تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | باب الحوائج امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی عباسی حاکم ہارون رشید کے طویل مدت اذیت ناک قید خانہ میں مظلومانہ شہادت نے اس کی حکومت کی بنیاد ایسی ہلائی کہ امام علی رضا علیہ السلام نے بلاخوف اپنی امامت کا عام اعلان کیا یعنی جس طرح امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کے بعد یزید پلید نے امام زین العابدین علیہ السلام اور اہل حرم کی رہائی اور مدینہ واپسی میں ہی عافیت سمجھی اور مدینہ پر حملے ( واقعہ حرّہ ) کے وقت خصوصی حکم دیا کہ کوئی فوجی امام سجاد علیہ السلام کو اذیت نہ پہنچائے ۔ اسی طرح ہارون ملعون بھی امام علی رضا علیہ السلام سے کوئی واسطہ نہ رکھنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھا ۔
آخر ہارون واصل جہنم ہوا اور اس کا بیٹا امین بر سر اقتدار ہوا ، امین و مامون میں جنگ ہوئی ، امین مارا گیا اور مامون پوری اسلامی مملکت کا حاکم ہوا، مامون اپنے باپ ہارون کی طرح یزیدی سفاکانہ روش کے خلاف تھا بلکہ وہ یزید کے باپ کی راہ مکر کا راہی تھا۔ مامون نے علویوں کے قیام کو روکنے اور دیگر مقاصد کے سبب امام علی رضا علیہ السلام کو مدینہ سے مرو بلایا۔ اس ملعون کی یہی دعوت امام علی رضا علیہ السلام کے مصائب کا آغاز ہے۔
راوی کا بیان ہے جس وقت حکومت کے کارندے امام علی رضا علیہ السلام کو خراسان لے جانے کے لئے مدینہ آئے تو اس وقت میں مدینہ میں موجود تھا ، میں نے دیکھا کہ آپ اپنے جد کی قبر سے رخصت ہونے کے لئے متعدد بار قبر رسول ؐ کے قریب آئے اور پھر رخصت ہوئے اور اس عالم میں با آواز بلند گریہ فرما رہے تھے۔
میں آپؑ کی خدمت میں پہونچا سلام کیا امامؑ نے جواب سلام دیا ۔ سفر کی مبارکباد دینی چاہی تو آپؑ نے فرمایا کہ میں اب واپس مدینہ نہیں آؤں گا۔ میری موت عالم غربت میں ہوگی اور ہارون کے قریب دفن ہوں گا۔
قبر رسولؐ سے رخصت ہو کر بیت الشرف میں تشریف لائے تو اپنے اعزاء و اقارب کو جمع کیا اور فرمایا: مجھ پر گریہ کرو کیوں کہ میں واپس مدینہ نہیں آؤں گا۔
مامون نے سفر میں ایسے راستے کا انتخاب کیا جہاں شیعہ نہ رہتے ہوں جیسے کوفہ و قم کے بجائے ، بصرہ اور بصرہ سے اہواز کا راستہ معین کیا تا کہ راستہ میں کوئی شیعہ نہ ملے۔
جب امام علی رضا علیہ السلام مرو پہنچے تو اس نے پہلے حکومت کی پیش کش کی جسے آپؑ نے ٹھکرا دیا تو اس نے ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا اور امام نے حکومتی مسائل عزل و نصب میں عدم دخالت کی شرط پر ولایت عہدی قبول فرمائی ۔ اگرچہ اس مقام پر جہاں امام ؑ کی فضلیت و حکمت عیاں ہوئی وہیں آپؑ کی مظلومیت بھی ظاہر ہوئی کہ جسے اللہ نے زمین کا وارث اور کائنات کا حاکم بنایا ہو، اسے ایک گناہگار، بد کردار غاصب حکومت کی پیش کش کرے اور اپنی ولایت عہدی پر مجبور کرے۔
مامون نے مختلف ادیان و مذاہب کے علماء سے علمی مناظرے کرائے، جسمیں آپؑ نے مقابل کو شکست قبول کرنے پر مجبور کیا ۔ عید کے موقع پر مامون نے آپؑ کو نماز عید کی امامت کی دعوت دی۔ پہلے تو آپؑ نے منع کیا لیکن جب اس نے اصرار کیا تو آپؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے انداز میں نماز کے لئے نکلے ، لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو آپؑ کے ہمراہ ہو گیا ۔ پوری فضا تکبیر کی صداؤں سے گونج رہی تھی ۔
جب مامون کے وزیر فضل بن سہل نے بدلتے حالات دیکھے تو احتمالی نتائج سے مامون کو آگاہ کیا ، اس ملعون نے عین وقت پر آپؑ کو نماز عید کی امامت سے روک دیا ۔ آپؑ بغیر نماز پڑھے بیت الشرف واپس آ گئے اور بارگاہ الہی میں دست بدعا ہوئے ‘‘اللھم ان کان فرجی بالموت فعجل لی الساعۃ’’ خدایا! اگر موت کے ذریعہ موجودہ حالات سے مجھے نجات مل سکتی ہے تو میری موت میں جلدی کر۔ امام غریبؑ کی اس دعا سے آپؑ کے کرب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معصومین علیہم السلام کی تاریخ میں یا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے یہ دعا کی تھی یا امام علی رضا علیہ السلام نے یہ دعا کی ، بس فرق اتنا ہے بی بی ؑ نے مدینہ میں یہ دعا کی تھی اور امام علی رضا علیہ السلام نے عالم غربت میں یہ دعا کی۔
عیون اخبار الرضا (جلد 2، صفحہ 183) میں امام علی رضا علیہ السلام کے خادم جناب ابا صلت ہروی سے روایت ہے کہ مامون نے سرخس میں امام علی رضا علیہ السلام کو قید کیا تھا جب میں غریب الغرباء سے ملنے قید خانہ پہنچا تو داروغہ زندان نے بہت مشکل سے ملاقات کی اجازت دی، اجازت ملنے کے بعد جب میں آپؑ کی خدمت میں پہنچا تو کیا دیکھا کہ آپؑ کے ہاتھوں اور پیروں میں زنجیر پڑی تھی اور آپؑ اس عالم میں بھی مصلیٰ عبادت پر تھے۔
آخر وہ وقت آ ہی گیا جس کا امام علی رضا علیہ السلام نے متعدد بار تذکرہ فرمایا تھا ۔ خصوصاً جب شاعر اہل بیت دعبل خزائی نے آپؑ کے حضور اہل بیت علیہ السلام کی مصیبت میں مرثیہ پڑھا تو آپؑ نے فرمایا کہ ائے دعبل! میں چاہتا ہوں تمہارے اس کلام میں دو شعر کا اضافہ کر دوں تا کہ تمہارا کلام مکمل ہو جائے ، دعبل نے عرض کیا : مولا! فرمائیے تو امامؑ نے فرمایا:
و قبر بطوس یالها من مصیبه
الحت علی الاحشاء بالزفرات
الی الحشر حتی یبعثالله قائماً
یفرج عنا الغم و الكربات
اور طوس میں ایک قبر ہے جس پر اتنی مصیبتیں پڑی کہ غم میں سانس لینے میں آنتیں متاثر ہو گئیں۔ یہ مصیبت کا سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ خدا ہمارے قائم کو بھیجے گا جو ہمارے غم و الم کو دور کرے گا۔
