حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا منظور علی نقوی آمروہہ وی مقیم حوزہ علمیہ قم نے کہا کہ علی ولی اللہ کہنے کا حق تب ادا ہو گا جب سیرت و پیغام امیر کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان تمام اختلافات و فتنوں کا سبب یہ ہے کہ ہم نے سیرت کو بس سنا ہے اس کو عملی جامہ نہیں پہنایا، کردار امام علی ابن ابیطالب علیہ السلام کو سنا اور پڑھا ہے مگر افسوس اس پر عمل کرنے کی کوشش تک نہیں کی، معرفت خدا و رسول عملی ہونے کے بعد حاصل ہوتی ہے، سیرت بیان ہی اس لئیے کی جاتی ہے کہ انسان اس کو سن کر اپنے قلب کو تاریکی سے نور کی طرف منتقل کر سکے۔
انکا کہنا تھا کہ سیرت و تعلیمات اھل بیت علیہم السلام ہی ہے جو بے ذر کو ابوذر بنا دیتیں ہیں اور سلمان کو منا اھل البیت کی منزل تک پہنچا دیتیں ہیں۔ اور وہ سلمان جو سلمان فارسی کہ نام سے مشہور تھے سلمان محمدی ہوجاتے ہیں، تاریخ میں موجود ہے کچھ لوگ رسول اکرم ص کی خدمت میں آئے اور سلمان فارسی کو لیکر گفتگو کرنے لگے تو رسول اکرم ص نے فرمایا سلمان فارسی نہ کہو سلمان محمدی کہو اس لیے کہ اس نے اپنے وجود کو میری سیرت سے نورانی کر رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نہج البلاغہ کا ہر گھر میں ہونا ضروری ہے خصوصاً نوجوانوں کو اس کے ترجمہ کو ضرور پڑھنا چاہیے اس پیغام کو حاصل کریں جو امام علی علیہ السلام کے خطبات و کلمات کے ذریعے ہم تک پہنچیں ہیں۔ کیونکہ اس کتاب (نہج البلاغہ ) میں اخلاقی درس بھی ہیں سیاسی درس بھی ہیں اور معارف الہی کو بیان کیا گیا ہے۔ ہر شیعیان اہل بیت علیهم السلام پر فرض بنتا ہے کہ نھج البلاغہ کا مطالعہ کرے تاکہ امام علی علیہ السلام کی زندگی سے زیادہ واقف ہو سکے، کیونکہ افسوس ہوتا نہیں معلوم کتنے ایسے عاشقان اہل بیت علیهم السلام ہیں جنہوں نے نھج البلاغہ کو دیکھا تک نہیں پڑھنا الگ بات ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم اگر سیرت کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ ہر مقام پر حضرت امیر کا درس موجود ہے، حضرت علی (ع) کی سیرت پیروی کئے جانے کے اعتبار سے دنیا و آخرت کی اچھی زندگی حاصل کرنے کے لیے بہترین سیرت ہے۔
انہوں نے کہا کہ یقیناً حضرت علی علیہ السلام .. تمام امور میں ایک جامع و کامل نمونہ ہیں اور مسلمان آپ کی اقتدا پر مامور ہیں، چنانچہ جو شخص آپ کے نقش قدم پر چلے گا وہ خداوند متعال کے نزدیک محبوب ترین بندوں میں سے ہو گا
آخر میں کہا کہ اب حضرت علی (ع) کی سیرت کی طرف نگاہ کریں اور ایک ایک سیرت کو دیکھیں چاہے وہ عبادت کی منزل ہو یا حدود الہی کی حفاظت ہو، سادہ زندگی ہو یا میدان جنگ ہو مولا علی کی طرز زندگی نہایت سادہ تھی، آپ نے اپنے مقام و منصب سے مادی زندگی کیلئے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا کہ اپنے بعد کوئی چیز چھوڑتے اور جو کچھ چھوڑا وہ علم ہے جو کہ تمام امور میں افضل و اشرف ہوتا ہے، خصوصا وہ علم جو پروردگار کی جانب سے عطا کیا گیا تھا۔
انکساری ایسی کے آپ کی سیرت میں موجود ہے کہ آپ اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھر کے کاموں میں شرکت فرماتے اور اپنے ہاتھوں سے گوسفند کا دودھ دوہتے تھے، اپنے کپڑوں اور جوتوں کو خود سیتے اور گانٹھتے، اور اپنا بوجھ خود اٹھاتے غریبوں و مسکینوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے.
اسی طرح اھل بیت علیہم السلام کی ایک ایک شخصیت پر نگاہ کرتے جائیں یقیناً معرفت کے ایسے دروازے ہمارے لیے کھولتے چلے جائیں گے جس کے نتیجے میں وہ معنویت، روحانیت، سعادت عطا ہوگی جو کسی دوسرے باب سے حاصل نہیں ہو سکتی۔