حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تاراگڑھ اجمیر میں امام بارگاہ آل ابو طالب علیہ السّلام میں ٢٥ رجب المرجب شہادت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی مناسبت سے "اسیر بغداد کا ماتم" کے عنوان سے مجلس عزاء منعقد ہوئی، اس مجلس عزاء کو امام جمعہ تاراگڑھ مولانا سید نقی مھدی زیدی نے خطاب کیا جس میں مؤمنین و مؤمنات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
مولانا سید نقی مھدی زیدی نے مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا نام موسیٰؑ، کنیت ابوابراہیم، ابوالحسن اول اور ابو علی تھی اور آپؑ کے القاب کاظم (غصہ کو پی جانے والا)، عبد صالح اور باب الحوائج زیادہ مشہور ہیں ۔ اہل مدینہ آپؑ کو زین المجتہدین کے لقب سے یاد کرتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ: آپؑ کی اخلاقی سیرت آپؑ کے مشہور لقب ‘‘کاظم’’ یعنی غصہ کو پی جانے والا، سے ہی واضح ہے، آپ کا لطف و کرم مخالفین کے بھی شامل حال رہتا تھا، خلیفہ دوم کی نسل کا ایک شخص جو اکثر آپؑ کی برائی کرتا تھا آپؑ نے اس پر احسان کیا ۔ رات کی تاریکی میں فقراء و مساکین کی امداد فرماتے۔ بشر حافی جو پہلے لہو و لعب اور غنا میں تباہ تھے جب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے خود انکی کنیز کے ذریعہ انکی ہدایت کی تو وہ توبہ کر کے عابد و زاہد بن گئے۔ لیکن افسوس دور حاضر میں کچھ نام نہاد مدّاح جو اسیر دنیا ہیں اور ان کا مقصد صرف دنیا ہے وہ میوزک پر نوحے اور منقبتیں گا رہے ہیں ۔ میرا ان تمام اسیرانِ دنیا سے چاہے وہ ہمارے ملک کے ہوں یا پڑوسی ملک سے ، سوال ہے کیا تمہیں مدح اہلبیت اطہار علیہم السلام کے سبب عزت، دولت ، شہرت نہیں ملی ، تمہیں حلال سے کیا نہیں ملا جو تم حرام میں پڑ گئے۔
مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا کہ: امام موسٰی کاظم علیہ السلام نے اپنے صحابی صفوان بن جمال، جس نے اپنے اونٹ ہارون رشید کو کرائے پر دے رکھے تھے، سے فرمایا: تمہارے سب کام اچھے ہیں، سوائے اس ایک کام کے یعنی تم نے اپنے اونٹ ہارون رشید کو کرائے پر کیوں دیئے ہیں؟ اس نے عرض کی کہ میں نے اسے حج کا سفر ادا کرنے کیلئے اپنے اونٹ کرائے پر دیئے ہیں جو اطاعت الہی کا سفر ہے، اور میں نے یہ اونٹ اسے مفت بھی نہیں دیئے بلکہ اس سے کرایہ لوں گا، اس میں کیا حرج ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم نہیں چاہتے کہ ہارون رشید زندہ واپس آئے اور تمہارے اونٹوں کا کرایہ ادا کرے؟ صفوان بن جمال نے کہا جی، کیوں نہیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: تم جو اسی حد تک ظالم کے زندہ اور باقی رہنے پر راضی ہو تو گناہ کے مرتکب ہوئے ہو۔ لہذا صفوان بن جمال نے فوراً اپنے اونٹ بیچ ڈالے۔ جس پر ہارون رشید کو شک ہوا اور صفوان سے پوچھا کہ تم نے اونٹ کیوں بیچے ہیں؟ صفوان نے جواب دیا: میں اب بوڑھا ہوچکا ہوں اور اب اونٹ نہیں سنبھال سکتا۔ ہارون رشید نے کہا: مجھے معلوم ہے کہ موسٰی ابن جعفر علیہ السلام نے تمہیں اس کام سے منع کیا ہے اور کہا ہے کہ مجھے اونٹ کرائے پر دینا غیر شرعی کام ہے۔ خدا کی قسم اگر سالوں سال تمہاری خدمت نہ ہوتی تو ابھی حکم دیتا کہ تمہاری گردن اڑا دی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ: یہاں اس اہم نکتے کی جانب توجہ کرنا بھی ضروری ہے۔ کہ ائمہ معصومین علیھم السلام اپنے بہت سے اصحاب اور پیروکاروں کو حکومت میں شامل ہونے کا حکم دیتے تھے، جن کے اندر کافی حد تک سیاسی بصیرت اور سمجھ بوجھ پائی جاتی تھی۔ اس کا مقصد حکومت میں رہ کر ظلم و ستم کو روکنا اور فساد کو کم کرکے اسلامی معاشرے کی خدمت کرنا تھا۔ اس کا واضح نمونہ علی ابن یقطین کی صورت میں قابل مشاہدہ ہے۔ علی ابن یقطین تقویٰ، علم اور سیاست کے اعتبار سے بہت اونچے مرتبے پر فائز تھے۔ انہیں امام علیہ السلام نے حکم دیا کہ وہ ہارون رشید کی حکومت میں وزیر کے عہدے پر کام کریں اور تقیہ اختیار کرتے ہوئے اپنے شیعہ تشخص کو چھپائے رکھیں۔ ان کے ذمے پیروکاران اہلبیت علیھم السلام کی جان اور مال کی حفاظت کرنا تھا۔
مولانا نقی مھدی زیدی نے مزید کہا کہ: عباسی حاکم نے آپ کو تقریباً چودہ برس سخت ترین قید میں رکھا اور یہ اسیری آپ کی شہادت ٢٥ رجب سن ١٨٣ ہجری پر تمام ہوئی۔
آخر میں مولانا نقی مھدی زیدی نے امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے دردناک مصائب کا تذکرہ کیا جس میں مومنین و مومنات نے گریہ کیا آخر میں شبیہ تابوت برآمد ہوکر جلوس کی شکل میں نوحہ خوانی و سینہ زنی کے ساتھ کربلا میں اختتام پزیر ہوا۔
آپ کا تبصرہ