۱۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۹ شوال ۱۴۴۵ | May 8, 2024
خانم محمدی فراز مدیر گروه تبلیغی یاوران شفیعه

حوزہ / خاتون مبلغِ دین محترمہ محمدی فراز نے کہا: بعض حکام اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ ایک عورت بھی کامیاب مبلغِ دین ہو سکتی ہے یا وہ بھی ایک مرد مبلغِ دین کی حد تک تبلیغی سرگرمیاں انجام دی سکتی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق گروہِ تبلیغی “یاورانِ شفیعہ” کی سرپرست اور دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم کے ثقافتی اور تبلیغی امور کی فعال مذہبی اور تبلیغی کارکن محترمہ محمدی فراز نے حوزہ نیوز کو دئے گئے ایک انٹرویو میں اس گروہ کی تبلیغی سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے خواتین کے مشکل حالات میں تبلیغِ دین اور بعض حکام خواتین کے تبلیغی امور کی عدمِ توجہ کے بارے میں توجہ دلائی ہے۔

ان کے اس انٹرویو کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے:

براہِ کرم! سب سے پہلے اپنا تعارف کروائیں۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، میرا نام صغریٰ محمدی فراز ہے۔میں 1977ء میں ایران کے صوبہ ہمدان کے شہر "کبودر آہنگ، شیرین سو" میں متولد ہوئی اور اپنی ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ میری شادی ایک عالمِ دین سے ہوئی اور ہم ان کی اعلیٰ دینی تعلیم کے لئے قم المقدسہ آ گئے اور قم آتے ہی میں نے بھی خواتین کے دینی مدرسہ "جامعۃ الزہراء(س)" میں داخلہ لے لیا اور اب بھی اپنی تبلیغی فعالیت کے ساتھ ساتھ تعلیمی اور تدریسی سرگرمیوں میں بھی مصروف ہوں۔

آپ کے کتنے فرزند ہیں؟

الحمد للہ ہمارے پانچ بچے ہیں۔ جن میں دو بیٹے 23 اور 7 سال کے ہیں اور تین بیٹیاں ہیں جن کی عمر بالترتیب 25، 19 اور 17 سال ہے۔

مشکل حالات میں تبلیغِ دین سے لے کر ممتا کے فریضہ کی تکمیل تک

آپ نے تبلیغِ دین کے میدان میں قدم کیوں رکھا؟

سب سے پہلے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذہبی موضوعات میں میری ذاتی دلچسپی نے مجھے شادی سے پہلے ہی تبلیغی سرگرمیوں میں مشغول کر دیا تھا۔ 2014ء میں، میں نے باضابطہ طور پر دفتر تبلیغات اسلامی میں اپنی تبلیغی فائل تشکیل دی اور پھر تب سے لے کر اب تک مسلسل تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہوں۔ میری تبلیغی سرگرمیوں میں میرے بنیادی محرک میرے والد محترم تھے جو کہ ایک کسان اور بہت مذہبی شخصیت تھے۔ وہ ہمیشہ مجھےتشویق کیا کرتے کہ میں اپنے علاقے میں احکامِ دین بیان کروں اور امام حسین علیہ السلام کی مجلس کا اہتمام کروں۔ بے شک اب میرے والد حیات نہیں ہیں لیکن ان کا حکم اب بھی میرا مقصد ہے اور میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ اس علاقے میں اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو جاری رکھوں۔

ایک مبلغِ دین کے طور پر، خواتین کے تبلیغی میدان میں آنے کے بارے میں آپ کی کیا نظر ہے؟ کیا اس سے ان کی ممتا اور شوہرداری کی ذمہ داریوں میں خلل نہیں پڑتا؟

تبلیغِ دین کے میدان میں داخل ہو کر میں نے یہ تسلیم کیا کہ یہ کام مجھ پر فرض ہے اور ہر طالب علم کو خود کو اس کا ذمہ دار سمجھنا چاہئے۔ تبلیغ کے دنوں میں نصف سامعین خواتین ہوتی ہیں اور بعض احکام اور عقائد ایسے ہیں جسے مرد مبلغ حضرات خواتین سامعین کے لیے اچھی طرح بیان نہیں کر سکتے ہیں اس لئے اس فریضہ کی انجام دہی کے لئے خواتین مبلغ کا ہونا ضروری ہے۔

البتہ خاندان کے افراد کے درمیان کام کی تقسیم سے، ماں یا شریک حیات دونوں اپنی ذمہ داریوں کو بھی نبھا سکتے ہیں اور اسی طرح معاشرہ میں ایک مفید فرد ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف سرگرمیوں کی انجام دہی کے قابل ہو سکتے ہیں۔ یہ کوئی مناسب بات نہیں ہے کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ خاندان کے زیادہ تر افراد اپنا وقت سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا میں صرف کرتے ہیں۔ میں نے اپنے گھر میں باقاعدہ پلاننگ کے ذریعہ گھریلو امور اور اپنی تبلیغی سرگرمیاں دونوں کے لئے منظم وقت ترتیب دے رکھا ہے۔

