حوزہ نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی سروس کے مطابق فرانسیسی مصنفہ خاتون محترمہ "کلیئر جوبرٹ" 1961ء (1340 شمسی) میں پیرس میں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ ایک ڈاکٹر تھیں اور والد ایک پینٹر اور نقاش تھے۔ محترمہ کلیئر نے اپنا بچپن پیرس میں گزارا۔ 18 سال کی عمر میں انہوں نے اسلام قبول کیا۔ وہ 1983ء سے ایران میں اپنے ایرانی شوہر کے ساتھ مقیم ہیں۔ انہوں نے "علومِ تربیتی" میں گریجوئیٹ کیا اور فرانس کی یونیورسٹی لی مین"(University of Le Man) سے "بچوں کے ادب و تربیت" میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔
وہ قرآن کی آیات اور ائمہ علیہم السلام کی روایات سے کو انتہائی تخلیقی انداز میں داستان کی شکل میں بیان کرتی ہیں اور بچوں کے تخیل کو استعمال کرتے ہوئے انہیں مذہبی موضوعات سے متعارف کراتی ہیں۔ قرآن پاک کی آیات سے الہام شدہ اس محترمہ مصنفہ کی کتابیں متعدد بک فیسٹیولز منجملہ "شہید غنی پور ادبی فیسٹیول"میں پیش کی گئیں جن میں انہیں ممتاز مقام حاصل ہوا۔
اسی سلسلہ میں حوزہ نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی سروس نے اس فرانسیسی آرٹسٹ اور مستبصر خاتون محترمہ "کلیئر جوبرٹ" کا انٹرویو لیا ہے جسے خلاصۃً محترم قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے:
حوزہ: براہ کرم! سب سے پہلے اپنا تعارف کرائیں اور ان اہم وجوہات کو بیان کریں جن کی وجہ سے آپ نے دین اسلام کا انتخاب کیا۔
میں ایک تعلیم یافتہ کیتھولک خاندان میں پلی بڑھی ہوں۔ اپنی نوجوانی میں، میں نے عیسائی مذہب کی بہت سی تحریفات کو دیکھا لہذا آہستہ آہستہ خود کو اس سے دور کر لیا۔ زندگی کی حقیقت اور اس کا حقیقی معنی تلاش کرنے کے لیے میں نے مختلف مذاہب اور مکاتب کا مطالعہ شروع کیا۔ چند سال بعد انقلاب اسلامی ایران کی بدولت میں اسلام سے آشنا ہوئی اور کافی مطالعے اور تحقیق کے بعد میں نے مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کی سب سے اہم وجہ اسلام کی خالص توحید اور شفافیت تھی اور یہ کہ دین اسلام، عیسائی مذہب کا مصلح اور تکمیل کرنے والا مذہب ہے اور تمام سابقہ انبیاء کو تسلیم اور ان کا احترام کرتا ہے۔
حوزہ: ایران یا دیگر ممالک میں اپنی فعالیت اور سرگرمیوں کے بارے میں اور اسی طرح آپ نے جو کتابیں تحریر کی ہیں یا ان کی تصویر کشی کی ہے، ان کی وضاحت کریں۔
میں بچوں کی کتب کی مصنفہ اور مصورہ ہوں۔ میں نے یہ دونوں کام تقریباً 30 سال پہلے ایک ہی وقت میں شروع کیے تھے اور میں فرانسیسی اور فارسی دونوں زبانوں میں لکھتی ہوں۔ لیکن اب میں فارسی میں کہانیاں لکھنے کو ترجیح دیتی ہوں کیونکہ میں آج کے ایرانی بچوں کو فرانسیسی بچوں سے زیادہ بہتر جانتی ہوں۔ اور یہ کہ یہاں میں اپنی لکھی ہوئی داستانوں کو اپنے دوسرے مصنف دوستوں اور اسی طرح بعض ماؤں کے سامنے رکھتی ہوں تاکہ وہ اس پر اپنی نظر دیں یا تنقید کریں حالانکہ جب فرانسوی زبان میں یہی کام کرتی ہوں تو میرے پاس یہ سہولت نہیں ہوتی ہے۔
اسلامی تعلیمات جیسا کہ حجاب وغیرہ سے بچوں کو کہانیوں کی صورت میں متعارف کرانا
خدا کا شکر ہے کہ میں اس وقت تک بچوں کی تقریباً 80 کتابیں شائع کرنے میں کامیاب ہو چکی ہوں جن میں سے نصف سے زیادہ کتابیں مذہبی کہانیوں اور افسانوں پر مشتمل ہیں۔ ان کتابوں میں سے ایک "لینالونا" ہے جو ادارہ "دفتر نشر فرہنگ اسلامی" (اسلامک کلچر پبلشنگ آفس) نے شائع کی ہے۔ اس میں، میں نے حجاب کے تصور کو بالواسطہ اور بچگانہ زبان میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
ایک اور کتاب "خداحافظ راکون پیر" (گڈ بائی اولڈ ریکون) ہے جو " انتشارات کانون پرورش فکری کودکان و نوجوانان"(بچوں اور نوجوانوں کی فکری ترقی کا مرکز) کی طرف سے شائع کی گئی ہے۔ جس میں میں نے "موت اور اس کی پیدائش سے مماثلت" کے تصور پر بحث کی ہے۔ اس طرح کی کہانیاں لکھنے کا میرا مقصد یہ تھا کہ بچے اپنے نزدیکی افراد کی موت کا بہتر طور پر ادراک کر سکیں۔ میں نے قرآنی مفاہیم پر مبنی کئی داستانیں بھی لکھی ہیں تاکہ بچوں کو ان مفاہیم سے زیادہ سے زیادہ آشنا کیا جا سکے۔ اس شائع شدہ مجموعے کا نام " مسابقه کوفته پزی و ۷ داستان دیگر"ہے۔
حوزہ: آپ کے خیال میں موجودہ دور جو کہ سوشل نیٹ ورکس اور ہزاروں پرکشش اینیمیشنز کی ترقی کا دور ہے جو بچوں میں غیر اسلامی کرداروں کو متعارف کرواتے ہیں، اب اس میں ہم کس طرح بچوں میں مذہبی تعلیمات کو ترویج دے سکتے ہیں؟
واقعاً یہ چیز بچوں کے مذہبی مصنفین کے لئے بہت بڑی تشویش کا باعث ہے۔ حقیقت میں میرے پاس فی الحال اس سوال کا کوئی محکم جواب نہیں ہے۔ البتہ ہمیں اپنے بچوں کو براہ راست نصیحت کرنے اور پیغام دینے سے گریز کرنا چاہیے اور بچوں میں خدا اور بزرگان دین کی محبت کو بیدار کرنا چاہئے اور جہاں تک ممکن ہو اپنے دین کو اپنے بچوں کے لئے پیارا اور پسندیدہ بنانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔
حوزہ: جب آپ نے پہلی بار حجاب پہنا تو آپ کو کیسا لگا اور آپ کے فرانسیسی دوستوں، خاندان والوں اور غیر مسلم لوگوں نے آپ کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا؟
جب میں نے حجاب کا انتخاب کیا تو مجھے اس کے فلسفے کا علم تھا اور میں نے پوری طرح اور دل و جان سے اسے قبول کیا۔ اسی دوران جب میں مسلمان ہوئی تو میں نے اسلام کے احکام پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی تاکہ میرا مہربان خدا مجھ سے راضی ہو۔ اس وقت میرے لیے جو چیز بہت مشکل تھی وہ تھی "فرانسیسی عوام ایک مسلمان عورت کا تصور"۔ چونکہ فرانس میں شمالی افریقی ممالک سے تارکین وطن خواتین کی موجودگی کی وجہ سے مسلمان عورتوں کو اکثراً ایک ناخواندہ عورت اور صرف اپنے شوہر کی تابع عورت کے طور پر جانا جاتا تھا اور میرے حجاب پہننے نے مجھے بھی ان میں سے ایک شمار کیا لیکن میں نے بہت جلد ہی اس مسئلہ پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ اپنے سماجی رویے سے اس دقیانوسی تصور کو توڑنا سیکھ لیا۔
حوزہ: فرانس میں مذہبی آزادی کیسی ہے؟کیا تمام یونیورسٹیوں اور اجتماعی سینٹرز میں باپردہ خواتین آسانی سے کام کر سکتی ہیں؟
فرانس میں سیکولرازم کی پشت پناہی کی وجہ سے سخت اسلام مخالف جھکاؤ پایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود وہاں مسلمانوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے وہاں اب قانون سازوں کو محتاط رہنا پڑتا ہے۔ وہ وقتی طور پر اسکولوں اور سرکاری دفاتر میں حجاب پر پابندی لگانے میں کامیاب ہوچکے ہیں اور وہ اس پابندی کو دوسری جگہوں حتیٰ کہ سڑکوں اور بازاروں تک پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ اس میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے اس لیے یہ بات یونیورسٹیوں اور پرائیوٹ مقامات پر بھی ان مقامات کے حکام کے ذاتی فیصلے پر منحصر ہے کہ وہ خواتین کو حجاب کے استعمال کی اجازت دیتے ہیں یا انہیں روکتے ہیں۔