تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
نوٹ: یہ مقالہ 3 مارچ 2024 کو لکھنؤ میں منعقدہ "حضرت غفرانمآب رحمۃ اللّٰہ علیہ کانفرنس" میں پیش کیا جا چکا ہے۔
تیرہویں صدی ہجری کی ابتداء میں خلیفہ ثانی جناب عمر بن خطاب کی نسل سے تعلق رکھنے والے مشہور صوفی شیخ شاہ عبد العزیز دہلوی کہ جن کے دادا شیخ عبد الرحیم دہلوی مغل بادشاہ اورنگزیب کے خاص تھے، نے مذہب حق اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں پر اعتراض میں ‘‘تحفہ اثناء عشریہ’’ کتاب پیش کی۔
واضح رہے کہ نہ یہ کتاب نئی تھی اور نہ ہی اس میں لکھے اعتراضات اور شبہات جدید تھے بلکہ یہ خواجہ نصر اللہ کابلی کی عربی کتاب ‘‘ صواقع موبقہ’’ کا فارسی ترجمہ تھا ۔ محدث دہلوی نے ‘‘تحفہ اثناء عشریہ’’ کا پہلا ایڈیشن اپنے تاریخی نام ‘‘غلام حلیم’’ کے نام سے شائع کیا اور دوسرا ایڈیشن اپنے مشہور نام سے شایع کیا۔
شیعہ علمائے اعلام کی کتب پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں ‘‘صواقع موبقہ’’ ہو یا ‘‘تحفہ اثناء عشریہ’’ ہو ان میں لکھے اعتراضات کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ لیکن چونکہ وہ دور مغلیہ سلطنت کے زوال کا زمانہ تھا ، محدث دہلوی نے شیعہ امراء سے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے یہ کتاب پیش کی۔ جس کا واحد مقصد شیعہ سنی اختلاف تھا اور پورے بر صغیر کو اس اختلاف کی آگ میں جھوکنا تھا۔
پہلے جب اپنے غیر معروف نام سے کتاب پیش کی تو شیعہ علماء نے نرمی برتی تو انھوں نے کھل کر اپنے مشہور نام سے دوبارہ یہی کتاب شائع کرائی۔
دوسرے ایڈیشن کا آنا تھا کہ علماء غدیر دست بہ قلم ہوئے، کتاب کے متعدد جوابات آئے ۔ جنمیں شہید رابع آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد کامل دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ، مجدد شریعت آیۃ اللہ العظمیٰ سید دلدار علی نقوی غفرانمآب رحمۃ اللہ علیہ ، ابناء حضرت غفرانمآب رحمۃ اللہ علیہم، علامہ سید محمد موسوی قلی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ سید حامد حسین موسوی رحمۃ اللہ علیہ کے اسماء گرامی سر فہرست ہیں۔
محدث دہلوی نے ‘‘تحفہ اثناء عشریہ’’ کے دیباچہ میں تحریر کیا کہ اس کتاب کا نام تحفہ اثنا عشریہ اس مناسبت سے رکھا گیا ہے کہ بارہویں صدی ہجری کے اختتام پر یہ کتاب جلوہ گر ہو رہی ہے اور دیباچہ کے آخر میں لکھا کہ اس کتاب کو بارہ اماموں کی تعداد کے مطابق بارہ ابواب پر مرتب کیا گیا ہے۔
تحفہ اثناء عشریہ کے بارہ ابواب مندرجہ ذیل ہیں:
(1)شیعہ مذہب کی ابتدا اور اس کے فرقے۔ (2)شیعوں کے مکائد ۔ (3) شیعہ علماء اور ان کی کتابیں۔ (4)شیعہ روایات اور ان کے راوی۔ (5)الہیات۔ (6)نبوت۔ (7)امامت۔ (8)معاد۔ (9)فقہی مسائل ۔ (10)خلفائے ثلاثہ، ام المومنین اور دیگر اصحاب کے مطاعن۔ (11)شیعوں کے خصوصیات ، جو تین فصلوں پر مشتمل ہے: اوھام ، تعصبات ، ہفوات ۔ (12) تولاو تبرا ،دس مقدمات پر مشتمل۔
زیر نظر تحریر حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید دلدار علی نقوی غفرانمآب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ‘‘ ذوالفقار ’’ سے متعلق ہے۔ جو‘‘تحفہ اثناء عشریہ’’ کے بارہویں باب تولا و تبرا کا جواب ہے اور اس باب میں دس مقدمہ ہیں کہ ہر مقدمہ کا سرکار غفرانمآب رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے علمی ، منطقی اور مُسکت جواب دیا ہے۔
بچپن سے پڑھتے آئے ہیں ذوالفقار یعنی حضرت علی علیہ السلام کی تلوار۔ ذوالفقار یعنی قدرت و شجاعت حیدری کا مظہر۔ اس کی وجہ تسمیہ کے سلسلہ میں معلم بشریت مربی انسانیت حجت کبریاء ولی خدا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا گیا تو امام ؑ نے فرمایا: امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے اس ذوالفقار سے جسے بھی قتل کیا وہ دنیا میں اپنے کنبہ و اولاد سے محروم ہوا اور آخرت میں جنت سے محروم ہوا۔ (بحارالانوار، جلد 37، صفحہ 294)
قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے نزول ذوالفقار کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:‘‘ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ’’ (سورہ حدید، آیت 25) اور ہم نے لوہے کو بھی نازل کیا ہے جس میں شدید جنگ کا سامان اور بہت سے دوسرے منافع بھی ہیں۔
معصومین علیہم السلام کی روایات کی روشنی میں ذوالفقار دلیل امامت ہے اور یہ ہر معصوم امام کے پاس تھی اور آج ہمارے بارہویں امام حضرت ولی عصر امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے پاس ہے۔
حضرت غفرانمآب رحمۃ اللہ علیہ نے شائد اس کتاب کا نام ذوالفقار اس لئے رکھا ہو کہ دنیا کو مذہب حق اہل بیت علیہم السلام کی حقانیت، شجاعت اور قدرت کا احساس ہو جائے اور جان لیں کہ جو بھی اس مذہب حق کے خلاف منھ کھولتا ہے دنیا و آخرت کی محرومی اس کا نصیب ہوتی ہے۔ یہ کتاب بھی جہاد تحریر میں دشمن کو زیر کرنے میں شدید ٹھہری اور اس سے مومنین کو فائدہ پہنچا۔
محدث دہلوی نے کتاب ‘‘تحفہ اثناء عشریہ’’ کے بارہویں باب میں دس مقدمہ لکھے ہیں ۔ جن میں سے ہر مقدمہ کا مولف ذوالفقار نے جواب لکھا ۔
مقدموں کے جواب سے قبل مقدمہ مولف ہے ۔ جس کا آغاز ان الفاظ میں ہے‘‘الحمد للہ مثبت الحق و مزیل الباطل’’ یعنی حمد ہے اس خدا کی جس نے حق کو ثابت کیا اور باطل کو زائل کیا ۔ اس کے بعد محمد و عترت محمد علیہم السلام پر ان الفاظ میں درود تحریر فرمائی ‘‘والصلاۃ علی الدعاۃ الی سبیل النجاۃ ، محمد و عترتہ ، الذین خصوا بالمناقب و الفضائل ’’ یعنی درود ہو راہ نجات کی دعوت دینے والوں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور انکی عترت و اہل بیت علیہم السلام پر کہ جنکو اللہ نے مناقب اور فضائل سے مخصوص کیا ۔ اس کے بعد امیراالمومنین امام علی علیہ السلام کا القاب و فضائل کے ساتھ ذکر کیا اور امام ؑ کے نام سے پہلے آپ کی مظلومیت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ‘‘الذی غصبوا حقہ فی السقیفۃ و الشوریٰ ’’ یعنی جسکا سقیفہ اور شوریٰ میں حق غصب ہوا۔ کتاب کے ابتدائی خطبہ سے ہی تتمہ تک کا اندازہ ہو جائے گا۔
اس مختصر خطبہ کے بعد آپ نے مولف تحفہ کو اس کی غلطی کا احساس دلاتے ہوئے لکھا : دور حاضر میں ایک صوفی اور سنی خانوادہ سے تعلق رکھنے والے شخص نے یہ سوچا کہ جس طرح زمانہ قدیم سے شیعہ علماء اپنے مخالفین کی کتابوں سے اپنی حقانیت کو ثابت کر کے مبہوت کر دیتے ہیں اسی طرح یہ بھی شیعوں کی کتابوں سے شیعوں کو مبہوت کر دیں گے لیکن وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ اگر یہ کام ممکن ہوتا تو ان کے اسلاف جو ان سے برتر تھے وہ ان سے پہلے یہ کام انجام دے چکے ہوتے اور اس طرح اپنے دلوں کے غموں کو دور کر لیتے۔
