حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر (دہلی) کی رپورٹ کے مطابق: یہ مرکز اسلامی و ایرانی مکتوبات کی حفاظت کی خاطر سرزمین ہندوستان پر وجود میں آیا ۔
واضح رہے کہ انٹر نیشنل نورمائکروفلم سینٹر، ایران کلچرہاؤس (دہلی) میں ایک تحقیقی ادارہ ہے جس میں مائکروفلم، فوٹو گرافی، پرانی کتابوں کی مرمت اور ان کی نشر و اشاعت جیسے با ارزش کام انجام دیئے جاتے ہیں۔ اسی لئے حوزہ نیوز ایجنسی نے انٹر نیشنل نورمائکروفلم سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مہدی خواجہ پیری کے ساتھ ایک خاص انٹرویو کا پروگرام رکھا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
حوزہ نیوز: آپ کا مرکز کب اور کس مقصد کے تحت وجود میں آیا؟
ڈاکٹرخواجہ پیری: انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر سن 1364 شمسی میں رہبرمعظم حضرت آیۃ اللہ سید علی حسینی خامنہ ای دامت برکاتہ کے حکم سے اسلامی ذخیرہ کی حفاظت کے پیش نظر وجود میں آیا جس کی سب سے بہتر کارکردگی ہندوستان میں موجود شیعہ فقہی و کلامی کتب کی حفاظت کرنا ہے، اب تک اس مرکز میں تیس حکومتی اور ذاتی کتب خانوں کو ڈیجیٹل کردیا گیا ہے جن میں سے ہندوستان نیشنل آرکائز، مولانا آزاد یونیورسٹی کتب خانہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی،جامعہ ہمدرددہلی وغیرہ کے اسماء سرفہرست ہیں، اس ڈیجیٹل اور مرمت کا مقصددوملکوں کے درمیان آپسی روابط کو بحال رکھنا ہے۔
انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر نے ابھی تک فارسی، انگریزی اور اردو زبان میں نوے ہزار قلمی نسخوں کو بہترین کیفیت کے ساتھ ڈیجیٹل کردیا ہے اور اس کا عظیم حصہ یہ ہے کہ اڑتیس جلدوں میں فارسی، عربی،انگریزی اور اردو زبان میں فہرست سازی کی گئی ہے، اس کے علاوہ وہ کتابیں جن کے اوراق بالکل گل گئے اور ان کو پڑھنا ممکن نہیں ہے، ان کی مرمت اور ان کے احیاء میں خاص قسم کے مواد سے استفادہ کیا جاتا ہے تاکہ یہ قلمی نسخے تمام طرح کی آفتوں سے محفوظ رہیں، اب تک دس ہزار سے زیادہ قلمی نسخوں کو احیاء کیا جاچکا ہے۔
حوزہ نیوز: علامہ امینیؒ کچھ زمانہ تک، ہندوستان میں رہے! وہ ہندوستان میں کیا کام انجام دیتے تھے؟ کیا ان کی کتابوں کو بھی آپ کے مرکز میں جمع کیا جارہا ہے؟
ڈاکٹر خواجہ پیری: علامہ امینیؒ، ہندوستان میں بہت کم مدت تک مقیم رہے اور اس مدت میں زیادہ تر علامہ میرحامد حسین ہندی "صاحب کتاب عبقات الانوار" کے کتب خانہ سے استفادہ کیا۔ تقریباً چار مہینے تک ہندوستان میں رہے اور اس مدت میں جتنے کتب خانوں میں گئے پیدل چل کر اور ہزار مصیبتیں جھیل کر وہاں پہنچےاور کتابوں کا مطالعہ کرکے مطالب تحریر فرمائے۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ علامہ امینیؒ نے کتاب الغدیر کی شروعات ہندوستان سے کی؛ البتہ میں نے ہندوستان میں علامہ امینیؒ کا صرف ایک خط دیکھا جس میں انہوں نے تحریر کیا تھا: "میں نے دنیائے اسلام کے بہت سے کتب خانے دیکھے ہیں لیکن جیسے کتب خانے ہندوستان میں نظر آئے ایسے کتب خانے دنیا کے کسی گوشہ میں دیکھنے کو نہیں ملے، میں نے ہندوستانی کتب خانوں سے بہت زیادہ استفادہ کیا"۔
حوزہ نیوز : کیا علامہ امینیؒ کی کتابوں میں سے کوئی ایسی کتاب ہے جس پر کام نہ ہوا ہو اور ہندوستانی شیعوں تک نہ پہنچی ہو؟
ڈاکٹر خواجہ پیری: ہماری اطلاع کے مطابق، ہندوستان میں علامہ امینیؒ کی کوئی کتاب بھی زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوئی ہے، علامہ امینی ؒ ہندوستان سے واپس نجف گئے اور باقی عمر وہیں گزاری، ان کی کارکردگی نجف میں ہی جاری و ساری رہی؛ نجف میں ایک کتب خانہ بنام "مکتبۃ امیرالمؤمنین ؑ" کی بنیاد رکھی اور اس کتب خانہ میں اپنی تمام کتب اور اپنے تمام نوشتہ جات کو جمع کیانیز دیگر علماء کی کتابوں سے اس کتب خانہ کو زینت بخشی، ایک طولانی مدت تک نجف میں رہے ، وہیں وفات پائی اور وہیں سپرد خاک کئے گئے؛ صدام کے زمانہ میں تمام کتب خانے تباہ و برباد ہوگئے، صرف انہی کا ایک کتب خانہ تھا جو باقی رہا لہٰذا علامہ امینیؒ کی تمام کتب آپ کے اسی کتب خانہ میں مل سکتی ہیں!۔
حوزہ نیوز: کیا شیعہ ذخیرہ میں سے کچھ ایسا بھی ہے جو جمع نہ ہوا ہو؟
ڈاکٹر خواجہ پیری: امام خمینیؒ فرماتے تھے: "شیعوں کے لئے زمانہ غیبت میں سب سے بڑی حجت، علامہ امینیؒ کی کتاب عبقات الانوار ہے" یہ کتاب شیعہ علم کلام کی سب سے بڑی کتاب ہےاور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی امامت کے اثبات میں تحریر کی گئی ہے۔ یہ کتاب تقریباً تین سو جلدوں پر مشتمل ہے، علامہ امینیؒ کی زندگی میں تقریباً ایک سو ساٹھ جلدیں زیور طبع سے آراستہ ہوچکی تھیں، اس کی باقی جلدوں کو ہمارے مرکز نے ڈیجیٹل کیا اور ان کی تصاویر ایران ارسال کیں جو بنیاد امامت کے ذریعہ جمع کی گئیں جن میں سے تقریباً ستّر جلدیں زیور طبع سے آراستہ ہونے کے لئے آمادہ ہیں۔
ہمارے کاموں میں سے ایک کام یہ ہے کہ ہم ہندوستان کے شیعہ علمائے اعلام کے زندگی نامے قید تحریر میں لا رہے ہیں، اب تک تقریباً سات سو پچاس علماء کے زندگی نامے تحریر ہوچکے ہیں جو کتاب"نجوم الہدایہ" کے نام سے دس جلدوں پر مشتمل ہیں اور زیور طبع سے آراستہ ہو رہی ہیں۔ علمائے اعلام کی زندگی سے متعلق مختصر ڈوکومنٹری بھی تیار کی جارہی ہے جس میں بیس علماء کی ڈوکومنٹری آمادہ ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ "فہرست تالیفات ہند" کے نام سے ایک کتاب تیار کی گئی جو دو کتابوں "الذریعہ اور معجم ما کتب عن الرسول و اھل البیت" سے ماخوذ ہے،" کشف الخزائن" نامی کتاب میں تالیفات علمائے شیعہ ہند کو جمع کیا گیا ہے۔ علمائے اعلام کا مختصرطور پر تعارف کرانے کے لئے ایلبم کی صورت میں ایک کتاب تیار کی گئی ہے جس کو "انوار فلک" کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے، اس کتاب میں 1930 عیسوی سے اب تک کے علماء کا تصویر کے ساتھ مختصر تعارف کرایاگیاہے۔ "اجازات علمائے برصغیر" کے متعلق بھی کام جاری ہے جس کی ایک جلد 700 صفحات پر مشتمل آمادہ ہوچکی ہے، اس کتاب میں 200 علمائے اعلام کے اجازوں کی تصویر ، علماء کا مختصر تعارف اور اجازوں کی تفصیلی شناسائی کرائی گئی ہے، یہ کام "دانشامہ اسلام درہند" انجام دے رہا ہے۔ اسی طرح ہم شیعوں کی اہم ذخیرہ کی جمع آوری میں مصروف ہیں، اب تک ستّر ہزار سے زیادہ قلمی نسخوں کو ڈیجیٹل کر چکے ہیں۔
حوزہ نیوز: علامہ امینیؒ نے اپنی تحقیق اور مطالعہ کی خاطر ہندوستان کو کیوں منتخب کیا؟ کیا علامہ امینیؒ سے متعلق کچھ ایسی معلومات ہیں جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش کی جاسکیں؟
ڈاکٹر خواجہ پیری: ملک ہندوستان، قدیم زمانہ میں شیعوں کا ایک عظیم مرکز تھا، دینی مدارس اور بزرگ علماء کے علاوہ ہندوستان کے مشرق، جنوب اور شمال میں شیعہ حکومتیں بھی رہی ہیں۔ علامہ امینیؒ جو مختصر مدت تک ہندوستان میں رہے ہیں آپ نے اس مدت میں سے زیادہ تر وقت علامہ میرحامد حسین ہندی کے کتب خانہ میں گزارا، علامہ اس قدر محو مطالعہ ہوتے تھے کہ ہندوستان کی پچاس ڈگری گرمی کے باوجود ان کو گرمی کا احساس نہیں ہوتا تھا، جب بھی ان سے ہندوستان کے موسم سے متعلق سوال کیا جاتا تو آپ فرماتے: "مجھے ہندوستان کی گرمی یا سردی کا کچھ پتہ نہیں ہے"۔
کتب خانہ کے خادم کا بیان ہے: "میں طلوع آفتاب کے وقت کتب خانہ کھولتا تھا، علامہ فوراً آجاتے اور محو مطالعہ ہوجاتے یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوجاتا، میں کتب خانہ بند کردیتا، علامہ نماز پڑھتے اور مختصر کھانا کھاکر دوبارہ واپس آجاتے، میں کتب خانہ کھول دیتا اور علامہ غرق مطالعہ ہوجاتے یہاں تک کہ مغرب کا وقت ہوجاتا، میں کتب خانہ بند کردیتا ،علامہ نماز پڑھنے کے لئے چلے جاتے اور نماز کے بعد علماءو بزرگان سے ملاقات کرنے کے لئے نکل جاتے تھے"۔ منقول ہے کہ جس وقت علامہ امینیؒ ہندوستان میں قیام پذیر تھے اس وقت آپ نے مختلف کتابوں کےتقریباً 4000 صفحات تحریر فرمائے تھے ، یہ ایسی چیز ہے جو علامہ کا ولایت سے گہرا رابطہ ثابت کرتی ہے۔
حوزہ نیوز: آخر میں یہ بتادیجئے کہ اس قسم کی کتابوں اور آپ کے مرکز کی کارکردگی تک کس طرح رسائی حاصل ہوسکتی ہے؟
ڈاکٹر خواجہ پیری: ہم نے انٹرنیشنل نورمائکرو فلم کی سائٹ اسی لئے بنائی ہے، ہم نے اپنی سائٹ پر اپنی کارکردگی کے مختلف گوشے اپلوڈ کئے ہیں مثلاً علمائے شیعہ کی اسناد، قلمی اور مطبوعہ کتابیں جدا جدا موجود ہیں تاکہ ضرورت مند افراد کی ضرورت کو پورا کرسکیں اور اہل مطالعہ کے لئے مفید ثابت ہو۔ "والسلام"۔