آپ کے شریکِ حیات آپ کی تبلیغی سرگرمیوں کے بارے میں کیا نظر رکھتے ہیں؟

میری تبلیغی زندگی اور تبلیغی سرگرمیوں میں پیشرفت کے اہم محرکات اور عوامل میں سے ایک میرے شوہر ہیں۔ ان کے تعاون اور حمایت نے ہی مجھے ان چند سالوں کے دوران بے شمار تبلیغی سرگرمیاں انجام دینے کے قابل بنایا۔ میں چونکہ تبلیغی گروہ میں بطور ایک لیڈر خدمت کرتی ہوں لہذا مجھے اپنے گروپ ممبران کی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال اور ان کی تشویق کے لئے دوردراز علاقوں کے دورہ جات کے لئے جانا پڑتا ہے جس کے لئے میں اپنے شوہر کی گاڑی استعمال کرتی ہوں۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ کبھی میری دینی و تبلیغی فعالیت پر اعتراض نہیں کیا بلکہ وہ میری ان دینی سرگرمیوں کی حمایت اور تشویق بھی کرتے ہیں۔

آپ کے پاس ایسی خواتین کے لیے کیا راہِ حل ہے کہ جو تبلیغِ دین انجام دینا چاہتی ہیں لیکن ان کا شوہر راضی نہیں ہے؟

ان افراد کے لیے میرا مشورہ "خاندانی تبلیغ" کی انجام دہی ہے جس کا مطلب ہے کہ جہاں بھی ان کا خاندان ہے وہاں وہ اپنی دینی و تبلیغی سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔ ضروری نہیں کہایک مبلغ دین کی تبلیغی سرگرمیاں باقاعدہ رسمی ہوں بلکہ آپ اپنے خاندانی اجتماعات میں اور رشتہ داروں اور جاننے والوں سے ملنے ملانے کے دوران بھی اپنی دینی اور تبلیغی ذمہ داری انجام دے سکتے ہیں۔ یہی کام باعث بنے گا کہ آپ آیتِ کریمہ *وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ* پر عمل پیرا ہوں گی اور آپ کے بیوی ہونے کے حقوق بھی ضائع نہیں ہوں گے۔

عام طور پر، ہم مہمات کے دوران اپنے دنوں کو تقسیم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر اسکول کھلے ہیں، تو گروپ کے تمام اراکین صبح کی شفٹ میں اسکول جاتے ہیں اور عوامی پروگرام جیسے کہ اجتماعی دعا، سوال و جواب، کلاسوں میں شرکت، اور مقابلے منعقد کرتے ہیں۔ دوپہر کی شفٹ میں، اگر مناسب ہو، جیسے ایام فاطمیہ، محرم وغیرہ، ہمارے ہاں وعظ، وعظ اور احکام ہوتے ہیں۔

تبلیغی میدان میں خواتین کے گروپ کی موجودگی شاید بہت پرانی نہ ہو تو کیا آپ کی تبلیغی سرگرمیوں میں آپ کو کوئی رکاوٹ بھی پیش آئی ہے؟

اگر میں ایک جملے میں خواتین کے تبلیغی میدان میں موجود موانع اور رکاوٹوں کا خلاصہ کرنا چاہوں تو وہ یہ ہے کہ بعض صوبائی حکام اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ ایک خاتون بھی مبلغِ دین بن سکتی ہے یا وہ بھی ایک مرد مبلغِ دین کی حد تک تبلیغی سرگرمیاں انجام دی سکتی ہے تو جب بعض حکام اس طرح سوچتے ہیں تو وہ خواتین کو تبلیغی امور میں وہ مالی تعاون اور حمایت فراہم نہیں کرتے جو ہونا چاہئے یہ چیز خواتین کے تبلیغی میدان میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ میری نظر میں ان معزز حکام کو خواتین کو پروموٹ کرنے کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظر بدلنا چاہیے۔

البتہ یہاں میں دفتر تبلیغات اسلامی کے معزز ثقافتی اور تبلیغی نائب محترم کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جو اپنی وسیع نظر اور دور اندیشی کے ساتھ خواتین مبلغین کی دینی سرگرمیوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔

اس انٹرویو کے آخر میں حوزہ نیوز کی طرف سے اس انٹرویو کے لئے وقت دینے پر خاتون مبلغِ دین محترمہ محمدی فراز کا شکریہ ادا کیا گیا اور ان کے اور ان کے گروپ کے اراکین کی مزید کامیابی کے لئے دعا کی گئی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .