۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
متولی آستان  رضوی

حوزہ/ حجۃ الاسلام والمسلمین احمد مروی نے اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کو جدید اسلامی تہذیب تک پہنچنے کی راہ قرار دیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حجۃ الاسلام والمسلمین احمد مروی نے باہرکے ممالک میں ایرانی اساتذہ و طلباء کے اجتماع میں اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ  جدید اسلامی تہذیب، اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کی روشنی میں ہی وجود میں آئی ہے، کہا: اسلامی تاریخ پر نگاہ ڈالئے توپتہ چلتا ہے کہ اسلامی تہذیب و تمدن، اہل بیت علیہم السلام کی برکت سے وجود میں آیا ہے۔

انہوں نے حضرت رسول اکرم (ص) کی حدیث ثقلین کی طرف اشارہ کرتے  ہوئے  کہا  کہ  حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اس حدیث شریف میں فرماتے ہیں :انی تارک فیکم الثقلین ؛ کتاب اللہ و عترتی ، ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا ابدا۔۔۔ میں تمہارے درمیان دو گرانبہا چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ایک کتاب خدا، قرآن کریم اور دوسرے میری عترت اہل بیت (ع) ۔ جب تک کہ ان دونوں سے متمسک رہو گے کبھی بھی گمراہ نہیں ہوسکتے۔ جو معاشرہ بھٹک چکا یا گمراہ ہوچکا ہو وہ کبھی بھی تمدن ساز نہیں ہو سکتا یا کسی تہذیب کو جنم  نہیں دے سکتا ۔

آستان قدس رضوی کے متولی نے مزید کہا: سعودی عرب اسلام کی پیدائش کی جگہ ہے ، سرزمین وحی ہے اور وہ ملک ہے کہ جہاں مسلمانوں کا قبلہ اور دنیا کا مقدس ترین مقام پایا جاتا ہے ، لیکن کیا وہ اسلامی تہذیب و تمدن کا مدعی بھی ہوسکتا ہے؟ کیا دشمنان خدا اور غیروں کی غلامی ، ان پر انحصار   اور خدمت کا نام  تہذیب و تمدن ہے؟

انکا مزید کہنا تھا کہ  تاریخ گواہ ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کی برکت سے اسلامی تہذیب وجود میں آئي ہے، اسلامی تہذیب و تمدن اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کے بغیر صرف گمراہی و ضلالت ہے۔

ایرانی تہذیب پر حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی موجودگی نے جو اثرات ڈالے ہیں ان کیطرف اشارہ کرتے ہوئے حجتہ الاسلام مروی نے کہا: ایران ابتداء میں اہل سقیفہ کے ہاتھوں فتح ہوا اور ایران کی فتح میں اہل غدیر کا کوئی کردارنہیں تھا ، لیکن حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی آمد سے ایران ، ایک عظیم ثقافتی مرکز بنا اور غدیر سے آشنا ہوگیا اور اب یہ ایرانی تہذیب، حضرت  امام علی رضا علیہ السلام کے وجود مبارک اوران کی متاثرکن شخصیت کی برکتوں کی وجہ سے ہے۔

انہوں نے کہا: حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی اتّباع میں سادات و امامزادہ حضرات بھی ایران تشریف لائے  کہ ان میں سے ہر ایک  تہذیب و ثقافت کے مرکز تھے اور دراصل یہ بھی  ہمارے انہیں عظیم امام  کے وجود با برکت کی وجہ سے ہے ۔

انہوں نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو «أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُم» کی تجلی قرار دیا اور کہا: سب ہی معصومین علیہم السلام کے وجود میں تمام اخلاقی فضائل جمع  تھے، لیکن ان میں سے بعض حضرات ، کچھ مخصوص اخلاقی فضائل کے مالک تھے۔ جیسے جناب رسول خدا (ص) اور حضرت امام علی رضا علیہ السلام میں رحمت و مہربانی  بہت زیادہ متجلی تھی ۔

آستان قدس رضوی کے متولی نے مزید کہا: حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے مدینہ سے طوس تک اپنے سفر میں ہر موقع پر حق بیانی کی، حق وباطل کے درمیان فرق کو ظاہر کیا اورظالموں و ستمگروں کے چہروں سےنقاب اٹھاتے چلے گئے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مروی نے  آخر میں کہا: حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے حدیث سلسلۃ الذہب میں انسانیت کو تعلیم دی کہ توحید ، امامت کے ذریعہ ہی قابل فہم ہے۔ آپ نے اس حدیث میں مامون ، بنی عباس اور بنی امیہ  کی ظالم و ستمگر حکومت پر خط بطلان کھینچ دیا اور ہمیشہ کے لیے انسانیت کی تاریخ کو روشن اور واضح کردیا۔

 

تبصرہ ارسال

You are replying to: .