تحریر: مولانا سید غافر رضوی فلک ؔچھولسی،مدیرساغرعلم دہلی
حوزہ نیوز ایجنسی। پیغمبرر حمت صلی اللہ علیہ وآلہ کے آٹھویں جانشین، سلسلۂ امامت کی آٹھویں کڑی اور زنجیر عصمت کا دسواں حلقہ، امام ضامن وثامن حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی ولادت پرمسرت کے موقع پر تمام شیعیان حیدر کی خدمت میں تبریک و تہنیت پیش کرتے ہوئے چند معروضات عرض کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں جس میں امام رضا علیہ السلام کی زندگی پر طائرانہ نظر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
ہمارے آٹھویں امام ١١/ذیقعدہ سن١٤٨.ھ میں سرزمین مدینہ منورہ پر پیدا ہوئے۔ آپ کا نام نامی اسم گرامی اپنے جدّامجد حضرت علی علیہ السلام کے نام پر "علی" رکھا گیا، لقب "رضا"اور کنیت "ابوالحسن"بیان ہوئی ہے۔ امام رضا علیہ السلام کے لقب "رضا" کے متعلق امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں: "میرے بابا کو یہ لقب(رضا)، خداوندعالم کی جانب سے عطا ہوا ہے"۔ (عیون اخبار الرضا، شیخ صدوق، ج١، ص٣١)
شیعوں کے درمیان مولا رضا کے دیگر القاب میں سے صابر، صدیق، رضی، وفی، عالم آل محمد، سلطان عرب و عجم اور امام رؤف بہت زیادہ مشہور ہیں ۔ (مناقب آل ابیطالب، ابن شہرآشوب، ج٤، ص٣٦٦۔اعیان الشیعہ، سیدمحسن امین، ج٢، ص٥٤٥۔بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج٤٩، ص١٠٠۔ اعلام الوریٰ باعلام الہدیٰ، ج٢، ص٦٤)
آپ خاندان عصمت سے تعلق رکھتے ہیں، خود بھی امام ہیں، باپ بھی امام ،دادا بھی امام، پردادا بھی امام یہاں تک کہ آٹھ پشتوں تک امام ہیں، اسی طرح آپ کے بیٹے بھی امام، پوتے بھی امام، پرپوتے بھی امام یہاں تک کہ یہ سلسلہ امام عصر عج تک پہنچتا ہے جو آج بھی حجت خدا کے عنوان سے پردۂ غیب میں رہ کر دنیا کو ایسی بھینی بھینی روشنی عطا فرما رہے ہیں جیسے بادلوں میں چھپنے کے بعد سورج پوری دنیا کو روشنی دیتا رہتا ہے۔
مولا رضا علیہ السلام کے والدگرامی کا اسم گرامی"حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام" ہے، والدۂ گرامی کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے، مثلاً: تکتم، نجمہ، سمانہ، ام البنین وغیرہ۔ امام رضا علیہ السلام کی ولادت کے بعد امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اپنی زوجہ اور امام رضا کی والدہ کو "طاہرہ" نام سے پکارا جس کی بناپر آپ کے اسمائے گرامی میں ایک نام کا اور اضافہ ہوگیا۔ (عیون اخبار الرضا، شیخ صدوق، ج١، ص١٦ و ص٤١)
امام رضا علیہ السلام کی ظاہری امامت کا آغاز، امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد ١٨٣.ھ میں ہوا۔ امام رضا کی مکمل مدت امامت بیس سال تھی جس میں سے دس سال ہارون رشید کے زمانہ میں گزرے، پانچ سال محمد امین کے زمان حکومت میں اور پانچ سال مامون کے عہدحکومت میں۔ ( اعلام الوریٰ باعلام الہدیٰ، ج٢، ص٤١)
اس بات کا علم تو سبھی کو ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی زندگی مدینہ میں ہی گزرتی رہی لیکن جب مامون کی طرف سے اصرار بڑھا تو بالجبر آپ نے مدینہ ترک کرکے خراسان (مرو) کا رخ کیا۔ تمام روایات اس بات پر متفق ہیں کہ جب امام رضا مدینہ کو ترک کرکے خراسان آئے تو مامون نے ولیعہدی کی پیشکش رکھی جس کو امام نے ٹھکرادیا۔ جب مامون کا اصرار اس حد تک بڑھ گیا کہ امام کے لئے کوئی راستہ باقی نہیں رہا تو آپ نے ولیعہدی کو اس شرط کے ساتھ قبول کیا کہ ریاستی امور میں میرا کوئی عمل دخل نہیں ہوگااور میرا دروازہ سائلوں کے لئے ہمیشہ کھلا رہے گا، مامون نے امام کی یہ شرط قبول کی اور امام کو ولیعہدبنادیا گیا۔
اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ مامون یہ نہیں چاہتا تھا کہ امام رضا کے اردگرد شیعہ موجود رہیں، اسی سیاست کے تحت امام کو ولیعہدی کی پیشکش کی تھی لیکن جو خداوندعالم کو منظور ہو اس کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت کچھ اثر نہیں رکھتی۔ امام کو ولیعہد بنایا گیا تو امام نے مسجد کا انتخاب کیا تاکہ آنے جانے والوں کو کسی مشکل کا سامنا نہ ہو، ہر سوال کرنے والے کو وقت پر اس کاجواب موصول ہوسکے۔
عید کے موقع پر بھی مامون نے امام کو نیچا دکھانا چاہا لیکن حق ہمیشہ بلند رہتا ہے، اس کا ثبوت امام رضا کی ذات سے ملا۔ مامون نے مختلف ادیان کے دانشوروں کو بلایا تاکہ امام سے مناظرہ کریں اور معاذاللہ امام کی توہین ہو لیکن اس کا نتیجہ بھی برعکس نظر آیا، امام کی کامیابی نے منافقین کے چہروں کو فق کردیا۔ جادوگروں کے ذریعہ امتحان لیا تو امام نے ایسی کرامت دکھائی کہ شیرقالین امام کے صرف ایک اشارہ پر قالین سے باہر آیا اور تمام جادوگروں کو نگل گیا، یہ نظارہ دیکھ کر مامون خوف زدہ ہوگیا اور امام کے دامن میں پناہ لی، مامون کے عمل سے یہ ثابت ہوگیا کہ اگر مشکل کے وقت میں کوئی مدد کرسکتا ہے تو وہ صرف یہی گھرانہ ہے، اس کے علاوہ کوئی گھر ایسا نہیں جو مشکلات کو دور کرسکے۔
"والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ"