تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزه نیوز ایجنسی| امام علی رضا علیہ السلام ہمارے آٹھویں امام ہیں۔ آپؑ کے والد ماجد باب الحوائج امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور والدہ ماجدہ حضرت نجمہ خاتون سلام اللہ علیہا تھیں۔ جناب نجمہ خاتون سلام اللہ علیہا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت حمیدہ خاتون سلام اللہ علیہا کی کنیز تھیں۔ شیخ صدوقؒ سے منقول روایت کے مطابق ایک دن جناب حمیدہ سلام اللہ علیہا نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا کہ حضورؐ نے آپؑ کو حکم دیا کہ ‘‘نجمہؑ کو امام موسیٰ کاظم ؑ کو بخش دو، کیونکہ جلد ہی اس سے دنیا کے افضل ترین مولود کی پیدائش ہوگی لہذا وہ انہیں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو بخش دیتی ہیں۔ اس وقت وہ دو شیزہ تھیں۔ دوسری روایت میں ہے کہ جب جناب حمیدہ سلام اللہ علیہا نے اپنی کنیز اپنے فرزند امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو بخشی تو فرمایا: میں نے اس سے زیادہ مرتبے کی حامل کسی کنیز کو نہیں دیکھا۔
خود جناب نجمہ خاتون سلام اللہ علیہا سے منقول ہے کہ امام رضاؑ سے حمل کے دوران سنگینی کا احساس نہیں کرتی تھیں۔ اور خواب میں حمل سے تسبیح وتہلیل کی آوازیں سنتی تھی لیکن جب بیدار ہوتی تو آواز نہیں آتی تھی۔
امام علی رضا علیہ السلام کا نام ‘‘علی’’ کنیت ‘‘ابوالحسن’’ اور القاب سراج اللہ، نورالہدیٰ، قرۃ عین المومنین ، مکیدۃ الملحدین، کافی الخلق، الرضی، الرضا، المرتضیٰ، رب السریر، رب التدبیر، الفاضل، الصابر، الوفی، الصدیق، صابر، زکی، ولی، سلطان عرب و عجم، غریب الغرباء، امام رؤوف، عالم آل محمد وغیرہ ہیں لیکن آپؑ کا سب سے مشہور لقب رضا ہے۔ یہ لقب اللہ نے آپؑ کو عطا کیاتھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسی لقب سے آپؑ کو یاد کیا۔
امام علی رضا علیہ السلام کی زوجہ جناب سبیکہ سلام اللہ علیہا جیسی پاکدامن بی بی تھیں جن سے ایک بیٹا ہوا ، اور اسی فرزند یعنی جواد الائمہ امام محمد تقی علیہ السلام سے سلسلہ امامت آگے بڑھا ،امام محمد تقی علیہ السلام سے نہ صرف سلسلہ امامت آگے بڑھا بلکہ امام علی رضا علیہ السلام کی نسل بھی پھیلی۔ ایک دوسری روایت کے مطابق ولایت عہدی کے موقع پر عباسی حاکم مامون نے اپنی بیٹی ام حبیبہ کی شادی امام علی رضا علیہ السلام سے کی ، لیکن ام حبیبہ سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
امام محمد تقی علیہ السلام امام علی رضا علیہ السلام کے اکلوتے فرزند تھے، چونکہ نہ صرف امام محمد تقی علیہ السلام بلکہ امام علی نقی علیہ السلام حتّیٰ امام حسن عسکری علیہ السلام کو بھی ‘‘ابن الرضا’’ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ لہذا امام علی رضا علیہ السلام کی اولاد کے عنوان سے جو مختلف نام اور قبریں مشاہدے میں آتی ہیں تو ممکن ہے کہ وہ آپ کی نسل کے بزرگان ہوں کہ بیچ کے نام حذف ہو گئے ہوں یا کوئی اور بزرگ ہوں ۔
امام علی رضا علیہ السلام اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے منتخب امام اور اسکی حجت تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہ اماموں کے اسماء گرامی بیان فرمایا تو آپؑ کا بھی نام اور لقب صراحت سے بیان کیا۔ اسی طرح آپ سے پہلے کے ائمہ معصومین علیہم السلام جیسے باقر العلوم امام محمد باقر علیہ السلام نے آپؑ کا بعنوان امام ذکر فرمایا تھا ، خود امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے بھی مختلف مواقع پر آپؑ کی امامت کی صراحت فرمائی تھی۔ لیکن افسوس صد افسوس امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے بعض دنیا طلب وکیلوں نے ہوائے نفس کے اسیر ہو کر آپؑ کی امامت کا انکار کیا اور فرقہ واقفیہ کی بنیاد رکھی ۔ جیسا کہ اس سے پہلے بھی یہ کام ہو چکا تھا کہ جب لوگوں نے خلیفہ سوم کے قتل کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام کی بعنوان خلیفہ و حاکم بیعت کی تو حاکم شام نے بیعت نہیں کی کیوں کہ اگر وہ بیعت کر لیتا تو شام کی حکومت امیرالمومنین علیہ السلام کے حوالے کرنی پڑتی لہذا اس نے بیعت نہیں کی تا کہ شام میں اس کا اقتدار باقی رہے، اسی طرح فرقہ واقفیہ کے سربراہوں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت کا انکار کیا کیوں کہ اگر وہ شہادت کو مان لیتے تو جو شرعی رقوم ان کے پاس تھی وہ امام علی رضا علیہ السلام کو دینی پڑتی لہذا انھوں نے شہادت سے ہی انکار کر دیا ، جب کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت آفتاب نصف النھار کی طرح واضح تھی کہ برسوں کی قید با مشقت کے بعد آپؑ کو زہر دغا سے شہید کیا گیا اور آپؑ کے جنازے کو بغداد کے پُل پر رکھا گیا تھا تا کہ لوگوں کو بتایا جا سکے کہ کسی نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو شہید نہیں کیا ہے بلکہ آپؑ نے اپنی طبیعی موت کے سبب دنیا سے کوچ کیا ہے۔ اگرچہ جس سال امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت ہوئی، اسی سال آپؑ نے اپنی شہادت سے قبل محمد بن سنان سے فرمایا تھا : اس سال ایک حادثہ رونما ہو گا تم ہرگز اس سے غمگین نہ ہونا ۔ پھر امامؑ نے فرمایا: جو بھی میرے بیٹے پر ستم کرے گا اور میرے بعد اس کی امامت کا انکار کرے گا تو گویا اس نے امیرالمومنین علیہ السلام پر ظلم کیا اور آپؑ کی بلا فصل خلافت کا انکار کیا ۔
امام علی رضا علیہ السلام کی معنوی اور روحانی شخصیت کے سلسلہ میں روایات میں بیان ہوا ہے کہ آپؑ کثرت سے نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے تھے، اول وقت نماز پڑھتے تھے، کثرت سے ذکر خدا فرماتے تھے، طولانی سجدے فرماتے تھے، تین دن میں ایک قرآن ختم فرماتے تھے۔
امام علی رضا علیہ السلام کی عظیم اخلاقی شخصیت کو سمجھنے کے لئے یہی کافی ہے کہ جو بھی آپؑ کو دیکھتا اسے خُلقِ عظیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اخلاق یاد آ جاتا ۔ جیسا کہ بزرگ عرب شعراء نے اس مطلب کو نظم بھی فرمایا ہے۔ روایات کے مطابق آپؑ کثرت سے نیک کام کرتے تھے، فقراء و مساکین کی لوگوں کی نظروں سے چھپ کر مدد کرتے تھے، غلاموں کو اپنے ساتھ دسترخوان پر بٹھاتے تھے، اگر کوئی غلام کھانا کھا رہا ہوتا تو اس کو اس وقت تک کوئی کام نہیں بتاتے جب تک کہ وہ سیر ہو کر خود دستر خوان سے نہ اٹھ جائے، معمولی چٹائی پر بیٹھے، کبھی اپنی کسی بات سے کسی کو رنجیدہ نہیں کرتے تھے، کسی حاجت مند کو اپنے دروازے سے خالی ہاتھ واپس نہیں بھیجتے تھے، نہ لوگوں کے سامنے پیر پھیلاتے اور نہ ہی کبھی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھتے، کسی کے سامنے تھوکتے نہیں تھے، مہمان کا اکرام کرتے ، اگر مہمان یا غلام کھانا کھا رہے ہوتے تو انہیں اپنے احترام میں کھڑے ہونے سے منع فرماتے، کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھوتے ، مومنین اور چاہنے والوں کی آبرو کی حفاظت فرماتے، جب ہنستے تو صرف مسکراتے قہقہہ نہیں لگاتے ، اسراف کے شدید مخالف تھے، ریاکاری اور دکھاوے سے بیزار تھے۔
عالم آل محمد امام علی رضا علیہ السلام عالم علم لدنی تھے ، خلق خدا پر اسکی حجت تھے لہذا ہر زبان سے واقف تھے، مخالف ہو یا موافق سب ہی کو آپؑ کی علمی جلالت کا اعتراف تھا، جس نے بھی مناظرہ کیا شکست اس کا مقدر بنی۔
ہارون کے بعد اس کا بیٹا امین خلیفہ ہوا ، امین و مامون میں جنگ ہوئی امین مارا گیا، مامون بر سر اقتدار ہوا ، چونکہ امین عباسی خاتون زبیدہ کا بیٹا تھا جب کہ مامون ایک ایرانی بد صورت کنیز مراجل کی بد سیرت اولاد تھا ، اس لئے سارے عباسی امین کے قتل کے سبب مامون کے مخالف ہو گئے دوسری جانب علویوں کا قیام مسلسل مامون کی حکومت کے لئے خطرہ بن گیا تھا ، لہذا ہارون کی شطرنجی اولاد نے شطرنجی فریبی سازشیں شروع کی، علویوں کے قیام کو دبانے کے لئے اس نے امام علی رضا علیہ السلام کو مدینہ سے خراسان بلایا، پہلے حکومت کی پیش کش کی تو امام علی رضا علیہ السلام نے یہ کہتے ہوئے اس کی درخواست رد کر دی کہ اگر یہ لباس خلافت تجھے اللہ نے پہنایا ہے تو تو اسے دوسرے کو کیسے پہنا سکتا ہے اور اگر تم نے زبردستی پہن لیا ہے تو جو چیز خود تمہاری نہیں ہے وہ تم دوسرے کو کیسے دے سکتے ہو۔ مامون نے ولایت عہدی کی پیش کش کی تو امام ؑ نے اسے بھی قبول کرنے سے انکار کیا ۔ لیکن جب اس نے ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا تو آپؑ نے اس شرط پر ولایت عہدی قبول فرمائی کہ حکومت کے کسی مسئلہ میں، کسی کے منصوب یا معزول کرنے میں دخالت نہیں کریں گے۔ ظاہر ہے یہ ایسی شرط تھی جس کے بعد عہدہ کا ہونا یا نہ ہونا دونوں ہی برابر تھا۔
شطرنجی مامون نے امام علی رضا علیہ السلام کے مدینہ سے مرو تک کے سفر میں انتہائے چالاکی سے کام لیا تا کہ امامؑ کے فضائل و مناقب کو دبایا جا سکے لیکن نور خدا حجت کبریاء امام رضا علیہ السلام جدھر سے بھی گذرے رہتی دنیا تک کے لئے نقوش چھوڑ دئیے ، اہواز میں مسجد کی تعمیر، اصفھان کے قریب پہنچے تو اپنی سواری کے ساربان کے اصرار پر "محبت و دوستی میں معیار محبت آل محمدؑ کو بناو" تحریر پیش کی اور جب نیشابور پہنچے تو ایسی تقریر کی جو حدیث سلسلۃ الذہب کے نام سے مشہور ہوئی۔ مرو پہنچے تو ہر علمی مناظرے میں مقابل نے آپؑ کی علمی جلالت کا کلمہ پڑھا، قحط کے وقت نماز استسقاء کا اہتمام، دسترخوان پر مامون کے حکم پر اس کے جادوگر نے توہین کرنی چاہی تو فخر موسیٰ امام رضا ؑ کے حکم پر شیر قالین نے جادوی اسباب نہیں بلکہ خود جادوگر کو ہی نگل لیا، مامون نے نماز عید پر اسرار کیا تو جانشین رسول ؐ رسول اللہ کی طرح ایسا نکلے کہ مامون شرمندہ ہوا اور اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہوئے نماز سے روک دیا۔ المختصر مامون کی ساری سازشیں ناکام ہو گئی ۔ آخر اس نے آپ ؑ کو زہر دے کر شہید کر دیا۔ مشہد مقدس میں آپ ؑ کا روضہ عاشقان اہل بیتؑ کی نہ صرف زیارت گاہ بلکہ پناہ گاہ بھی ہے کہ جو بھی پریشان حال جاتا ہے مسبب الاسباب اسکی پریشانی دور کر دیتا ہے، جو گناہگار جاتا ہے غفور و رحیم اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے۔
خدا ہمیں امامؑ کی معرفت عطا فرمائے۔