یہاں اس جانب بھی اشارہ کر دیا جائے کہ ابتداء سے عالم تشیع کے علماء کا یہ امتیاز رہا کہ انھوں نے ہمیشہ اپنی بات علم و ادب کے دائرے میں بیان کی ، کبھی بھی اپنے مخالف کے سلسلہ میں کوئی رکیک یا بے ہودہ جملہ نہ لکھا اور نہ ہی بولا اور نہ ہی کبھی تہمت اور بہتان پردازی کی ہے ۔ جب کہ رکیک الفاط ، بے ہودہ گوئی اور بہتان، الزام تراشی ہمیشہ سے مخالفین کا خاصہ رہا ہے۔ اس بات کو مقدمہ مولف میں مولف ذوالفقار نے بیان کیا اور اس کی مثال بھی پیش کی لیکن اللہ رے حضرت غفرانمآب رحمۃ اللہ علیہ کی شان علم اور عظمت ادب کہ ان تمام ہرزہ سرائی کا انتہائی متانت سے جواب دیا اور تحریر کی پاکیزگی کا مکمل خیال رکھا ۔
اہل سنت اور صوفی کے فرق کو بھی بیان کرتے ہوئے صوفیت کی حقیقت اور عقیدہ توحید کے سلسلہ میں ان کی کج فکری کا ذکر کیا اور صوفیت کے سلسلہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث کو بھی ذکر کیا۔ مذکورہ احادیث شریف سے واضح ہوتا ہے کہ یہ گروہ امت رسولؐ سے خارج ہے، راہ اہل بیت علیہم السلام کا مخالف ہے اور یہ لوگ آل محمد علیہم السلام کے دشمن ہیں، اس گروہ کی بنیاد مکر و فریب یا گمراہی یا جہل و حماقت پر ہے۔
مقدمہ مؤلف کے بعد حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید دلدار علی نقوی غفرانمآب رحمۃ اللہ علیہ نے تحفہ اثناء عشریہ کے بارہویں باب کے دس مقدمات کا یکے بعد دیگرے جواب تحریر فرمایا۔ وہ مقدمات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ عداوت اور مخالفت میں فرق
2۔ محبت و عداوت کا اجتماع
3۔ دنیا کے سبب عداوت ایمان میں خلل ایجاد نہیں کرتی۔
4۔ امیرالمومنین علیہ السلام سے جنگ کرنے والوں کو مومن سمجھنا۔
5۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تمام ازواج اور اصحاب سے محبت واجب ہے۔
6۔ اہل بیت علیہم السلام کی مخالفت ، ان سے جنگ اور ان کے حق کا غصب کفر کا سبب نہیں۔
7۔ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والے پر لعن و سبّ جائز نہیں ہے۔
8۔ امور دنیا کے سبب اصحاب کی آپسی رنجشیں ان کی تحقیر و توہین کا سبب نہیں ہے۔
9۔ اِلف و عادت مسلمات اور بدیہیات سے غفلت کا سبب ۔
10۔ خاص فضیلت کا فقدان عام فضیلت کے ساقط ہونے کا سبب نہیں ہے۔
مذکورہ تمام مقدمات کا حضرت غفرانمآب رحمۃ اللہ علیہ نے تفصیل سے جواب تحریر فرمایا اور آخر میں ‘‘لکل فرعون موسیٰ ’’ یعنی ہر فرعون کے لئے ایک موسیٰ ہوتا ہے، کو بیان کرتے ہوئے بدعت ، اس کی حقیقت اور اس کے اسباب و علل کا تذکرہ کیا اور آخر میں ایک روایت بیان کی کہ جس سے واضح ہوتا ہے کہ فریب شیطانی اور حوس دنیا بدعت کا ایک سبب ہے۔
محترم قارئین ! ضرورت ہے کہ حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید دلدار علی نقوی غفرانمآب رحمۃ اللہ علیہ جیسے عظیم و جلیل عالم و فقیہ کی تحریروں کا ترجمہ و شرح ہو ۔ کیوں کہ نہ اس مختصر تحریر میں ساری باتیں بیان کی جا سکتی ہیں اور نہ ہی اس حقیر و فقیر و ناچیز کی حیثیت ہے کہ ایسے عظیم الشان عالم کی تحریر پر کچھ لکھ سکے ۔ حسب حکم و تاکید چند جملے لکھ دئیے کہ نسل حاضر کم از کم اس عظیم اثر سے اجمالی طور پر ہی سہی واقف ہو سکے۔
بارگاہ رب العزت میں مجدد شریعت حضرت غفرانمآب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے علوئے درجات اور اپنی توفیقات میں اضافہ کی دعا کرتا ہوں۔
آپ کا تبصرہ