دعبل نے پوچھا مولا! طوس میں کس کی قبر ہے ، امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: طوس میں میری قبر بنے گی۔
طوس میں ایک دن امام علی رضا علیہ السلام نے اپنے خادم ابا صلت سے فرمایا: کل میں اس بدکردار (مامون ) کے پاس جاؤں گا ، اگر میں سر برہنہ رہوں تو مجھ سے بات کرنا ، میں تمہاری بات کا جواب دوں گا اور اگر سر ڈھانک کر آؤں تو مجھ سے بات نہ کرنا ۔
اباصلت کا بیان ہے : دوسرا دن آیا جب آپؑ نے باہر جانے کا لباس زیب تن کیا اور محراب عبادت میں تشریف فرما ہوگئے ، آپؑ انتظار کر رہے تھے کہ اچانک مامون کا غلام آیا اور امام ؑسے کہنے لگا : حاکم نے آپ ؑ کو بلایا ہے ابھی تشریف لے چلئے ،امام ؑنے دوش پر عبا ڈالی ، نعلین پہنی اور مامون کے محل میں تشریف لے گئے ، میں آپؑ کے بعد ہی وہاں پہنچ گیا، امامؑ مامون کے پاس پہنچے ، میں نے دیکھا کچھ انگور اور دوسرے پھل مامون کے سامنے رکھے ہیں ، مامون کے ہاتھ میں ایک خوشۂ انگور تھا جس میں سے تھوڑا سا اس نے کھا لیا تھا اور تھوڑا باقی تھا ۔ جس وقت مامون نے امام ؑکو دیکھا تو تعظیم میں کھڑا ہوا اور بڑے احترام کے ساتھ آپؑ سے گلے ملا، امامؑ کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیکر اپنے پہلو میں بٹھا لیا، پھر وہی خوشہ جو اس کے ہاتھ میں تھا امام کی طرف بڑھا کر کہا :
فرزند رسول ؐ! اس سے بہتر انگور اب تک میں نے نہیں کھائے ،اسے تناول فرمائیے ۔
امامؑ نے فرمایا : جنت کے انگور اس سے بہتر ہیں ۔
مامون نے کہا : آپ ؑکو اسے کھانا ہی ہو گا ،ہو سکتا ہے کہ آپؑ اسے نہیں کھائیں اور میرے اوپر اتہام رکھیں حالانکہ میں آپ ؑسے بہت خلوص رکھتا ہوں ۔
مامون نے اس خوشۂ انگور کو امامؑ کے ہاتھ سے لیکر ان دانوں کو جنہیں وہ پہچانتا تھا کہ جس میں زہر نہیں ہے کھا لیا ، دوبارہ آپؑ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا :اسے کھایئے ۔
امامؑ نے اس میں سے تین دانے تناول فرمائے ،تھوڑی دیر بعد واپس جانے کے لئے اٹھ گئے ۔
مامون نے پوچھا : کہاں جا رہے ہیں ؟
امام ؑنے فرمایا : ‘ الیٰ حیث وجّھتنی ‘ ( جہاں تو مجھے بھیج رہا ہے)
امامؑ اپنے سر پرعبا ڈالے ہوئے باہر تشریف لائے میں نے آپؑ کے حکم کے مطابق بات نہیں کی، یہاں تک کہ آپؑ گھر میں تشریف لے گئے بعض علماء کا بیان ہے کہ مامون کے محل سے امامؑ کی قیام گاہ قریب تھی لیکن زہر میں اتنی شدت تھی کہ آپؑ چند قدم چلتے اور زمین پر بیٹھ جاتے، پھر اٹھتے چند قدم چلتے اور زمین پر بیٹھ جاتے اور اسی عالم میں بیت الشرف پہنچے۔ بیت الشرف پہنچے تو فرمایا: دروازہ بند کر دو ، حسب حکم دروازہ بند کر دیا گیا ، اس کے بعد آپ بستر پر لیٹ گئے اور میں گھر کے صحن میں غمگین و اداس بیٹھ گیا ۔ اتنے میں ایک خوبصورت جوان جس کے بال گھونگھریلے تھے ، دیکھا ۔ جو امام علی رضا ؑسے بہت زیادہ مشابہ تھا ، میں ان کی طرف بڑھا اور کہا : دروازہ بند ہے کہاں جارہے ہیں ؟
فرمایا : جس خدا نے مجھے مدینے سے یہاں پہنچایا ہے وہ مجھے دروازہ بند ہونے کے باوجود حجرہ میں پہونچا دے گا۔
میں نے پوچھا : آپ کون ہیں ؟
فرمایا :’ انا حجّة اللّہ علیک یا ابا صلت ٍ’ ( اباصلت ! میں تم پر حجت خدا ہوں ) میں محمدؑ بن علی ؑ (امام محمد تقی علیہ السلام ) ہوں ۔ پھر آپ ؑ اپنے والد ماجد کے پاس گئے ۔حجرے میں داخل ہوئے تو مجھ سے فرمایا :تم بھی آجاؤ ۔
جس وقت امام رضا علیہ السلام نے انہیں دیکھا اپنے سینے سے لگا لیا اور دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیکر اپنے پہلو میں جگہ دی ۔
امام محمد تقی علیہ السلام ( کہ جنکی عمر اس وقت سات یا آٹھ برس تھی ) نے خود کو پدر بزگوار پر گرا دیا اور بوسہ دینے لگے ۔ اسی درمیان امام رضا علیہ السلام نے آپؑ کو اسرار امامت تفویض کئے اور کچھ ایسی باتیں بتائیں جنہیں میں نہ سمجھ سکا اور اسی عالم میں امام علی رضا علیہ السلام دنیا سے گذر گئے ۔
ابا صلت کا بیان ہے : امام جواد علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا : اٹھو اور اس حجرے سے پانی اور تخت لے آؤ ۔
میں نے عرض کی : وہاں پانی اور تخت نہیں ہے، فرمایا : میں جو کہہ رہا ہوں کرو ۔
میں حجرے کے اندر گیا تو پانی اور تخت دیکھا اسے لیکر آپ ؑ کی خدمت میں حاضر کیا۔
امام محمد تقی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا : تم یہاں سے جاؤ ، کچھ لوگ غسل میں میری مدد کریں گے ۔ آپ ؑ نے غسل دیکر مجھ سے فرمایا: جاؤ اس حجرے سے کفن اور حنوط لے آؤ ، وہاں پہونچا تو ایک کپڑے میں کفن اور حنوط رکھا ہوا تھا لا کر امام ؑ کی خدمت میں پیش کیا ۔ امام ؑ نے حنوط کیا اور کفن پہنایا ۔ پھر آپ ؑنے نماز جنازہ پڑھی اور فرمایا : تابوت لے آؤ ۔
میں نے عرض کیا : باہر سےلانا پڑے گا ۔
فرمایا : حجرےکے اندر سے لے آؤ ۔
میں گیا تو دیکھا کہ تابوت رکھا ہوا ہے ۔ جبکہ اس سے پہلے وہاں کوئی تابوت کبھی نہیں دیکھا تھا ، امام ؑنے اس تابوت میں جنازہ رکھ دیا ۔
اسی وقت مامون اپنے غلاموں کے ساتھ وہاں آگیا ۔ وہ لوگ ظاہراً رو رہے تھے اور اظہار افسوس کر رہے تھے۔
مامون نے عام سوگ کا اعلان کیا اور جہاں اس کے باپ ہارون کی قبر ہے وہیں نزدیک میں امام علی رضا علیہ السلام کو دفن کیا گیا۔ جہاں آج روضہ مبارک ہے۔
محلہ نوقان کی با ایمان خواتین کو جب پتہ چلا کہ فرزند رسولؐ کی عالم غربت میں شہادت ہو گئی ہے تو وہ زیارت اور عرض احترام کے لئے ہاتھوں میں پھول لے کر امام علی رضا علیہ السلام کی قبر مبارک پر حاضر ہوئیں ، قبر مبارک پر پھول چڑھائے اور عزاداری کی۔