۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مصاحبه با حجت الاسلام والمسلمین عالمی بلخی

حوزہ / مجمع محبانِ اہل بیت (ع) افغانستان کے سرپرست نے کہا: امریکہ افغانستان میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے لیکن افغانستان کو ابھی مکمل چھوڑا نہیں ہے۔ وہ افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ باقی رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ سے منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی، مجمع محبانِ اہل بیت (ع) افغانستان کے چیئرمین اور افغانستان کی شیعہ علماء کی کونسل کے رکن حجت الاسلام و المسلمین سید حسین عالمی بلخی نے ایران اور قم المقدسہ کے سفر کے موقع پر حوزہ نیوز کے ساتھ انٹرویو میں افغانستان کی موجودہ صورتحال اور طالبان حکومت سے متعلق سوالات کے جوابات دیئے ہیں جنہیں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

براہِ کرم! قارئین کے لئے سب سے پہلے آپ اپنا تعارف کروائیں۔

حجت الاسلام سید حسین عالمی: میرا نام سید حسین عالمی بلخی ہے، اس وقت مجمع محبانِ اہل بیت (ع) افغانستان کا چیئرمین اور افغانستان کی شیعہ علماء کی کونسل کا رکن ہوں۔ میں حوزہ نیوز ایجنسی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ لوگ موجودہ مسائل کو اچھی طرح سے منتشر کر رہے ہیں، واقعا دینی و دنیوی مسائل سے حقیقی آگاہی کی ذمہ داری انتہائی با ارزش اور قیمتی ہے اور مخاطبین کے لیے بھی بہت مفید ہے۔

امریکہ افغانستان میں ناکام تو ہوگیا لیکن افغانستان کو چھوڑنے پر قائل نہیں

افغانستان کی موجودہ صورتحال کی وضاحت کریں۔

حجت الاسلام سید حسین عالمی:افغانستان اس وقت تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ یعنی اب وہاں کی حکومت اور سسٹم کا تختہ الٹ دیا گیا اور طالبان نے اقتدار سنبھال لیا ہے ۔ نئی حکومت ابھی مستقل طور پر قائم نہیں ہوئی ہے اور طالبان نے نگراں کابینہ کا اعلان کر دیا ہے۔ لوگوں کو تمام طبقات پر مشتمل ایک جامع حکومت کی توقع تھی لیکن طالبان نے فعلا صرف اور صرف اپنے اراکین میں سے ہی ایک نگران کابینہ کا تقرر کیا۔ صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اس وقت قومی اور بین الاقوامی سطح پر مذاکرات جاری ہیں۔ بدقسمتی سے ان نئے مسائل اور تبدیلی کے بعد افغانستان کو اقتصادی پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ امریکہ نے انٹرنیشنل اکنامک بینک میں افغانستان کے اثاثے منجمد کر دئے ہیں جس سے اس وقت افغانستانی لوگ شدید معاشی دباؤ میں ہیں۔ نوے فیصد لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے اور بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ سرکاری دفاتر میں بھی مربوطہ امور فعلا مکمل اور ٹھیک طور پر نہیں چل رہے۔ افغانستان اس وقت اپنے مشکل ترین سیاسی، معاشی اور سماجی دور سے گزر رہا ہے، صرف ایک چیز جو طالبان سے پہلے دور کی نسبت بہتر ہوئی ہے یا پچھلی حکومت کے مقابلے میں نسبتا بہتر ہے وہ سیکورٹی کی صورتحال ہے اور ناامنی کے مارے لوگ اسے ایک بہترین فرصت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اگرچہ داعش افغانستان میں اپنی پوری طاقت سے بڑھ رہی ہے اور اسے افغانستان میں بدنیتی کے عزائم رکھنے والے کچھ ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے لیکن فی الحال ان کی نقل و حرکت محدود اور کمزور ہے۔ اگر ان سے سنجیدگی سے مقابلہ کیا جائے تو اس پر قابو پایا جا سکتا ہے ورنہ داعش آہستہ آہستہ طاقت حاصل کر لے گی۔

افغانستان میں حوزہ علمیہ کی کیا صورتحال ہے؟

حجت الاسلام سید حسین عالمی: الحمد للہ افغانستان میں حوزہ علمیہ کی صورتحال بہت اچھی ہے اور نئی تبدیلیوں کی وجہ سے فی الحال حوزہ علمیہ کے لیے کوئی خاص مسئلہ پیش نہیں آیا ہے اور سب لوگ درس و تحصیلِ علم میں مشغول ہیں۔ جس طرح ماضی میں تمام افغان صوبوں میں حوزاتِ علمیہ موجود تھے، اب بھی اسی طرح فعال ہیں اور صرف کابل میں دو ہزار سے زائد طلباء زیرِ تعلیم ہیں۔ ابتدائی کورسز سے لے کر دروسِ خارج تکدروس جاری ہیں اور خدا کا شکر ہے کہ حوزاتِ علمیہ میں ہمارے طلباء کو تعلیم کے حوالے سے کسی مشکل یا رکاوٹ کا سامنا نہیں ہے۔

آپ افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

حجت الاسلام سید حسین عالمی: افغانستان میں ہونے والی تبدیلیاں بین الاقوامی جہت رکھتی ہے جو بہت گہری اور پیچیدہ ہے۔ امریکہ، چین، روس، ایران، ہندوستان، پاکستان، افغانستان میں متضاد مسائل کو لئے سامنے آ رہے ہیں جس کی وجہ سے وہاں حکومتی اور سیاسی حالات مزید پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف افغانستان کے اندر حالات بھی جوں کے توں ہیں، حالات پیچیدہ ہیں، آپسی مفادات کا ٹکراؤ بہت زیادہ ہے اور جس طرح میں نے پہلے بھی کہا کہ طالبان کی حکومت ابھی قائم نہیں ہوئی وہ فعلا متزلزل ہے، مستحکم نہیں ہے۔ اسے دوسرے ممالک نے انہی وجوہات کی بنا پر تسلیم نہیں کیا ہے چونکہ ہر کوئی وہاں ایک مخصوص مقصد کے تعاقب میں ہے لہذا ابھی بہت سے قابلِ حل مسائل موجود ہیں۔

افغان شیعوں کا ملکی ترقی میں کیا کردار ہے؟

حجت الاسلام سید حسین عالمی:افغانستان کی ترقی میں شیعوں نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک صدی قبل کے واقعات میں افغانستان پر انگریزوں کے قبضے کے دوران شیعوں نے اس قبضے کو ختم کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے دورانان کے خلاف قیام کرنے والا پہلا علاقہ ہزارہ جاتی شیعہ علاقہ تھا ، وہ مرکزی علاقہ جہاں کے سبھی لوگ شیعہ ہیں۔ حالیہ پیش رفت میں، شیعوں نے پچھلی حکومت میں افغان آئین کے مسودے میں بھی بڑا کردار ادا کیا ہے اور دیگر ثقافتی، سائنسی اور تعلیمی تحریکوں میں بھی شیعوں نے افغانستان میں ہمیشہ نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ علمی میدان میں اور دینی مسائل میں بھی ان کو ہمیشہ نمایاں مقام حاصل رہا ہے حتیٰ کہ بین الاقوامی سطح پر بھی افغانستان کے شیعہ علماء کو اچھی برتری حاصل رہی ہے۔ مثال کے طور پر "کفایۃ الاصول" ایک افغان مولوی نے لکھی ہوئی ہے۔ ملا محمد کاظم آخوند خراسانی ہروی کا تعلق بھی افغانستان کے صوبہ ہرات سے ہے۔ افغانستان کے ہی آیت اللہ سید محمد سرور واعظ کی لکھی ہوئی کتاب "مصباح الصول" ان کتابوں میں سے ایک ہے جو اس وقت دروسِ خارج میں پڑھائی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر تاریخ پر نظر دوڑائیں تو فارابی کا تعلق افغانستان سے ہے، ابو ریحان بیرونی کا تعلق افغانستان سے ہے، ابو علی سینا کا تعلق افغانستان سے ہے۔ سید جمال الدین کا تعلق افغانستان سے ہے وغیرہ۔

کیا افغان حکومت میں شیعوں کا بھی کوئی حصہ ہے؟

حجت الاسلام سید حسین عالمی: موجودہ حکومت میں نہیں ۔ ابھی تک ان کا کوئی حصہ نہیں ہے کیونکہ طالبان نے اپنی فوجی طاقت کے ساتھ افغانستان پر قبضہ کیا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں اب بھی فوجی حکومت ہی ہے۔ فوجی حکومت ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے اسی حالیہ تبدیلی میں کردار ادا کیا تھا لیکن ہمیں توقع ہے کہ اس مرحلے کے بعد جب فوجی حکومت ختم ہو جائے گی اور نگران کابینہ مستقل کابینہ بن جائے گی تو امید ہے کہ اہل تشیع بھی حکومتی ڈھانچے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

امریکہ افغانستان میں ناکام تو ہوگیا لیکن افغانستان کو چھوڑنے پر قائل نہیں

افغانستان میں تعلیم اور کام کے میدان میں خصوصاً خواتین کی صورتحال کیا ہے؟

حجت الاسلام سید حسین عالمی: افغانستان میں خواتین کے لیے تعلیم کے معاملے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایسے پرائیویٹ تعلیمی ادارے، خواتین کی پرائیویٹ یونیورسٹیاں موجود ہیں جہاں خواتین اور لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور انہیں کسی خاص پریشانی یا رکاوٹ کا سامنا نہیں ہے۔ سرکاری اسکولوں میں لڑکیاں چھٹی جماعت تک تعلیم حاصل کر سکتی ہیں اور چھٹی جماعت سے اوپر لڑکیوں کی تعلیم فی الحال بند ہے کیونکہ طالبان کا کہنا ہے کہ ماضی میں افغانستان میں اسکول مخلوط ہوتے تھے، لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے تھے اور ہم اسے الگ کرنا چاہتے ہیں۔ان کے مطابق لڑکیوں کے اسکول لڑکوں کے اسکولوں سے الگ ہونے چاہئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم لڑکیوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے فی الحال خواتین عملی طور پر کام پر نہیں جا رہی ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ہم خواتین کے اداروں وغیرہ میں کام کے لیے مناسب حکمتِ عملی بنانا چاہتے ہیں۔ اب ہمیں نہیں معلوم کہ وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں لیکن ابھی خواتین سرکاری دفاتر میں کام پر نہیں جاتیں البتہ غیر سرکاری اداروں میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

کیا امریکہ افغانستان سے نکلنے کے بعد بھی طالبان کی موجودہ حکومت میں دخالت کرتا ہے؟

حجت الاسلام سید حسین عالمی: اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ افغانستان میں ناکام ہوا اور امریکہ کی ناکامی کی بڑی وجہ ثقافتی مسائل تھے۔ دوسرے لفظوں میں افغانستان میں امریکہ کی شکست ثقافتی شکست تھی۔ وہ افغانستان میں لبرل جمہوری نظام کو فعال کرنا چاہتے تھے لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔ امریکہ اس وقت افغانستان میں اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ یعنی امریکہ افغانستان میں ناکام تو ہوا لیکن افغانستان سے نکلا نہیں۔ وہ اب بھی افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ باقی رکھنا چاہتا ہے۔افغانستان کے لیے سابق امریکی فوجی ایلچی نے ایک صاف انٹرویو میں کہا کہ افغانستان میں طالبان کی آمد آخری حربہ نہیں ہے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ یہ آخری حربہ نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس افغانستان کے لئے منصوبے ہیں اور وہ افغانستان میں کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں وہ اس وقت پالیسی بنا رہے ہیں اور افغانستان میں جو پالیسی اور حکمت عملی ان کے پاس ہے اس کے حل کی تیاری کر رہے ہیں کہ وہ اس نئی صورتحال سے ہم آہنگ ہو جائیں لیکن وہ افغانستان کو چھوڑنے پر قائل نہیں ہیں۔

امریکہ کے انخلاء کے بعد بے گناہ لوگوں بالخصوص شیعوں پر حملے کئے گئے۔ آپ کی نظر میں کیا طالبان کے پاس داعش سے لڑنے کا کوئی منصوبہ ہے؟

حجت الاسلام سید حسین عالمی: طالبان نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے کئی مقامات پر داعش سے جنگ کی اور اب بھی ان کے بقول ان کے پاس داعش سے لڑنے کا سنجیدہ منصوبہ موجود ہے۔ تاہم یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ خودکش حملے اچانک ہوتے ہیں اور ان پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے۔ متقی (طالبان رہنما) نے ترکی میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں داعش کا وجود کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن تمام سڑکوں اور عوامی مقامات کو محفوظ بنانا آسان نہیں ہے۔ طالبان داعش کے خلاف لڑنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور اسی طرح داعش بھی افغانستان میں اپنے قدم جمانے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .