حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مولانا منظور علی نقوی آمروہہوی نے ایک آن لائن پرگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان تمام اختلافات و فتنوں کا سبب یہ ہے کہ ہم نے سیرت نبی اکرم ص کو بس سونا ہے اس کو عملی جامہ نہیں پہنایا، کردار امام حسن مجتبی علیہ السلام کو سونا اور پڑھا ہے مگر افسوس اس پر عمل کرنے کی کوشش تک نہیں کی، سیرت بیان ہی اس لئیے کی جاتی ہے کہ انسان اس کو سن کر اپنے قلب کو تاریکی سے نور کی طرف منتقل کر سکے۔
انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ سیرت و تعلیمات اہل بیت علیہم السلام ہی ہے جو بے ذر کو ابوذر بنا دیتیں ہیں اور سلمان کو منا اھل البیت کی منزل تک پہنچا دیتیں ہیں. اور وہ سلمان جو سلمان فارسی کہ نام سے مشہور تھے سلمان محمدی ہوجاتے ہیں، تاریخ میں موجود ہے کچھ لوگ رسول اکرم ص کی خدمت میں آئے اور سلمان فارسی کو لیکر گفتگو کرنے لگے تو رسول اکرم (ص) نے فرمایا سلمان فارسی نہ کہو سلمان محمدی کہو اس لیے کہ اس نے اپنے وجود کو میری سیرت سے نورانی کر رکھا ہے۔
مزید بیان کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمارے یہاں ضرور ہے کہ نوجوان تاریخ اسلام و سیرت نبی اکرم (ص) کا مطالعہ کرے، اس تاریکی زمانے میں بس سیرت اہل بیت علیہم السلام ہی ہے جو انسانوں کے قلوب کو منور کرتی ہیں اور گمراہی کے راستے سے ہدایت کے راستہ پر لا دیتی ہیں۔
مولانا موصوف کا کہنا تھا کہ ہم اگر سیرت کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ ہر مقام پر رسول اکرم (ص) کا درس موجود ہے، رسول اکرم (ص) کی سیرت پیروی کئے جانے کے اعتبار سے دنیا و آخرت کی اچھی زندگی حاصل کرنے کے لیے بہترین سیرت ہے جس طرح خود قرآن میں ذکر ہوا ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی خصلتوں و روشوں میں اچھا نمونہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یقیناً رسول خدا صلی.. تمام امور میں ایک جامع و کامل نمونہ ہیں اور مسلمان آپ کی اقتدا پر مامور ہیں، چنانچہ جو شخص آپ کے نقش قدم پر چلے گا وہ خداوند متعال کے نزدیک محبوب ترین بندوں میں سے ہو گا اور یہی معنی ہیں خداوند عالم کے اس کلام کے کہ جو اس نے فرمایا ( اے رسول ص ان لوگوں سے کہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو کہ خدا تم کو دوست رکھے گا)۔
مولانا منظور نقوی نے کہا کہ اب رسول اکرم (ص) کی سیرت کی طرف نگاہ کریں اور ایک ایک سیرت کو دیکھیں چاہے وہ عبادت کی منزل ہو یا حدود الہی کی حفاظت ہو، سادہ زندگی ہو کتاب ولایت فقیہ ص 92 میں درج ہے کہ رسول اکرم ص کا طرز زندگی نہایت سادہ تھا، آپ نے اپنے مقام و منصب سے مادی زندگی کیلئے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا کہ اپنے بعد کوئی چیز چھوڑتے اور جو کچھ چھوڑا وہ علم ہے جو کہ تمام امور میں افضل و اشرف ہوتا ہے، خصوصا وہ علم جو پروردگار کی جانب سے عطا کیا گیا تھا۔
مزید کہا کہ انکساری ایسی کے آپ کی سیرت میں موجود ہے کہ آپ اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھر کے کاموں میں شرکت فرماتے اور اپنے ہاتھوں سے گوسفند کا دودھ دوہتے تھے، اپنے کپڑوں اور جوتوں کو خود سیتے اور گانٹھتے، اپنے خادم کے ساتھ چکی چلاتے اور اپنا بوجھ خود اٹھاتے غریبوں و مسکینوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح اہل بیت علیہم السلام کی ایک ایک شخصیت پر نگاہ کرتے جائیں یقیناً معرفت کے ایسے دروازے ہمارے لیے کھولتے چلے جائیں گے جس کے نتیجے میں وہ معنویت، روحانیت، سعادت عطا ہوگی جو کسی دوسرے باب سے حاصل نہیں ہو سکتی۔
آخر میں کہا کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام کی سیرت کی طرف ہم نگاہ کریں ہم دیکھیں گے اخلاق و رفتار پیامبر اکرم ص کی ہمیں شباهت ملے گی۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام کی سیرت اج کے اس پرآشوب ماحول میں ہمارے لیے وسیلہ نجات ہے۔