تحریر: آغا سید عبدالحسین بڈگامی "آغا سعحب"
حوزہ نیوز ایجنسی। رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتویں وصی امام المومنین وارث المرسلین و حجت رب العالمین اور شیعوں کے ساتویں امام حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام نے خلیفہ بنی عباس ہارون الرشید کے دور میں زندگی گزاری۔ ہارون الرشید ایسا شخص تھا جو کسی پر بھی رحم نہیں کرتا تھا اور جس شخص کو بھی اپنے سیاسی مستقبل کیلئے خطرہ تصور کرتا تھا، چاہے وہ اس کا نزدیک ترین اور مخلص ترین ساتھی ہی کیوں نہ ہو، بے دریغ قتل کروا دیتا تھا۔ اس کی واضح مثال ابومسلم خراسانی کی صورت میں قابل مشاہدہ ہے۔ لہذا ایسے شخص کی جانب سے علوی افراد خاص طور پر امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے ساتھ روا رکھا گیا سلوک واضح طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ ہارون رشید کے زمانے میں آل علی علیہ السلام کے خلاف دباو، خوف اور وحشت کی فضا اس قدر شدید تھی کہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام اور آپ کے ساتھی تقیہ اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ امام موسٰی کاظم علیہ السلام نے ایسی شدید اور گھٹی ہوئی فضا میں اپنے پیروکاروں کو ایک منظم قوم کے طور پر متحد رکھنے کی بھاری ذمہ داری کندھوں پر اٹھائی۔ بنی عباس حکومت آپ علیہ السلام کے وجود مبارک کو اپنے لئے عظیم خطرہ تصور کرتی تھی، کیونکہ آپ علیہ السلام کی وجہ سے شیعیان اہلبیت علیھم السلام کو ایک مرکز اور محور میسر ہوچکا تھا، جس کے گرد وہ متحد اور منظم رہتے تھے۔
ہارون الرشید حکومت کے نشے میں مست تھا اور اپنی حکومت کو ایک سلطنت کے طور پر دیکھتا تھا۔ وہ اکثر سورج کو مخاطب قرار دے کر کہا کرتا تھا کہ اے سورج، چمکتا رہ، تو جہاں بھی چمکے گا وہاں میری حکومت کا حصہ ہوگا۔ ہارون رشید حکومت مخالف تحریکوں کو کچل دینے کے باوجود امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے وجود مبارک سے شدید خوفزدہ تھا اور انہیں اپنی حکومت کی راہ میں بڑی رکاوٹ اور بڑا خطرہ تصور کیا کرتا تھا۔ ہارون الرشید کے اس خوف کی دو بڑی وجوہات تھیں:
۱)۔ وہ خود کو امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی عظیم شخصیت کے مقابلے میں انتہائی پست اور حقیر تصور کرتا تھا
۲)۔اسے بخوبی علم تھا کہ امام موسی کاظم علیہ السلام خود کو امامت کے مستحق اور لائق سمجھتے ہیں اور ان علیہ السلام کے پیروکار بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں اور یہ کہ امام علیہ السلام کا اپنے پیروکاروں کے ساتھ بہت مضبوط رابطہ استوار ہے۔
ہارون رشید پہلے مسئلے کے حل کیلئے خود کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب ظاہر کرکے اس کمی کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا اور لوگوں کی نظر میں عزت مند بننے کی کوشش کرتا تھا، تاکہ اس طرح اپنی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط بناسکے۔ لیکن امام موسٰی کاظم علیہ السلام ہمیشہ حقیقت کو برملا کرکے اس کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیتے تھے۔ مشہور تھا کہ ہارون رشید ایک سال جنگ کیلئے جاتا ہے اور ایک سال حج کیلئے جاتا ہے۔ 197 ہجری کی بات ہے جب ہارون رشید حج کیلئے جا رہا تھا، وہ اپنے اس سفر کے دوران ایک سیاسی مقصد بھی حاصل کرنا چاہتا تھا اور مسلمانوں سے اپنے بیٹے کے ہاتھ پر بیعت لے کر اسے اپنا جانشین اور ولی عہد مقرر کرنے کا خواہش مند تھا۔ اسے اپنے اس مقصد کے حصول میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آ رہی تھی، سوائے امام موسی کاظم علیہ السلام کے وجود مبارک کے، جنہیں وہ اس کام میں بڑی رکاوٹ سمجھتا تھا۔ ہارون رشید نے اپنی حکومت کو شرعی جواز فراہم کرنے کی غرض سے اور خود کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عزیز ظاہر کرنے کی غرض سے مسجد نبوی میں داخل ہوتے ہوئے کہا: السلام علیک یا ابن عم(میرے چچیرے بھائی پر میرا سلام) ۔ امام موسٰی کاظم علیہ السلام بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے فوراً فرمایا: السلام علیک یا اباہ(میرے والد گرامی پر میرا سلام) ۔ یہ سن کر ہارون رشید کے چہرے کا رنگ تبدیل ہونے لگا۔ اس نے امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو مخاطب قرار دے کر کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اعزاز صرف آپ کو ہی حاصل ہے۔ اس کے بعد یحیٰی ابن جعفر کی طرف مڑا اور کہا: اشھد انه ابوہ کان حقاً۔ ساتھ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف منہ کرکے کہنے لگا کہ یارسول اللہ، میں نے جو فیصلہ کیا ہے اس پر آپ سے معذرت خواہ ہوں۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ کے فرزند موسٰی کاظم [علیہ السلام] کو گرفتار کرکے زندان بھیج دوں، کیونکہ وہ امت مسلمہ میں اختلاف اور تفرقے کا باعث بنے ہیں۔ پھر اپنے افراد کو حکم دیا کہ وہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو گرفتار کر لیں۔ اس کے افراد نے امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو نماز کی حالت میں گرفتار کر لیا۔
ہارون الرشید اپنے تمام تر دبدبے اور سیاسی طاقت کے باوجود امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے وجود مبارک کو برداشت نہیں کرتا تھا اور لوگوں کے غیض و غضب سے بچنے کیلئے اس قسم کے بہانے بناتا رہتا تھا۔ وہ امت مسلمہ میں تفرقہ اور اختلاف ڈالنے کا الزام لگا کر امام علیہ السلام کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتا رہتا تھا۔ آمر اور عوام دشمن حکمرانوں کا شروع سے یہی وطیرہ رہا ہے کہ وہ حق پرست شخصیات کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرکے ان کی شخصیت اور وقار کو مجروح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے: "انی اخاف ان یبدل دینکم و ان یظھر فی الارض الفساد"(غافر/٢٦) ۔ فرعون حضرت موسٰی علیہ السلام پر بے دینی اور فساد کا الزام لگاتا رہتا تھا، تاکہ لوگوں کی نظر میں انہیں گرا سکے۔ اسی طرح ہارون رشید بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ پیروان اہلبیت علیھم السلام امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو اپنا امام مانتے ہیں اور راتوں کو چھپ چھپ کر ان سے ملاقات کیلئے آتے ہیں۔ وہ اس امر کو اپنی حکومت کی بقا کیلئے شدید خطرہ تصور کرتا تھا۔ لہذا اس نے امام علیہ السلام کی جاسوسی کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے اپنے افراد کو حکم دیا کہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے ایسے قریبی عزیز کو تلاش کریں جو مالی اعتبار سے انتہائی فقیر اور تنگدست ہو۔ لہذا ہارون رشید کے افراد نے امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے بھتیجے علی ابن اسماعیل کو ڈھونڈا۔ ہارون نے علی ابن اسماعیل کو مدینہ سے اپنے پاس دارالحکومت بلوایا اور بہت خاطر مدارت کرنے کے بعد اسے بڑی رقم عطا کی۔ وہ بھی ہارون رشید سے تعاون کرنے پر راضی ہوگیا۔ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے علی ابن اسماعیل کو بہت سمجھایا اور اسے مالی امداد دینے کا وعدہ بھی کیا، لیکن اس نے بات نہیں مانی اور ہارون رشید کے ساتھ کام کرتا رہا۔
امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو ایسے حالات درپیش تھے جن کے پیش نظر وہ کھل کر ظالم حکمرانوں کے خلاف عملی جدوجہد انجام نہیں دے سکتے تھے، لہذا انہوں نے انتہائی مخفیانہ انداز میں اور تقیہ اپناتے ہوئے ظالم حکومت کے خلاف جدوجہد جاری رکھی۔ اسی طرح امام علیہ السلام اپنے پیروکاروں پر بھی زور دیتے تھے کہ وہ اپنے بارے میں تمام معلومات کو چھپا کر رکھیں اور باہر کے افراد پر ظاہر کرنے سے گریز کریں، لیکن بعض اوقات کسی فرد کی غفلت سے اندر کی خبریں باہر نکل جاتی تھیں اور پیروکاروں پر امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی اطاعت کا واجب ہونا آشکار ہوجاتا تھا۔ ہارون رشید کی جانب سے امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو زندان روانہ کئے جانے کی ایک اہم وجہ بھی اس قسم کی معلومات کا حکومت تک پہنچنا تھا۔ ہشام ابن حکم امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے قریبی اصحاب میں شمار ہوتے تھے۔ انہیں بھی امام علیہ السلام نے یہی دستور دے رکھا تھا کہ اپنے شیعہ ہونے کو چھپائے رکھنا ہے۔ ایک دفعہ غلطی سے ہشام ابن حکم نے اپنی اصلیت ظاہر کر دی، جس کے بعد وہ گمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ ہارون رشید نے انہیں پکڑنے کیلئے ان کے بھائیوں کو زندان میں ڈال دیا۔ وہ اکثر ہشام ابن حکم کے بارے میں کہتا تھا کہ: "ایسے مرد کے زندہ ہونے کی صورت میں میرے لئے ایک گھنٹہ حکومت کرنا بھی ممکن نہیں، کیونکہ خدا کی قسم اس کی زبان لاکھوں شمشیر زن افراد سے زیادہ خطرناک ہے۔"
امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی سیاسی جدوجہد کا ایک اور نمونہ ایسے درباری ملاوں اور بکے ہوئے علماء کا مقابلہ ہے جو حکومت کے ساتھ سازباز کرچکے تھے۔ ایسے بکے ہوئے افراد ظالم حکومت کو شرعی جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اسی وجہ سے حکومت ان افراد کو بہت زیادہ اہمیت دیتی تھی اور انہیں نوازتی رہتی تھی۔ امام موسٰی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں: "العلماء امناء الرسل ما لم یدخلوا فی الدنیا، قالوا و ما دخولھم فی الدنیا؟ قال: اتباع السلطان فاذا فعلوا ذالک فاحذروا علی ادیانکم"۔ یعنی علماء اس وقت تک انبیاء کے وارث ہیں جب تک وہ دنیا میں داخل نہیں ہوجاتے۔ آپ علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ دنیا میں داخل کیسے ہوا جاتا ہے؟ تو فرمایا کہ حکمرانوں کی پیروی کے ذریعے، لہذا جب بھی علماء حکمرانوں کے پیرو ہوجائیں تو اپنے دین کو ان سے بچاو۔
جب امام موسٰی کاظم علیہ السلام نے دیکھا کہ مہدی عباسی ایسے افراد کو ازالے کی رقم دے رہا ہے جن پر ظلم ہوا تھا تو آپ علیہ السلام نے اس سے فرمایا کہ جو کچھ تم نے ہم [اہلبیت اطہار علیھم السلام] سے ظلم و ستم کے ذریعے چھینا ہے، اسے واپس کیوں نہیں کرتے؟ اس نے پوچھا کہ وہ کون سی چیز ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ فدک ہے۔ مہدی عباسی نے کہا کہ آپ فدک کی حدود کا تعین کریں میں اسے واپس دلوا دوں گا۔ اس پر امام موسٰی کاظم علیہ السلام نے فرمایا کہ فدک میں پورے عالم اسلام کی حدود شامل ہیں۔ لہذا امام موسٰی کاظم علیہ السلام کبھی بھی حکومت کے معاملے میں خاموش اور بے طرف نہیں رہے، بلکہ ہمیشہ خود کو سب سے زیادہ حکومت کا مستحق اور لائق تصور کرتے تھے اور تمام اسلامی سرزمینوں پر حکومت کو اپنا جائز اور شرعی حق سمجھتے تھے۔
ائمہ معصومین علیھم السلام کی جانب سے حکومت کا حصہ بننے سے امتناع درحقیقت ایسی منفی مہم تھی، جو وقت کے حکمرانوں کے غاصب، نااہل اور نالائق ہونے کا واضح ثبوت تھی۔ دوسری طرف ائمہ معصومین علیھم السلام کی یہ منفی مہم عوام کو حکومت سے بدبین اور متنفر کرنے کا باعث بنتی تھی۔ بنی امیہ اور بنی عباس حکومتیں اسلامی معاشرے میں ایسی سوچ کی ترویج کو اپنے لئے عظیم خطرہ تصور کرتی تھیں، کیونکہ جب عوام کی نظر میں کوئی حکومت اپنا قانونی و شرعی جواز کھو بیٹھتی ہے تو اس کے نتیجے میں وہ کسی بھی وقت حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں، جس کا انجام ایسی حکومت کی نابودی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ اگر ائمہ معصومین علیھم السلام منفی مہم انجام نہ دیتے تو فاسد حکمرانوں کا حقیقی چہرہ کبھی بھی واضح نہ ہو پاتا اور بنی امیہ اور بنی عباس کے حکمران اپنے تمام تر فسق و فجور اور ظلم و ستم کے باوجود تاریخ میں بڑے ہیرو اور نیک افراد کے طور پر جانے جاتے۔
ائمہ معصومین علیھم السلام نے خود کو حکومتی سیٹ اپ سے علیحدہ رکھ کر نہ صرف وقت کی حکومتوں کے شرعی جواز پر اہم سوالیہ نشان اٹھایا بلکہ وہ اپنے پیروکاروں اور اصحاب پر بھی ایسے اقدامات انجام دینے سے گریز کرنے کی تاکید فرماتے تھے، جن کا فائدہ بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر ظالم حکومت کو پہنچتا تھا۔ مثال کے طور پر امام موسٰی کاظم علیہ السلام نے اپنے صحابی صفوان بن جمال، جس نے اپنے اونٹ ہارون رشید کو کرائے پر دے رکھے تھے، سے فرمایا: تمہارے سب کام اچھے ہیں، سوائے اس ایک کام کے یعنی تم نے اپنے اونٹ ہارون رشید کو کرائے پر کیوں دیئے ہیں؟ اس نے عرض کی کہ میں نے اسے حج کا سفر ادا کرنے کیلئے اپنے اونٹ کرائے پر دیئے ہیں جو اطاعت الہی کا سفر ہے، اور میں نے یہ اونٹ اسے مفت بھی نہیں دیئے بلکہ اس سے کرایہ لوں گا، اس میں کیا حرج ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم نہیں چاہتے کہ ہارون رشید زندہ واپس آئے اور تمہارے اونٹوں کا کرایہ ادا کرے؟ صفوان بن جمال نے کہا جی، کیوں نہیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: تم جو اسی حد تک ظالم کے زندہ اور باقی رہنے پر راضی ہو تو گناہ کے مرتکب ہوئے ہو۔ لہذا صفوان بن جمال نے فوراً اپنے اونٹ اور ان کے ساتھ باقی سامان ہارون رشید کے ہاتھ بیچ ڈالے۔ ہارون رشید کو شک ہوا اور صفوان سے پوچھا کہ تم نے اونٹ کیوں بیچے ہیں؟ صفوان نے جواب دیا: میں اب بوڑھا ہوچکا ہوں اور اب اونٹ نہیں سنبھال سکتا۔ ہارون رشید نے کہا: مجھے معلوم ہے کہ موسٰی ابن جعفر [علیہ السلام] نے تمہیں اس کام سے منع کیا ہے اور کہا ہے کہ مجھے اونٹ کرائے پر دینا غیر شرعی کام ہے۔ خدا کی قسم اگر سالوں سال تمہاری خدمت نہ ہوتی تو ابھی حکم دیتا کہ تمہاری گردن اڑا دی جائے۔
البتہ یہاں ایک اہم نکتے کی جانب توجہ ضروری ہے۔ ائمہ معصومین علیھم السلام اپنے ایسے اصحاب اور پیروکاروں کو حکومت میں شامل ہونے کا حکم دیتے تھے، جن میں کافی حد تک سیاسی بصیرت اور سمجھ بوجھ پائی جاتی تھی۔ اس کا مقصد حکومت میں رہ کر ظلم و ستم کو روکنا اور فساد کو کم کرکے اسلامی معاشرے کی خدمت کرنا تھا۔ اس کا واضح نمونہ علی ابن یقطین کی صورت میں قابل مشاہدہ ہے۔ علی ابن یقطین تقویٰ، علم اور سیاست کے اعتبار سے بہت اونچے مرتبے پر فائز تھے۔ انہیں امام علیہ السلام نے حکم دیا کہ وہ ہارون رشید کی حکومت میں وزیر کے عہدے پر کام کریں اور تقیہ اختیار کرتے ہوئے اپنے شیعہ تشخص کو چھپائے رکھیں۔ ان کے ذمے پیروکاران اہلبیت علیھم السلام کی جان اور مال کی حفاظت کرنا تھا۔ امام موسٰی کاظم علیہ السلام نے ایک بار علی ابن یقطین کو اپنے پیغام میں لکھا: ان للہ مع کل طاغیه وزیراً من اولیائه یدفع بدعتھم۔ یعنی خداوند متعال ہر باغی اور ستمگر حکمران کے ساتھ اپنے ایک ولی کو وزیر کے طور پر لگائے رکھتا ہے، جو اس کی بدعتوں کا مقابلہ کرتا ہے۔
امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے زمانے میں اہواز کا رہنے والا ایک ایرانی اپنا واقعہ ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے: مجھ پر حکومت کی جانب سے بہت بھاری ٹیکس لگا دیا گیا جسے ادا کرنا میرے بس سے باہر تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ اہواز کا والی بھی انہی دنوں تبدیل ہوگیا۔ میں سخت پریشان تھا۔ میرے بعض دوستوں نے مجھ سے کہا کہ نیا والی شیعہ ہے لیکن مجھے یقین نہ آیا، لہذا میں امام علیہ السلام سے ملنے مدینہ چلا آیا۔ میں نے امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو اپنی مشکل بتلائی۔ انہوں نے اہواز کے والی کے نام ایک خط لکھا جو تین یا چار لائنوں سے زیادہ نہ تھا۔ اس میں امام علیہ السلام نے مومن کی مشکلات کو دور کرنے کی فضیلت بیان کی اور تاکید کی کہ مومن کی مشکلات دور کرنے والا خدا کے نزدیک بہت عزیز ہے۔ میں رات کو چھپ کر والی اہواز کے گھر گیا اور اسے امام علیہ السلام کا خط دیا۔ اس نے خط لے کر اسے چوما اور اپنی آنکھوں سے لگایا۔ پھر مجھے اپنے گھر کے اندر لے گیا اور بڑی انکساری سے پوچھا کہ بتاو تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ میں نے اسے اپنی مشکل بتلائی۔ اس نے فورا ٹیکس کا رجسٹر نکالا اور میرا مسئلہ حل کر دیا۔