شَهِدَتْ مِنْ رَبِّهِ النِّعَمُ۔ وَ لا لَهُ قَدَمٌ زَلَّ الزَّمانُ بِها۔ اِلاَّ لَهُ ثَبَتَتْ مِنْ بَعْدِها قَدَمُ۔ ما سَرَّنی أنَّنی مِنْ غَیْرِ شیعَتِهِ۔ وَ إنَّ لی ما حَواهُ الْعَرَبُ وَ الْعَجَمُ’’

علی علیہ السلام کی محبت کسی جوان کے دل میں نہیں آئی مگر یہ کہ اللہ کی نعمت اسے نصیب ہوئی۔ اگر زمانے کے حالات علی علیہ السلام کے محب کے ایک پیر کو لڑکھڑائیں تو دوسرا پیر ثابت ہوگا۔ اگر عرب و عجم کی تمام دولت کے بدلے مجھ سے کہا جائے کہ علی علیہ السلام کی پیروی نہ کروں تو میں ہرگز قبول نہیں کروں گی۔ (بحارالانوار، جلد41، صفحہ 220،221)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .