۲۸ فروردین ۱۴۰۳ |۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 16, 2024
مولانا شمع محمد رضوی

حوزہ/ ١١ویں ذی القعدہ ''امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام ''کی ولادت با سعادت کے موقع پر مدیر قرآن وعترت فاونڈیش حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمع محمد رضوی نے تبریک و تہنیت پیش کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ١١ویں ذی القعدہ ''امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام ''کی ولادت با سعادت کے موقع پر مدیر قرآن وعترت فاونڈیش حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمع محمد رضوی نے اپنے ایک بیان میں تبریک و تہنیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ 11ذیقعدہ: حضرت امام رضا (ع) کے جشن میلاد کا پُر مسرت دن ہے۔

آٹھویں امام کی مختصر حالات زندگی :  حضرت علی بن موسی الرضا علیہ السلام ''١١''ذی القعدہ سنہ ایکسواڑتالیس  ہجری میں عراق کے شہر سامرہ میں آنکھیں کھولیں،آپ کے والدامام موسی کاظم اور آپ کی مادر گرامی کا نام ''تکتم''تھا جسے ساتویں امام نے آٹھویں امام کی ولادت کے بعد بدل کر طاہرہ کر دیا،آپ کی کنیت ''ابو الحسن '' اور لقب ''رضا ''ہے آپ نے اپنے والد گرامی کی بغداد کے زندان میں شہادت کے بعد سنہ ١٨٣ ہجری ٣٥ سال کی عمر میں امامت اورامت کی رہبری کی ذمہ داری سنبھالی اور خدمات انجام دئے۔

آپکے ہم عصر خلفاء :  آپ کی امامت کل بیس سال تھی جس مین سے دس سال ہارون رشید کی خلافت کے دور میںگذارے اور پانچ سال محمد امین کی خلافت کے دور میں اور آخر ی پانچ سال عبد اللہ مامون کی خلافت کے دور میں گذارے امام علیہ السلام ما مون کی خلافت کے شروع تک اپنے وطن مدینہ شہر میں مقیم تھے لیکن مامون نے حکومت حاصل کرنے کے بعد آپ کو خراسان آنے کی دعوت دی اور آخر آپ ماہ صفر میں سنہ ٢٠٣ ہجری میں ٥٥ سال کی عمر میں شہید ہوئے اور اس شہر میں مدفون ہوئے۔ (٣۔اصول کافی ،حضرت کلینی،ج١ص٤٨٦ ،الارشاد شیخ مفید،ص٣٠٤)۔

آٹھویں امام ہارون کے دربار میں :  ٨٣ ١ہجری کے بعد سے کہ جب ساتویں امام کو ہارون کے حکم سے زہر دیا گیا اور آپ بغداد کے زندان میں شہید کر دئے گئے تو امام علی بن موسی الرضا نے دس سال امامت کی مدت ہارون کے دور میں گذاری یہ دس سال کی مدت آٹھویں امام جو ہارون کے ظلم وستم اور گھٹن کے دور میں گذارے تو یہ علمی اور ثقافتی کاموں اور کوششوں کے لئے نسبتا آزادی کا دور تھا اس لئے کہ اس موقع پر ہارون رشید آٹھویںامام کے لئے رکاوٹ کا سبب نہیں بن پایا اسی وجہ سے آزادی کے ساتھ امام کاموں میںمشغول تھے اس بنا پر امام نے زیادہ تر اس دور میں شاگردوں کی تربیت اور قرآن مجید سے تعلیمات کو اخذ کرکے اسلامی حقائق کو پیش کیا آٹھویں امام پر ہارون کی طرف سے دبائو میں کمی شاید اس وجہ سے ہو کہ وہ ساتویں امام موسی کاظم  کے قتل کے پیچھے بہت فکر مند تھا اگرچہ اس نے اپنے جرم کو چھپانے کے لئے بہت زیادہ کوششیں کیں لیکن آخر کار یہ راز کھل گیا اور لوگوں کی نفرت اور غصے کا سبب بنا ہارون یہ چاہتا تھا کہ خود کو اس جرم سے مخفی رکھے ہارون نے اس مطلب پر گواہ یہ ہے کہ جب آپکے والد کے جنازے کو ہارون کے ظلم کے عملہ سے لے کر احترام کے ساتھ دفن کیاگیاتو یہ پیغام بھی بھیجا کہ :''خدا سندی بن شاہک پر لعنت کرے اس نے بغیر میری اجازت کے یہ کام انجام دیا ہے (..٤۔مجلسی بحار الانوار،ج٤٨،ص٢٢٧،عیون اخبار الرضا شیخ صدوق ،ج١ص١٠٠)اور ہارون کا وہ جواب بھی اس مطلب کی تائید کرتا ہے جو اس نے آٹھویں امام کے متعلق یحیٰ بن خالد بر مکی کے سوال کے بعد دیا تھا جو پہلے بھی امام موسی کاظم کے خلاف بد گوئی اور بد کلامی کر چکا تھا اس نے ہارون سے کہا موسی بن جعفر کے بعد اب انکے بیٹے نے ان کی جگہ سنبھال لی ہے اور امامت کے دعویدار ہیں گویا کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ امام رضا  بھی خلیفہ کے زیر نظر رہیں ،ہارون جو کہ ابھی ساتویں امام کے قتل کو بھول نہیں پایا اور اس کے بارے میں فکرمند تھا جواب دیا میں نےجو کچھ ان کے والد ماجد کے ساتھ کیا وہ کیا کافی نہیں تھا جو تم یہ چاہتے ہو کہ ایک مرتبہ پھر تلوار اٹھا کر تمام علویوں کا قتل عام کر دوں ؟(٥۔عیون اخبار الرضا شیخ صدوق ،ج٢ص٢٢٦،کشف الغمة علی بن عیسی اردبیلی ،ج٣ص١٠٥۔ 

اس واقعہ کے بعد تمام درباری ہارون کے غصے کو دیکھتے ہوئے خاموش ہوئے اور پھر جرائت نہ ہو پائی کہ آٹھویں امام کی شکایت کرسکیں امام علی رضا  ہارون کے دور میں اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کھلم کھلا اپنی امامت کا اظہار کرتے تھے اور اس سلسلے میں اپنے آبائو واجداد کی طرح تقیہ سے کام نہیں لیتے یہاں تک کہ آپ کے بعض مخلص افراد اور آپ کے چاہنے والے آپ کو اس کام سے روکتے تھے لیکن امام یقین دلاتے کہ ہارون کی طرف سے ابھی کوئی خطرہ نہیں پہونچ سکتا، صفوان بن یحیٰ کہتے ہیں :جب امام ابو ابراہیم موسی بن جعفر اس دنیا سے کوچ کر گئے اور حضرت علی بن موسی الرضا نے اپنی امامت کا اظہار کر دیا تو لوگوں نے آپ سے کہا :آپ بہت عظیم اور خطرناک امر کا اظہار کر رہے ہیں اور ہم آپ کے متعلق اس ظالم ہارون سے ڈرتے ہیں تو پھر امام نے فرمایا : وہ جتنی بھی جد وجہد کر لے مجھے کوئی نقصان نہیں پہونچا سکتا (...٦۔عیون اخبار الرضا شیخ صدوق ،ج٢ص٢٢٦،کشف الغمة علی بن عیسی اردبیلی ،ج٣ص١٠٥.)

اسی طرح محمد سنان نقل کرتے ہیں(٧۔الروضة من الکافی ،کلینی،ص٢٥٧زندگی پیشوای امام ھشتم ،سید علی محقق ،ص٥٢،٥٩) کہ میں نے بھی ابو الحسن سے ہارون کی خلافت کے دور میں عرض کیا کہ آپ نے اپنی امامت اور خلافت کا جو اظہار فرمایا ہے ایسے موقع پر جب جبکہ ہارون کی تلوار سے خون ٹپک رہا ہے امام نے فرمایا مجھے پیغمبر کا یہ قول ہمت دیتا ہے کہ نبی اکرم (ص )نے فرمایا :کہ اگر میرے سر سے ایک بال بھی ابو جہل اکھاڑ سکے تو تم سمجھ لینا کہ میں پیغمبرنہیں ہوں تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اگر ہارون نے میرے سر سے ایک بال بھی اکھاڑ لیا تو سمجھ لینا کہ میں امام نہیں ہوں (.٨  ۔امام جب خراسان میں تھے تو خراسان میں رہ کر بھی مدینہ کو یاد فرمایا مامون نے یہ سمجھکر اور اس امید سے کہ آٹھویں امام کو ولی عہد ی سے خوشی ہوگی اور مجھ سے اظہار خوشی کرین گے لیکن امام نے فرمایا :اس امر ولی عہدی نے ہرگز میری نعمتوں میں اضافہ نہیں کیا وہ مدینہ تھا جب میں گھوڑے پر سوار ہوتا تھا تو مجھ سے زیادہ کوئی بھی عزیزنہیں ہوتا تھا اور میں سب کی نگاہ میں محترم تھا بہت ہی سکون سے مدینہ کی گلیوں میں سفر کرتا تھا)

امین اور مامون ایک دوسرے کی ضد : ہارون نے اپنی خلافت کے دور میں امین کو جسکی ماں زبیدہ تھی اپنا ولی عہد قرار دیا اور اس کے لئے لوگوں سے بیعت لی اور عبداللہ مامون کو بھی جسکی ماں ایرانی تھی دوسرا ولی عہد قرار دیا ١٩٣ ہجری میں ہارون کو خبر دی گئی کہ خراسان کہ شہروں میں انقلاب اور بغاوت کی آگ بڑھ گئی ہے اوراس کی فوج کے سردار اپنی تمام بے رحمی اور درندگی کے باوجود انقلاب کی آواز کو کچلنے میں بے بس ہو گئے ہیں تو ہارون نے اپنے وزیر اور مشاوروں سے مشورہ کے بعد مناسب سمجھا کہ خود وہاں کاجائے اور خلافت کی پوری طاقت کو خراسانیوں کے انقلاب اور تحریک کو کچلنے کے لئے اکھاڑ دے اس نے پنے بیٹے محمد امین کو بغداد میں چھوڑ دیا اور مامون کو ضمنی طور پر باپ کی طرف سے خراسان کا گورنر تھا اپنے ساتھ خراسان لے کر گیا ہارون خراسان کے بگڑے ہوئے حالات پر قابو پانے میں کامیاب تو ہو گیا لیکن اسے دوبارہ بغداد دار الخلافة واپس جانا نصیب نہ ہوا اور تیسر ی جمادی الثانیہ کو ١٩٣ ہجری میں شہر طوس میں دنیا سے چلا گیا اور ساتھ ساتھ دو بھائیوں کو امین ومامون کو رقابت اور رسہ کشی کے میدان میں چھوڑ گیا (.٩۔زندگی پیشوای امام ھشتم ،سید علی محقق ،ص٥٢،٥٩)

امین کو ناکامی ملی : جس رات ہارون طوس میں دنیا سے چلا گیا تو بغداد والوں نے امین کے ہاتھوں پر بیعت کر لی ابھی امین کی خلافت کو ١٨ دن سے زیادہ نہیں گذرے تھے کہ اس فکر میں مشغول ہوا کہ مامون کو ولی عہدی سے معزول کرے اور اسکی جگہ اپنے فرزند موسی کا انتخاب کرے اس سلسلے میں اس نے اپنے وزیروں سے مشورہ کیا لیکن ان لوگوں نے منع کر دیا البتہ صرف علی بن موسی بن ماہان نامی شخص فقط مامون کو ولی عہدی سے برخاست کرنے پر مصر ہوا نتیجہ میں امین نے اپنے بھائی مامون کو برخاست کرنے کے لئے اپنے ارادے کا اعلان کیا دوسری طرف مامون بھی اس کام کے خلاف رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے امین کو خلافت سے معزول کر دیا جسکے بعد فوجی لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور آخرکار ١٩٨ ہجری میں امین مارا گیا (.١٠۔ابن اثیر،الکامل فی التاریخ،بیروت،ج٦ص٢٨٧...)اور امین کے قتل کے بعد اسلامی مملکت کے مکمل اختیارات مامون کے ہاتھوں میں آگئے۔

امین کے دور میں آٹھویں امام کی نسبتا آزادی:  امین کی حکومت کے دور میں اور ہارون کی موت سے لے کر مامون کی حکومت کے درمیان کی مدت میں امام اور عباسی حکومت کے مامور افراد کے درمیان کئی قسم کا ٹکرائو تاریخ میں نہیں ملتا اسکی وجہ یہ ہے کہ اس مختصر مدت میں بنی عباس کی حکومت داخلی اختلافات اور امین ومامون کے درمیان جھگڑوں اور مامون کو معزول کرکے اسکی جگہ اپنے فرزند موسی کو ولی عہد قرار دینے وغیرہ میں مصروف ومشغول ہوئے اور انکے پاس علویوں کو خصوصا آٹھویں امام کو آزار واذیت دینے کی فرصت نہیں مل پائی لہٰذا یہی وہ وجہ تھی کہ جب ١٩٣ ہجری سے ١٩٨ ہجری تک امام کیلئے نسبتا آزادی اور آپ کی ثقافتی سعی وتلاش کے لئے بہترین موقع شمار کیا جاتا ہے (.١١۔زندگی پیشوای امام ھشتم ،سید علی محقق ،ص٦٠)۔

آٹھویں امام مامون کے دربار میں : مامون کی خلافت جب مستحکم ہوئی تو اس نے کی زندگی کا ورق پلٹا اور ایک نیا صفحہ کھولا یہ ایک ایسا صفحہ تھا کہ جسمیں امام  نے برسوں بہت زیادہ غم اور سنگین حالات میں گذارے خلافت کے غاصبوں چاہے بنی امیہ یا بنی عباس میں سے ہوں سب کو سب سے زیادہ وحشت خاندان امیر المومنین علیؑ سے تھی کیونکہ انکے اندر ہر قسم کے فضائل ومناقب پائے جاتے تھے اور اچھا خاصہ طبقہ خلافت کو ان کاحق سمجھتا تھا یہی وہ وجہ تھی کہ خاندان علی بن ابی طالبؑ کو ہمیشہ وقت کی حکومت کی جانب سے شکنجوں اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا اورآخرانھیں کے ہاتھوں شہید بھی کر دئے جاتے تھے وہ ظاہری(دیکھاوا)شیعت سےمحبت کا اظہار کرتا اور چونکہ اسکی حکومت کو چلانے والے زیادہ تر افراد بھی ایرانی تھے اولاد علی اور شیعوں کے آئمہ معصومین سے خاص محبت اور لگائو رکھتے تھے لہٰذا وہ اپنے اجداد ہارون اورمنصورکی طرح امام کو قید خانہ میں نہیں ڈال سکتاتھا اس وجہ سے اس نے ایک نیا طریقہ اپنایا اگرچہ یہ کوئی نیا طریقہ نہیں تھا اس کا تجربہ گذشتہ دور میں بھی ہو چکا تھا بہرحال یہ پہلے کی نسبت زیادہ خوشنما اور بہت چالاک عباسی خلیفہ تھا مامون نے فیصلہ کیا کہ امام کے ساتھ دوستی اور محبت کی چال چلکر اپنی حکومت کے زیر نظر رکھا تاکہ آپ کے علمی کمالات سے فائدہ اٹھائے اور آپ کے تمام افعال کو مکمل طریقے سے دیکھتا رہے اورپھراپنی بے ڈھنگی رفتارمیں ملوث رہے۔                                                                               

خداوندعالم سے دعاہے ہم سبکوآٹھویں امام علی بن موسیٰ الرضاعلیہ یہ السلام کی سیرت پہ چلنے کی توفیق عطافرمائے[آمین،ثم آمین]

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .