تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
حوزہ نیوز ایجنسی | ۱۳ رجب کی تاریخ ایک بڑی تاریخ ہے، اس دن تاریخ کے اس عظیم المرتبت انسان کی ولادت ہوئی ہے، جس کی تعلیمات سے آج بھی بنی نوع بشر بہرہ مند ہو رہی ہے، وہ انسان جس کا دل صرف اپنوں ہی کے لئے نہیں، بلکہ ہر ایک انسان کے لئے تڑپتا تھا۔ کیا ایسے انسان کی ولادت کا جشن ہمارے ملک میں اس انداز میں نہیں ہونا چاہیئے کہ دیگر قومیں اس بات کی طرف متوجہ ہوں کہ ہم تاریخ کی کسی عظیم ہستی کی ولادت منا رہے ہیں؟اور جسکی ولادت منا رہے ہیں اس نے انسانیت کو کیا دیا ہے؟ جب ہم امام علی علیہ السلام کی ولادت کا جشن منائیں تو کیا بہتر ہو کہ یہ جشن کچھ اس انداز سے منایا جائے کہ لوگوں کو آپ کی تعلیمات کا پتہ چل سکے اور خود ہم اس ۱۳رجب کو عہد کریں کہ ہماری زندگی راہ علی پر گزرے گی اس لئے کہ علی کی زندگی سیرت پیغبر (ص) کی آئینہ دار وہ زندگی ہے جسکا ایک ایک پل ویسا گزرا جیسا خدا کو مطلوب تھا۔
اہلسنت عالم دین سید ابوالحسن ندوی امام علی علیہ السلام کے پیغمبر سے مانوس ہونے کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خاندانی اور نسبی تعلق، ایک عمر کی رفاقت اور روزمرہ کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کی وجہ سے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو آپ کے مزاج افتاد طبع سے اور ذات نبوی کی خاص صفات و کمالات سے گہری مناسبت ہوگئی تھی، جن سے اللہ تعالٰی نے اپنے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کو نوازا تھا، وہ آپ کے میلان طبع اور مزاج کے رخ کو بہت باریک بینی اور چھوٹی بڑی باتوں کی نزاکتوں کو سمجھتے تھے، جن کا آپ کے رجحان پر اثر پڑتا ہے، یہی نہیں بلکہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو ان کے بیان کرنے اور ایک ایک گوشہ کو اجاگر کرکے بتانے میں مہارت تھی، آپ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و رجحان اور طریق تامّل کو بہت ہی بلیغ پیرایہ میں بیان کیا ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ چاہے ہم ہوں جو علی علیہ السلام کو اپنا پہلا امام مانتے ہیں چاہے ہمارے اہلسنت برادران ہوں اگر انہیں صحیح انداز میں آگے بڑھنا ہے اور زندگی کے نشیب و فراز سے سربلند گزرنا ہے تو ضروری ہے کہ وہ علی علیہ السلام کی زندگی کے رہنما اصولوں کو اختیار کریں تاکہ دین و دنیا میں سرخ رو ہو سکیں۔ یقینا ایسی شخصیت کی عملی زندگی سے آشنا ہونا ہم سب کے لئے ضروری ہے جسے اپنوں تو کیا غیروں نے زبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
آئیں دیکھیں غیر مسلم دانشورں نے امام علی علیہ السلام کے بارے میں کیا کہا ہے اور ان کی گفتگو کے بعد ہماری ذمہ داری ایک پیرو علی (ع) ہونے کی حیثیت سے کیا ہے:
سلیمان کتانی کا امام علی علیہ السلام کے بارے میں یہ ایک جملہ کتنا سچا اور پیارا ہے کہ *تمام فضائل و خصائل علي عليہ السلام ميں اکٹھے ہو گئے تھے، وہ جب منظر عام پر آئے تو انسان کي عظمت بلند ہوئي* اور يہ علي عليہ السلام ہي کي مرہون منت ہے۔ "ایک اور مقام پر کہتے ہیں، جس وقت علي عليہ السلام کو خلافت ظاہری حاصل ہوئی، تو انہوں نے اپنا وظيفہ اور فرض سمجھا کہ دو محاذوں پر مقابلہ کيا جائے، پہلا محاذ لوگوں کو انساني بلندي و عظمت سے آگاہ کرنا تھا اور دوسرا فتوحات جنگي کو اسلامي اصولوں کے تحت استوار کرنا تھا۔ يہي نکات تھے جو سرداران عرب کو ناپسند تھے اور انہوں نے بغاوت کے علم اٹھا لئے”۔
عیسائی مصنف (Poul Salama) امام علی علیہ السلام کو یوں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:
جی ہاں میں ایک عیسائی ہوں، لیکن وسعت نظر کا حامل ہوں، تنگ نظر نہیں، گرچہ میں عیسائی ہوں لیکن ایک ایسی شخصیت کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جس کے بارے میں تمام مسلمانوں کا کہنا ہے کہ خدا ان سے راضی ہے، ایسی شخصیت جس کا عیسائی احترام کرتے ہیں اور اپنے اجتماعات میں ان کی ذات کو موضوع سخن قرار دیتے ہیں اور ان کے فرامین کو اپنے لئے نمونہ عمل سمجھتے ہیں، آئینہ تاریخ نے پاک و پاکیزہ اور اپنے نفس کو کچلنے والی بعض نمایاں ہستیوں کی واضح تصویر کشی کی ہے، ان میں علیؑ کو سب سے برتری حاصل ہے۔ *یتیموں اور فقراء کی حالت زار دیکھ کر غم سے نڈھال ہوکر آپ کی حالت ہی غیر ہوجاتی تھی، اے علیؑ آپ کی شخصیت کا مقام ستاروں کے مدار سے بھی بلند و برتر ہے۔ یہ نور کی خاصیت ہے کہ پاک و پاکیزہ باقی رہتا ہے اور اور گرد و نواح کے گرد و غبار اسے داغدار اور آلودہ نہیں کرسکتے۔ وہ شخص جو شخصیت کے اعتبار سے آراستہ پیراستہ ہو وہ ہرگز فقیر نہیں ہوسکتا، آپ کی نجابت و شرافت دوسروں کے غم بانٹنے کے ذریعے پروان چڑھی شک نہیں کہ دینداری اور ایمان کی حفاظت میں جام شہادت نوش کرنے والا مسکراتے ہوئے ہر درد و الم کو قبول کرتا ہے*۔
کیا قابل غور نہیں کہ ایک عیسائی اس والہانہ انداز میں گفتگو کر رہا ہے اور وہ بھی امام علی علیہ السلام کے سلسلہ میں، اگر ایک عیسائی دانشور علی علیہ السلام کی شخصیت میں دوسروں کا درد دیکھ رہا ہے اگر فقرا کو دیکھ کر علی علیہ السلام میں ان کا درد دیکھ رہا ہے تو ایسے میں ہماری ذمہ داری کیا ہے ایک علی کے چاہنے والے کی حیثیت سے؟ *کیا علی علیہ السلام کی زندگی ہم سے مطالبہ نہیں کرتی کہ ہم اپنے سماج اور معاشرہ میں غریب و نادار طبقے کا ہاتھ پکڑیں؟ کیا علی علیہ السلام کی زندگی ہم سے مطالبہ نہیں کرتی کہ دوسروں کا غم بانٹیں انہیں ہلکا کریں اگر علی علیہ السلام کی شخصیت درد و غم و اندوہ سے نکھرتی ہے تو ہمیں بھی مصائب و آلام اور پریشانیوں میں خود کو سنبھالتے ہوئے جادہ عشق پر سربلند و سرفراز ہو کر چلنا ہوگا*۔ ایک اور مقام پر ایک اور مستشرق برطانوی مصنف جرنل سر پرسی سایکس (Journal Sir Percy Sykes) امام علی علیہ السلام کے بارے میں یوں کہتے نظر آتے ہیں: ”حضرت علیؑ دیگر خلفاء کے درمیان شرافت نفس، بزرگواری اور اپنے ماتحت افراد کا خیال رکھنے کے اعتبار سے بہت مشہور تھے۔ بڑے لوگوں کی سفارشات اور خطوط آپ کی کارکردگی پر اثرانداز نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی ان کے تحفے تحائف پر آپ ترتیب اثر دیتے تھے۔ امانتوں کے معاملے میں حضرت علیؑ کی دقت نظر اور ایمانداری کے باعث لالچی عرب آپ سے نالاں تھے۔ اس عیسائی مصنف کا امام علی علیہ السلام کے بارے میں یوں اظہار خیال کرنا کیا ہم سے یہ تقاضا نہیں کرتا کہ آج سیرت علی علیہ السلام پر عمل کرتے ہوئے ہمیں اپنی زندگی میں انہیں چیزوں کو اپلائی کرنا ہوگا جو امام علی علیہ السلام کی حیات میں نظر آتی ہیں؟ اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد ایک عیسائی مصنف *اگر علی علیہ السلام کو اس لئے یاد رکھے ہوئے ہے کہ علی علیہ السلام اپنے ماتحتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے تو ہم کہاں پر ہیں؟ اپنے ماتحتوں کے ساتھ ہمارا طرز عمل کیا ہے؟* علی علیہ السلام اگر امانت کے سلسلہ سے بہت زیادہ حساس تھے تو ہم کتنے حساس ہیں؟
”علیؑ ایسے صاحب فصاحت تھے عرب میں ان کی باتیں زبان زد عام ہیں، آپٖ ایسے غنی تھے مساکین کا ان کے گرد حلقہ رہتا تھا، سوال یہ ہے کہ *کیا ہماری زندگی ایسی ہے کہ ہمارے اردگرد مساکین و فقراء کا حلقہ رہے؟ یا ہم اس حلقہ کو ڈھونڈتے ہیں جہاں اغنیاء و ثروت مند افراد نظر آتے ہیں؟* فرانس کے میڈم ڈیالفو Madame Dyalfv کہتے ہیں: آپ اسلام کی سربلندی کے لئے مظلومیت کے ساتھ وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے، حضرت علیؑ وہ باعظمت ہستی ہیں جنہوں نے ان تمام بتوں کو توڑ ڈالا جنہیں عرب یکتا خدا کا شریک ٹھہراتے تھے۔ اس طرح آپ توحید پرستی اور یکتا پرستی کی تبلیغ کرتے تھے، آپ ہی وہ ہستی ہیں جس کا ہر عمل اور کام مسلمانوں کے ساتھ منصفانہ ہوا کرتا تھا۔ یہ صرف فرانس کے دانشور ہی نہیں بلکہ برطانوی ماہر تاریخ ایڈوڈ گیبن (1737-1794) بھی امام علی علیہ السلام کے بارے میں کہتے نظر آتے ہیں: ”حضرت علیؑ لڑائی میں بہادر اور تقریروں میں فصیح تھے، وہ دوستوں پر شفیق اور دشمنوں پر فراخ دل تھے۔” اب یہاں پر بھی ہمیں خود سے سوال کرنا ہے کیا ہمارا ہم و غم وہی ہے جو علی کا تھا؟ کیا ہماری زندگی میں وہ توحید پائی جاتی ہے جس کے لئے علیؑ نے جنگیں لڑیں؟ کیا ہمارا مزاج مسلمانوں کے ساتھ ویسے ہی منصفانہ ہے جیسا علی ؑ کا تھا؟ ان مصنفین کے جملوں کو دیکھیں اور خود کو ان جملوں کے میزان پر تولیں کیا ہم ایسے ہی ہیں؟ کیا ہم اپنے بھائیوں اور برادران دینی کے ساتھ منصفانہ مزاج رکھتے ہیں؟ کیا ہمارا کام ہمارا عمل حتٰی ہمارا نظریہ منصفانہ معیاروں پر استوار ہے؟ کیا جہاں ہم ہوں وہاں انصاف و عدل کی خوشبو آتی ہے یا جہاں پہنچ جائیں وہاں ظلم کا سیاہ دھواں اٹھتا نظر آتا ہے، کیا ہم اپنے دوستوں کے ساتھ شفقت کا برتاو کرتے ہیں، کیا اپنے دشمنوں کے ساتھ ہمارا عداوت و دشمنی کا کوئی معیار ہے، یا جو فراخ دلی امام علی علیہ السلام کی دشمنوں کے ساتھ تھی وہ ہم اپنے دوستوں کے ساتھ بھی نہیں دکھا پاتے؟
معروف تاریخ پروفیسر فلپ کے حتٰی 1886-1978) کہتے ہیں:
"سادگی حضرت علیؑ کی پہچان تھی انہوں نے بچپن سے اپنا دل و جان رسول خدا کے نام کردیا تھا”۔ *کیا ہم اپنے طرز زندگی میں سادہ ہیں یا دنیا کی زرق و برق میں پوری طرح یوں غرق ہیں کہ سادگی محض ایک حرف بن کر رہ گئی ہے ہماری زندگی میں سب کچھ ہے سوائے سادگی کے، ہم فیشن اور زمانے کی ضرورت کی آڑ میں وہ سب کچھ کرتے ہیں جسکی علی (ع) کی زندگی میں کوئی جگہ نہیں تھی بلکہ علی (ع) کی جنگ ہی انہی لوگوں سے تھی* جو دنیا میں اس طرح رنگ گئے تھے کہ سادہ زیستی انکے لئے آبرو کا مسئلہ بن گئی تھی وہ ایک عام آدمی کی طرح سادہ نہیں جی سکتے تھے انہیں تام جھام کی ضرورت تھی، انہیں اپنے انسان ہونے پر فخر نہ تھا بلکہ وہ اپنے مادی وسائل و ذرائع پر فخر کرتے تھے
سرویلیم مور (1905-1918)” ایک الگ زاویہ کے تحت امام علیہ السلام کی زندگی میں پائی جانے والی دانشمندی و شرافت کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں:
"حضرت علیؑ ہمیشہ مسلم دنیا میں شرافت اور دانشمندی میں مثال رہیں گے”۔ اب ہم سوچیں کیا ہماری زندگی کے فیصلے ہماری دانشمندی کی علامت ہیں کیا ہم ایسے مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر ہمارے غیر مسلم بھائی کہہ سکیں کہ یہ ایسا علی علیہ السلام کا ماننے والا ہے جو دانشمندی و شرافت مندانہ زندگی میں علی علیہ السلام کی طرح بے مثال ہے، برطانوی ماہر جنگ جیرالڈ ڈی گورے 1897-1984): ایک مقام پر کہتے ہیں "حضرت علیؑ کے اسلام سے خالصانہ تعلق خاطر اور معاف کرنے کی فراخدلی نے ہی ان کے دشمنوں کو شکست دی”۔ اب ہم سوچیں کہ ہمارا اسلام سے تعلق کس قدر خالص ہے اور کیا ہم کسی خطا کا شکار ہونے والے اپنے ہی دوست کو معاف کرنے پر تیار ہیں؟ یا ہر وقت بدلہ لینے کی فکر ہمیں ستائے رہتی ہے اور جب تک ہم بدلہ نہ لے لیں آتش انتقام فروکش نہیں ہوتی؟
امام علی علیہ السلام کے سلسلہ سے مختلف مکاتب فکر سے متعلق دانشوروں کے اظہار خیال کے یہ چند نمونے تھے جنہیں ہم نے آپ کے سامنے پیش کیا، اس طرح اور اس سے بھی بہتر ایسے مسحور کن جملے آپکو امام علی علیہ السلام کے سلسلہ سے بہت ملیں گے جن کو پڑھ کر یا سن کر آپ وجد میں آ جائیں لیکن اس منزل پر آگے بڑھ کر ہمارا سوال خود سے ہے کہ چاہے وہ دوستوں سے شفقت ہو یا سادگی و شرافت یا پھر دوسروں کو معاف کر دینے کا جذبہ ہمیں یہ خود سے پوچھنا ہوگا کہ یہ غیر مسلم دانشور امام علی ؑ کے جن صفات کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں سراہ رہے ہیں ہم بھی انہیں سراہیں تو ہم میں اور ان میں فرق کیا ہوگا ؟ کیا فرق صرف ماننے اور تسلیم کرنے میں ہے یا فرق عمل میں ہونا چاہیئے؟ *اگر فرق عمل میں ہے تو ہمارا عمل کہاں ہے اور علی ؑ کی زندگی کہاں ہے؟* علی کی کتاب نہج البلاغہ آج ہمارے یہاں کیوں مظلوم ہے وہ کتاب جس کے بارے میں یہی سلیمان کتانی لبنانی مفکر کہتے نظر آتے ہیں، ”کونسي ايسي چيز ہے جو نہج البلاغہ ميں بيان کي گئي ہے اور وہ ایک حقیقت کی عکاس نہ ہو؟ ايسا لگتا ہے جيسے آفتاب کا تمام نور سمٹ کر پیکر علي ابن ابي طالب عليہ السلام ميں سما گيا ہو کونسا ايسا کام ہے جو علي عليہ السلام نے اپني زندگي ميں انجام ديا ہو اور اس کا انجام انتہائی اعلٰی نہ ہو۔ ہمارا یہ خود سے سوال ہونا چاہیئے کہ جب غیر اسلامی دانشور و اسکالرز امام علی علیہ السلام کے بارے میں اتنے خوبصورت انداز میں اظہار خیال کر رہے ہیں تو ہمیں پھر کیسا ہونا چاہیئے ہمارا عمل کیسا ہونا چاہیئے؟
*کیا آج کی اس دنیا میں ہمارے لئے ضروری نہیں کہ انسانیت کی قدروں کو اجاگر کرنے کے لئے خود بھی علی ؑ کے اصولوں پر چلیں اور دنیا کے سامنے ان کی کتاب کے تعلیمات کو بھی عام کریں*۔ آج دنیا میں یہ نعرہ تو بہت دیا جاتا ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور حقوق بشر کی عالمی قرارداد میں بھی یہ بات موجود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر عالمی حقوق بشر کے حوالہ سے پوری دنیا کے لوگ ایک دوسرے کے بھائی ہیں، تو پھر یہ جنگ و جنایت کیسی؟ کیوں دنیا میں چین و سکون کیوں نہیں؟ کیا اس کی بنیاد یہ نہیں کہ انسانی حقوق کے دعویدار خود دنیا میں جنگ کی آگ بھڑکانے میں مصروف ہیں جو حقوق بشر کا نعرہ دے رہے ہیں وہی اپنے مفادات کے لئے دوسروں کے حقوق کو چھین رہے ہیں۔ *ایسے میں کیا ضرورت نہیں ایک ایسے انسان کا دامن تھاما جائے جو صرف حقوق بشر کا نعرہ لگانے والا نہ ہو بلکہ حقیقی معنی میں حقوق بشر کا محافظ ہو اور ایسا انسان علی ؑ کے علاوہ کہیں مل جائے تو دنیا بتائے؟* سبکو اسی کی پناہ میں جانا چاہیئے لیکن افسوس کہ ایسی شخصیت علی کے علاوہ کہیں اور نظر نہیں آتی، حقوق بشر کا منشور لکھنے والے تو بہت ہیں لیکن حقیقی معنی میں انسان کے ہمہ جہت حقوق کی رعایت کرنے والی ذات بس علی (ع) کی ہے، علی ؑ ان لوگوں کی طرح نہیں جو ایک منشور لکھتے ہیں اور جب وہ منشور اپنے مفادات سے ٹکراتا ہے تو اسے ہی کنارے ڈال دیتے ہیں بلکہ *علی ؑ اس شخصیت کا نام ہے جو پہلے عمل کرتا ہے پھر دوسروں کو بتاتا ہے* حضرت علی(ع) نے اس حقوق بشر کے منشور کو اگر مالک اشتر کے مکتوب میں درج فرمایا تو اس پر عمل بھی کیا جبکہ علی ؑکے علاوہ لوگوں نے انسانی حقوق کا قانون تو لکھا لیکن ھرگز خود اس پر عمل نہیں کیا۔ آج آپ عالمی منظر نامہ پر نظر ڈالیں اور انسانی حقوق کے منشور کو دیکھیں تو آپکو نظر آئے گا کہ حقوق بشر کا نعرہ لگانے والے عالمی سامراجیت کے شانہ بشانہ جیسے کل اپنے مفادات کی جنگ میں مشغول تھے آج بھی ہیں یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کی بازیابی کی آڑ میں انسانی اقدار و حقوق انسانی کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں کبھی شام پر حملہ ہوتا ہے کبھی یمن پر کبھی افغانستان و عراق پر۔
وہ مظلوموں کے خون سے رنگیں سرزمین یمن ہو، دہشت گردوں کی وحشیانہ کاروائیوں سے خون آشام سرزمین شام، یا پھر بےگناہوں کے لہو سے رنگین عراق و فلسطین اور سامراج کے نشانے پر کھنڈرات میں تبدیل غزہ کی پٹی ، یہ بے گناہوں کا خون تب تک ارزاں رہے گا جب تک کہ ہم دنیا کے اندر انصاف کا مزاج نہ پیدا کر دیں اور لوگوں کے دلوں میں وہ درد نہ منتقل کر دیں جسے درد علی ؑ کہا جاتا ہے۔ وہ انصاف کی خو ہو یا *علی ؑکا درد دنوں ہی چیزوں کو علی ؑ کی کتاب نھج البلاغہ بیان کر رہی ہے ورنہ دنیا میں انسان بھیڑیا بن کے اپنے ہی ہم نوعوں کو چیرتا پھاڑتا رہے گا* جیسا کہ توماس ھابس کے مشہور نعرہ میں آیا:”انسان ہی، انسان کے لئے بھیڑیا ہے” یہی نعرہ عملی ہوتا رہے، بالکل واضح ہے کہ ”انسانوں کے درمیان مساوات ”مقررہ حقوق اور تکلیف کے مقابلے میں، پاک اور متمدن انسانوں کی دلی خواہش رہی ہے، لیکن افسوس کی بات ہے جیسا کہ قدیم اور جدید زمانے سے انسانوں کی تاریخ شاہد ہے، کہ یہ مفہوم بھی ”انسانی حقوق” کے نعرہ کی طرح یا تو تحریر و تقریر و اور اشتہارات کا وسیلہ بن کر رہ گیا ہےجسے دوسروں کے لئے بیان کیا جاتا ہے اور بس ،یا ناتواں اور سادہ لوح افراد کو فریب دینے کا وسیلہ ہے جو کہ اس نعرہ کی ظاہری خوبصورتی کو دیکھ ساتھ آ جائیں جبکہ اگر حقوق بشر کی تمام شقوں کو معاشرہ میں لانا ہو اور محض ایک نعرہ سے نکال کر اسے زندگی کے ہر شعبہ میں جاری و ساری کرنا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک ایسے انسان کے پاس جائیں جو صرف حاکم نہیں ہے بلکہ حکومت تک پہنچنے سے پہلے وہ مزدور رہا ہے، اس نے نہروں اور چشموں کو جاری کرنے میں انسانی مزدوروں کو بعد میں لگایا ہے، سب سے پہلا پھاوڑا خود چلایا ہے، سب سے پہلا بیلچہ خود چلایا ہے، پہلا کدال خود چلایا ہے، دنیا ایسا انسان کہاں سے لائے گی جس نے پیاسوں کے لئے چشمے خود جاری کئے ہوں، نہ کہیں سے بل پاس ہو جانے کا انتظار کیا نہ کہیں سے بجٹ کے آ جانے کا انتظار کیا، نہ ہی عوامی اعتراض کا سامنا کرنے پر اسے کسی کے سامنے مجبور ہونا پڑا بلکہ *اس نے دیکھا کہ انسانیت کو پانی کی ضرورت ہے تو نکل پڑا کہیں قناتیں بنائیں، کہیں چشموں کو پھوڑا، کہیں نہر و ںاور ندیوں کے رخ کو کھیت کھلیان کی طرف موڑا، ایسا انسان جس نے ضرورت مندوں کے لئے حمالوں کو نہیں ڈھونڈا کہ کوئی مل جائے تو دو پیسے دیکر اس پر بوجھ لاد دیا جائَے بلکہ جب دیکھا کہ کسی کو ضرورت ہے اور اس سے اپنا بوجھ نہیں اٹھ رہا تو آستینوں کو چڑھا کر آگے آ گیا کہ میں ہوں، ایسا انسان جس نے لوگوں کی خاطر حمالی کی، ایسا انسان جس نے بیواوں اور یتیموں کے لئے خود کھانا بنایا، ایسا انسان جس نے اپنی جوتیاں خود سیئں، ایسا انسان جو کبھی کھیت میں کام کرتا نظر آیا کبھی یہودی کے باغ میں آبیاری کرتا نظر آیا کبھی جنگوں میں تلوار چلاتا نظر آیا یقینا اتنا حق ہم سب پر رکھتا ہے کہ اس نے جب قلم اٹھا کر کچھ لکھا ہے تو ہم سب دیکھیں کہ اس نے انسانیت کو اپنی تحریر میں کیا دیا ہے* لیکن یہ سب تب ہوگا جب ہم اس کی کتاب کو پڑھیں گے اور دیکھیں گے ہم سے مخاطب ہو کر اس نے کیا کہا ہے۔
آج جب ہم تیرہ رجب کی خوشیاں منانے میں مصروف ہیں، جب ہر طرف چراغانی ہے، جب ہر طرف مبارک بادی کے سلسلے ہیں، پھول ہیں، گلدستے ہیں، عطر آگیں ماحول ہے، ایسے میں کیا ضروری نہیں کہ ہم اپنی فریاد کرتی، چیختی چلاتی روح کی طرف ایک نیم نگاہ کریں اور دیکھیں کہ وہ کیوں فریادی ہے، کیا بہترین ردیف و بہترین قافیوں کی بندش میں امام علی علیہ السلام کی شان میں قصائد سپرد قرطاس کرنے والوں پر لازم نہیں کہ دیکھیں امام علی علیہ السلام ان سے کیا کہہ رہے ہیں، نھج البلاغہ ان سے کیا کہہ رہی ہے ؟ *کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا حال بقول رہبر انقلاب اسلامی ایک ایسے بیمار کا ہو جس کی جیب میں یا الماری میں ایک ماہر طبیب کا نسخہ پڑا ہوا ہے لیکن وہ اس نسخے کو کھول کر نہیں دیکھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا جبکہ اپنے مرض کی تکلیف سے تڑپتا بھی ہے*۔ تیرہ رجب میں جتنی خوشیاں منائی جائیں کم ہیں، جتنی چراغانی ہو، جتنی محافل سجیں کم ہیں کہ جس شخصیت کے لئے یہ سب ہو رہا ہے وہ یکتائے روزگار ہے، لیکن کاش ہماری تھوڑی توجہ اس بات پر بھی ہو جائے کہ جس شخصیت کی ولادت کا جشن ہم منا رہے ہیں اسکی کتاب بالکل اسی کی طرح تنہا و اکیلی ہے، ہمارے درمیان ویسے ہی جیسے علی علیہ السلام تنہا تھے، نیزوں پر قرآن اٹھانے والوں کے درمیان، آج نھج البلاغہ تنہا و اکیلی ہے، علی علی کے نعروں کے درمیان حیدر حیدر کے نعروں کے درمیان، کیا ہی مزہ دوبالا ہو جائے اور ان نعروں میں ایک نئی روح دوڑ جائِے اگر ہم ان نعروں کے ساتھ نھج البلاغہ کے تعلیمات پر بھی کچھ توجہ کر لیں، ۱۳ رجب کی اس عظیم تاریخ میں جب ہر سو خوشیوں کے میلے ہیں، اگر ہم نھج البلاغہ کو اس کی غربت سے نکالنے کے لئے ایک قدم بھی اٹھا سکے تو شاید علی علیہ السلام بھی ہمیں مسکرا کر گلے لگا کے کہیں مرحبا میرے چاہنے والے تونے میری ولادت کی خوشی ویسے منائی جیسے میں چاہتا تھا تو نے مجھے خوش کیا میرا خدا تیرا دامن خوشیوں سے بھر دے۔