۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
أكاليل الورد تزين مرقد أبي الفضل العباس بذكرى ولادة العقيلة زينب (عليها السلام)

حوزہ/ واقعہ کربلا تمام ہو گیا لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا غم و اندوہ ختم نہ ہوا ، ہر لمحہ اپنے بھائی کی مظلومیت اور شہادت کو یاد کر کے گریہ فرماتی تھیں۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی |

انتخاب و ترجمہ : مولانا سید علی ہاشم عابدی

1۔ عظیم عالم اور راوی حدیث جناب یحییٰ مازنی کا بیان ہے۔ ایک عرصہ تک میں مدینہ منورہ میں امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے پڑوس میں رہا۔ میرا گھر اس گھر کے قریب تھا جہاں آپؑ کی بیٹی حضرت زینب سلام اللہ علیہا رہتی تھیں۔ لیکن کبھی بھی کسی نے نہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو دیکھا اور نہ ہی ان کی آواز سنی۔

آپؑ جب بھی اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کا ارادہ کرتی تو نصف شب میں اس طرح تشریف لے جاتی تھیں کہ امیرالمومنین علیہ السلام آگے ہوتے اور امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام آپؑ کے داہنے بائیں ہوتے تھے۔ جب قبر مبارک کے نزدیک پہنچتی تو امیرالمومنین علیہ السلام وہاں روشن چراغوں کو بجھا دیتے تھے۔

ایک دن امام حسین علیہ السلام نے اس کا سبب پوچھا تو امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘اخشي ان ينظر أحد الي اختك زينب’’ مجھے خوف ہے کہ کہیں کسی کی نظر تمہاری بہن زینب ؑ پر نہ پڑ جائے۔

(فاطمة الزهراء بهجة قلب المصطفي(ص)، الرحماني الهمداني ،صفحه :642)

2۔ منقول ہے کہ ایک دن امیرالمومنین علیہ السلام ایک مہمان کے ساتھ گھر تشریف لائے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے پوچھا کہ گھر میں مہمان کی میزبانی کے لئے کچھ ہے؟

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا: صرف ایک روٹی کا ٹکڑا ہے جو زینب ؑ کے لئے رکھا ہے۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا اس وقت بستر پر تھی اور بیدار تھیں ، آپؑ کی عمر مبارک اس وقت فقط چار سال تھی لیکن آپؑ نے فرمایا: مادر گرامی! روٹی مہمان کے سامنے پیش کر دیں۔

آپؑ کی سخاوت و بخشش اور فداکاری کمسنی ہی سے عیاں تھی۔ روز عاشورا آپؑ نے اپنے دو بیٹے کربلا میں قربان کئے۔

جناب عون اور جناب محمد علیہما السلام کی شہادت کے بعد جب امام حسین علیہ السلام ان کے جنازوں کو لے کر خیمہ میں آئے تو آپؑ خیمہ کے باہر نہیں آئیں لیکن جب شبیہ رسولؐ حضرت علی اکبر علیہ السلام کا جنازہ لائے تو آپؑ بے چین ہو کر خیمہ کے باہر تشریف لے آئیں ۔ جس سے واضح ہے کہ آپؑ امام حسین علیہ السلام کے فرزند کو اپنے بیٹوں سے زیادہ چاہتی تھیں ۔

(زندگانى حضرت زينب عليها السلام ص 26)

3۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: راہ شام کے تمام رنج و مصائب کے با وجود میری پھوپھی زینب سلام اللہ علیہا کی کبھی بھی نماز شب ترک نہیں ہوئی۔

(وفيات الأئمه ، ص 441)

4۔ معروف واعظ و مبلغ مرحوم حاجی محمد رضا سقا زادہ کا بیان ہے کہ ایک دن میں عظیم عالم، مقدس و مہذب مجتہد جناب ملا علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے شام میں واقع حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک کے سلسلہ میں سوال کیا تو انھوں نے بتایا:

ایک دن مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ آقا ضیا عراقی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے بیان فرمایا : سعودی عرب کے شیعہ نشین علاقہ قطیف سے ایک شیعہ مومن حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے ایران روانہ ہوا، راستے میں اس کا پیسہ گم ہو گیا۔

وہ کافی پریشان ہوا اور آخر حضرت بقیۃ اللہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے توسل کیا ۔ اسی وقت ایک نورانی سید ظاہر ہوئے اور انہوں نے کچھ رقم دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سے تم سامرہ پہنچ جاؤ گے۔

جب وہاں پہنچنا تو میرے وکیل میرزا محمد حسن شیرازی کے پاس جانا اور ان سے کہنا کہ سید مہدی نے کہا ہے کہ آپ میری طرف سے مجھے اتنی رقم دے دیں ، جس سے تم مشہد تک چلے جاؤ گے اور تمہاری مالی مشکل حل ہو جائے گی ۔ اگر میرزا محمد حسن شیرازی تم سے کوئی نشانی مانگے تو ان سے کہنا: اس سال موسم گرما میں آپ جناب ملا علی کنی طہرانی کے ساتھ شام میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک پر تھے۔ زائرین کی کثرت کے سبب روضہ مبارک کو نظافت کی ضرورت تھی تو آپ نے اپنے دوش سے عبا اتاری اور اس سے روضہ مبارک کی صفائی کی اور ملا علی کنی طہرانی نے کوڑا اٹھا کر باہر پھینکا ۔ اس وقت میں ان کے پاس ہی تھا ۔

قطیف کے زائر کا بیان ہے کہ جب میں سامرا پہنچا اور امامین عسکریین علیہماالسلام کی زیارت کے بعد آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازی کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اپنا مدعا بیان کیا۔ انھوں نے جیسے ہی یہ سنا فوراً مجھے گلے لگا لیا ، میری آنکھوں کو چوما، مجھے مبارکباد دی اور وہ رقم بھی عنائت فرمائی۔ اس کے بعد جب میں تہران پہنچا تو پورا ماجرا جناب ملا علی کنی طہرانی کی خدمت میں بھی بیان کیا تو انھوں نے تصدیق کی اور بہت متاثر پوئے اور فرمایا ائے کاش! تمہاری جگہ میں ہوتا۔

(داستان از فضایل، مصایب و کرامات حضرت زینب( س)، صفحه 174 و 175)

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے

الف۔ اہل بیت علیہم السلام کے روضہ ہائے مبارک پر امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف حاضر ہوتے ہیں اور زائرین کے اعمال پر ناظر ہوتے ہیں۔

ب۔ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی نظر کرم زائرین کے شامل حال ہوتی ہے۔

ج۔ اہلبیت علیہم السلام کی خدمت ہر ایک کے لئے سبب افتخار اور باعث شرف ہے چاہے عام انسان ہو یا عظیم عالم و فقیہ ہو۔

د۔ مراجع کرام امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے وکیل عام ہیں۔

5۔ واقعہ کربلا تمام ہو گیا لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا غم و اندوہ ختم نہ ہوا ، ہر لمحہ اپنے بھائی کی مظلومیت اور شہادت کو یاد کر کے گریہ فرماتی تھیں۔

ایک سال مدینہ میں قحط پڑا ، آپؑ کے شوہر جناب عبداللہ کا جود و کرم مشہور تھا۔ چونکہ اس وقت انکا ہاتھ خالی تھا لہذا جناب عبداللہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو لے کر شام چلے گئے۔ جہاں جناب عبداللہ زراعت میں مشغول ہو گئے۔

لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا حسب دستور ہر لمحہ ذکر کربلا اور عزاداری میں مصروف رہیں اور اسی عالم میں آپؑ بیمار پڑ گئیں اور روز بہ روز آپؑ کی طبیعت ناساز ہوتی چلی گئی۔

ایک دن آپ نے ظہر کے ہنگام اپنے شوہر سے فرمایا کہ میرا بستر صحن خانہ میں زیر آسمان بچھا دیں ۔

جناب عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے حسب فرمائش صحن خانہ میں زیر آسمان بستر لگا دیا اور انہیں وہاں پہنچا دیا کہ کیا دیکھا کہ کوئی چیز آپؑ اپنے سینہ سے لگائے ہیں اور زیر لب کچھ فرما رہی ہیں ۔ قریب گیا تو دیکھا کہ وہ کربلا کی یادگار امام حسین علیہ السلام کا خون بھرا کرتا ہے اور مسلسل آپ ؑ کی زبان سے حسینؑ حسینؑ حسین ؑ کی صدا جاری ہے۔ اسی عالم میں آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔

(عقیله بنی هاشم ص 57 و58)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .