۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
شهادت

حوزہ/ اسلامی عقاید اور الہیات کے ماہر نے کہا کہ حضرت زہرا (س) کے قاتلوں سے انتقام نہ لینے کے لئے امام علی (ع) کے اقدام کی مختلف دلایل اور وجوہات موجود ہیں ان میں سے اہم دلیل کو امام علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں یارو مددگار کا نہ ہونا اور اسلامی معاشرے کی مصلحت قرار دیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی عقاید اور الٰہیات کے ماہر جواد حیدری نے اصفہان میں حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار سے گفتگو کے دوران، ایام فاطمیہ کی مناسبت سے سائبر اسپیس میں شائع شبہات میں سے اس شبہے کے جواب میں کہ”کیوں امام علی (ع) نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بعد قاتلوں سے انتقام نہیں لیا؟ کہا کہ انتقام نہ لینے کی بعض وجوہات کی طرف اشارہ کرنے سے پہلے اس بات پر توجہ دلانا ضروری سمجهتا ہوں کہ علی علیہ السلام معصوم ہیں اور آپ کا ہر عمل اور فیصلہ صحیح اور درست ہے اور ہمیں امامِ معصوم کے ہر فیصلے کو بلا چوں و چرا کے قبول کرنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ اس اہم مسئلے پر غور و فکر کرتے ہوئے اس شبہے کا جواب دیا جانا چاہئے: قیام اور انتقام لینے کے لئے حضرت علی علیہ السلام کے پاس یارو مددگار نہیں تها، ایک دن اشعث بن قیس نے کہا کہ یا علی! آپ نے اپنی تلوار کیوں نہیں نکالی؟ علی (ع) نے فرمایا: میں نے تمام اہل بدر اور تمام مہاجرین و انصار سے مدد کی درخواست کی، لیکن تمام مسلمانوں میں سے صرف چار افراد سلمان، ابوذر، مقداد اور زبیر نے لبیک کہا اور میرے گهر والوں میں سے بهی کوئی نہیں تها کہ جن کے ساته مل کر میں اپنا حق لیتا، کیونکہ حمزہ رضی اللہ عنہ احد میں اور میرے بهایی جعفر کو موتہ میں شہید کیا گیا تها اور میرے پاس دو بے سہارا لوگوں کے علاوہ کوئی باقی نہیں تها، عباس اور عقیل، لہذا انہوں نے مجهے بے یارو مددگار دیکه کر میرے حق پر قبضہ کر لیا۔”بحارالانوار، جلد ۲۹، ص ۴۶۵ حدیث ۵۵

مذہبی اسکالر نے کہا کہ حضرت علی (ع) کو دین کی بقا کے لئے صبر کی تلقین کی گئی تهی، امام علی (ع) نے حضرت فاطمہ (س) کے جواب میں فرمایا کہ اگر آپ اپنے بابا”رسول خدا ص“ کے نام کو زندہ رکهنا چاہتی ہیں تو ہمیں صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ایک اور روایت کے مطابق، امام علی (ع) نے فرمایا: "خدا کی قسم! اگر دین کی نابودی، کفر کی واپسی اور مسلمانوں کے منتشر ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں اس طرح صبر نہیں کرتا۔ "بحارالانوار، مجلسی، ج ۳۲، ص ۶۱

انہوں نے مزید کہا کہ تیسری دلیل اور وجہ یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اس وقت کے اہم سیاسی اور مذہب مخالف واقعات جیسے مرتدین کے خطرے، جهوٹے پیغمبروں کا ظہور اور رومیوں کے ممکنہ حملوں کے پیش نظر اسلامی معاشرے کو پرامن رکهنے کے لئے خاموشی کو ترجیح دی اور قیام نہیں فرمایا۔

مذہبی اسکالر جواد حیدری نے حضرت علی علیہ السلام کی خاموشی کی وجہ کے بارے میں نہج البلاغہ کے خطبوں میں سے ایک خطبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ علی علیہ السلام نے فرمایا: میں خلافت سے دستبردار ہوا اور اس سوچ میں پڑ گیا کہ کیا میں تنہا اور کسی مددگار کے بغیر قیام کروں اور اپنے اور لوگوں کے حقوق لے لوں یا اس گهٹن اور اندهیرا ماحول میں صبر کروں؟ ایک ایسی فضاء قائم ہو چکی ہے جو بوڑهوں کو ختم کر دیتی ہے، جوانوں کو بوڑها اور اہل ایمان کو زندگی کی آخری سانس تک غم و غصے کے علاوہ کچه نہیں ملتا۔میں نے صبر اور بردباری کو عقل و دانش کے زیادہ قریب دیکها، لہذا میں نے صبر کیا، لیکن میں ایسے شخص کی مانند خاموش رہا کہ جس کی آنکه میں کانٹا اور گلے میں ہڈی ہو اور میں نے اپنی آنکهوں سے اپنے حق کو غارت کرتے دیکها۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .