۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مائکرو فلم سینٹر نور میں صحیفہ سجادیہ کی نشر و اشاعت

حوزہ/ انٹرنیشنل مائکروفلم سینٹر نور "دہلی - ہندوستان" نے ولادت امام امام زین العابدین سید الساجدین علی ابن الحسین علیہماالسلام کے پرمسرت موقع پر صحیفہ سجادیہ کے تین نفیس اور قدیمی نسخوں کو ڈیجیٹل کراکے نشر کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انٹرنیشنل مائکروفلم سینٹر نور دہلی - ہندوستان نے ولادت امام امام زین العابدین سید الساجدین علی ابن الحسین علیہماالسلام کے پرمسرت موقع پر صحیفہ سجادیہ کے تین نفیس اور قدیمی نسخوں کو ڈیجیٹل کراکے نشر کیا:

علی بن ابراہیم کفعمی کے قلم سے تحریر صحیفہ سجادیہ:
ابراہیم بن علی کفعمی(823-905) نے شیعوں کے لئے دعاؤں کے مجموعے آمادہ کرکے کافی شہرت حاصل کرلی ہے اس لئے کیا تعجب کی بات ہے کہ اگر ہم یہ کہیں کہ صحیفہ سجادیہ پر ان کی خصوصی نظر تھی! کفعمی نے گیارہ سال کے عرصہ میں صحیفہ سجادیہ کے تین نسخے آمادہ کئے۔ سنہ 856ھ، سنہ865ھ اور سنہ 867ھ کے نسخوں میں سے جو نسخہ ہم تک پہنچا ہے وہ سنہ 867ھ والا نسخہ ہے۔ یہ نسخہ 29 شوال سنہ 867ھ میں کامل ہوا اور بہترین خطی نسخوں میں شمار کیا گیا جو آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔

اس نسخہ میں 58 دعائیں ہیں کہ روایتِ شہید کے مطابق چار دعاؤں کا اضافہ کیا گیا ہے:                                (الف)فی الصلواۃ علیٰ آدم (ب)فی طلب السعادۃ (ج)فی الکرب و الافاقۃ (د)فی الشکویٰ۔
اس نسخہ پر کاتب کے متعدد حاشئے ہیں جو تحریر کرتے وقت لگائے گئے ہیں اور وہ صحیفہ سجادیہ کی تحریر کی اصلاح کے عنوان سے پہچانے جاتے ہیں۔اس کام کی اہمیت اس لئے زیادہ ہے کہ کفعمی نے یہ اصلاحات آیات و روایات کے پیش نظر اور ایک صاحب لغت کے مطابق انجام دی ہیں۔ یہ کتاب شیعوں کی ان نادر کتابوں میں سے ہے جن کی تحریروں پر تنقیدی نظر کی گئی ہے۔

باوجود اس کے کہ کفعمی کے بھائی کے نواسے محمدبن علی جباعی (شیخ بہائی)اس نسخہ کو حاصل نہ کرسکے، علامہ محمدتقی مجلسی نے بھی جو شیخ بہائی کی داستان تحریرفرمائی ہے اس میں انہوں نے شیخ بہائی کی آرزو کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کی آرزو تھی کہ "کاش! یہ نسخہ مجھے مل جاتا!!" علامہ مجلسی خود بھی اس نسخہ کو دیکھنے کی تمنا رکھتے تھے۔

یہ نسخہ نہ جانے کب ہندوستان میں آگیا اور علامہ میرحامدحسین کے بھائی علامہ اعجازحسین نے ممتازالعلماء سیدمحمدتقی نقوی کی خدمت میں حاضری دے کر اس نسخہ کا دوسرے نسخوں سے موازنہ کیا اور ان کی خدمت میں پیش کیا۔

ان بزرگ علماء کے علاوہ دیگر جید علمائے اعلام نے بھی شرف زیارت حاصل کیا ہے جن میں سے مفتی محمدعباس شوشتری (علامہ اعجاز حسین کے استاد)، علامہ میر حامدحسین(صاحب عبقات الانوار)، سلطان العلماء سید محمد(استاد مفتی احمد علی محمدآبادی) وغیرہ کے اسمائے گرامی سرفہرست ہیں۔ اس نسخہ پر مفتی محمدعباس شوشتری اور مفتی احمدعلی اعرجی محمدآبادی کے کلام بھی تحریرملتے ہیں۔ اس کے بعد ہندوستان میں اسی نسخہ کی کئی دفعہ کتابت کی گئی۔

صحیفہ سجادیہ، ابوبکرمحمدبن علی کرمانی کی روایت کے مطابق:
یہ نسخہ، اہلسنت کی روایت کے مطابق ہے جو ابوبکرمحمدبن علی کرمانی کے قلم سے قیدتحریر میں آیا ہے، اس نسخہ میں 38 دعائیں ابوعلی حسن بن ابراہیم زامی ہیصمی کے قلم سے سنہ 416ھ میں تحریر ہوئیں  جس کا نمونہ آستان قدس رضوی میں موجود ہے اور صحیفہ سجادیہ کے سب سے پرانے نسخوں میں شمار کیا جاتا ہے جو سنہ 1348ھ میں روضۂ منورہ کی توسیع کے وقت دیگر کتابوں کے ساتھ کسی ایک ستون سے برآمد ہوا تھا۔

صحیفہ سجادیہ، ابن ابی جمہوراحسائی کے پوتے کے قلم سے:
سنہ 1006ھ میں ابن ابی جمہوراحسائی کے ایک پوتے کے قلم سے لکھا گیا صحیفہ سجادیہ کا نسخہ جس میں 54 دعائیں ہیں جس کو شہیدثانی کے نسخہ اور دیگر چھ جید علمائے اعلام کے ان نسخوں سے ملایا گیا جو صحیفہ سجادیہ کے کم نظیر نسخوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔

انٹرنیشنل مائکروفلم نور میں اب تک 350نفیس اور کم یاب خطی نسخوں سے زیادہ اسلامی کتابیں ڈیجیٹل کی جاچکی ہیں جو اصل کتابوں کے عین مطابق ہیں، ان کو ڈیجیٹل کرکے چھپوایاگیا، اس طرح کا کام سب سے پہلے اسی مرکز میں انجام پایا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .