حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اگر ہم قرآن کی طرف بڑھ جائيں گے وہاں پر ہم متحد ہیں اگر اس کے فروعات میں جائيں گے وہاں پر اختلاف ہے۔ ہمیں جمع کرنے والا قرآن ہے اس لئے ہمیں قرآن سمجھنے کی ضرورت ہے جب ہم قرآن سمجھیں گے تبھی جاکے ہم اس پر عمل کر سکیں گے جب ہم قرآن پر عمل کر سکیں گے تب ہم متحد ہونگے تب ہم صحیح مسلمان ہونگے۔
آغا سید عبدالحسین بڈگامی "آغا سعحب" نے کشمیر نیوز بیورو چینل پر ایک شیعہ سنی علمی مباحثے میں پوچھے گئے سوال کہ؛ اگر ایک شیعہ غلطی کرے کیا وہ تمام شیعوں کی غلطی ہوگی ؟ کے جواب میں کہا:جہاں تک شیعہ ہونے کا تعلق ہے وہ امامت کا قائل ہےاور ایک شیعہ کی طرف سے اپنی انفرادی حیثیت سے تشیع کا ترجمان ہونے کی کوئی حیثیت یا سند نہیں رکھتا ہے مگر یہ کہ وہ ثابت کردے کہ جو وہ کہہ رہا ہے وہ اس کے امام کا قول ہے ۔
آغا سعحب نے آگے اسکی وضاحت کرتے ہوئے کہا:اسوقت ہمارا عقیدہ جو ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے دور کا امام اللہ کے حکم سے پردہ غیب میں ہیں ، اللہ سبحان و تعالی کے حکم سے ہی ظہور کریں گے اور اس غیبت کے زمانے میں ان کی جگہ ان کے نائبین قیادت سنبھالے ہوئے ہیں، جسے ہم مرجع تقلید،مجتہد جامع الشرایط کہتے ہیں اور اسوقت ہمارے مجتہد جامع الشرایط حضرت امام خامنہ ای ہیں، حضرت امام سید سیستانی ہیں،اگر وہ کچھ کہتے ہیں وہ شیعہ کی بات ہے اگر میں کچھ کہتا ہوں ، میں ایک دینی طالبعلم ہوں،شیعہ گھر میں پیدا ہوا ہوں، میری بات شیعہ کی بات نہیں ہے!اگر تشیع کی ترجمانی کی بات کریں گے۔حقیقت امر یہی ہے۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ نگار اور اسلامی مبلغ آغا سعحب نے شیعہ ترجمانی کی وضاحت کرتے ہوئےخود سوال کرتے ہوئے کہ ایسا کیوں ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے کہا:وہ اسلئے کہ اس کی دلیل قرآن میں ہے وہ یوں کہ جب عیسائی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم اور قرآن پر اعتراض کرنے کے لئے آئے اس پر آنحضرت نے فرمایا کہ ٹھیک ہے اس کا فیصلہ اللہ پر چھوڑتے ہیں ہم مباہلہ کرتے ہیں،جو کوئی جھوٹا ہو، اس کے بارے میں دعا بد کریں گے کہ جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہو۔ قرآن اس بات کی گواہی دے رہا ہے اور تاریخ نے اس حادثے کو نقل کیا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امت لے کے مباہلے میں حاضر نہیں ہوئے[میں کیوں کہہ رہا ہوں کہ اگر میں کچھ کہتا ہوں میرا تعلق شیعہ گھرانے سے ہے، میں شیعہ طالبعلم ہوں لیکن پھر بھی میں تشیع کا ترجمان نہیں ہوں، مگر یہ کہ میں مستند طور مجتہد جامع الشرایط کے قول کو نقل کر سکوں ، امام کے قول نقل کر سکوں] یہ مباہلے کے میدان کا پیغام ہے مباہلے میں خود رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکلتے ہیں، کس کو ساتھ لے کے نکلتے ہیں؟ ساتھ لے کے نکلتے ہیں حضرت علی علیہ السلام کو۔اور کسے ساتھ لے کے نکلتے ہیں ؟ساتھ لے کے نکلتے ہیں حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کو۔اور کسے ساتھ لے کے نکلتے ہیں؟ساتھ لے کے نکلتے ہیں حضرت حسن علیہ السلام کو۔اور کسے ساتھ لے کے نکلتے ہیں ؟ساتھ لے کے نکلتے ہیں حضرت حسین علیہ السلام کو۔ صرف پنجتن پاک میدان مباہلے میں نکلتے ہیں ، اس کا مطلب کیا ہے ؟اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسلام پر قہر الہی ٹوٹ پڑنی ہے تو پہلے پنجتن پاک پر گرے پھر جا کے امت پر نوبت آئے گی، اگر اسلام پر رحمت برسنی ہے پہلے پنجتن پاک پر برسے پھر امت پر۔ یعنی لیڈر ایسا ہونا چاہئے کہ بلاوں کا خود سپر بن جائے پھر پیچھے چلنے والوں کی نوبت آنی چاہئے، جب کہ ہم پہلے امت کو آگے دھکیل دیتے ہیں پیچھے سے امامت چمکاتے ہیں۔
آغا سید عبدالحسین بڈگامی "آغا سعحب" نے تشیع کی ترجمانی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: تشیع کے اعتبار سے ترجمانی کرنا ایک پہلو ہے اور شیعہ عوامی رد عمل دوسرا پہلو ہے، جیسا کہ مذکورہ مرتد شخص کے چھوٹے بھائی کا رد عمل سامنے آیا اس نے کہا کہ"وہ اسکا بڑھا بھائی جس نے قرآن میں تحریف کا دعوی کیا قرآن کیا جانے وہ تو نماز بھی نہیں پڑھتا ہے اور قرآن کی توہین کرنے کے پیش نظر اسے ہم نے گھروالوں عزل کردیا ہے ، میں نے بھی عزل کردیا ، میری بہنوں نے بھی عزل کردیا اور میری ماں نے بھی عزل کردیا ہے اس کے ساتھ اب کوئی رشتہ نہیں رہا ہے"۔ یعنی شیعہ گھرانے نے اسی بات کا اعلان کردیا کہ جسے میں بیان کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ایسی فکر کہ قرآن میں تحریف کی گئی ہے، قرآن میں سورہ حمد سے لے کر سورہ ناس تک کسی قسم کی تحریف ہوئی ہے،ایسا عقیدہ رکھنے والے کے لئے شیعہ گھر میں بھی رہنے کی جگہ نہیں ہے،وہ مرتد ہے۔ہم ایسے گھرانے کو مرحبا کہتے ہیں کہ جنہوں نے اسطرح دینداری کا مظاہرہ کردیا۔
نیوز نور کے بانی چیف ایڈیٹر آغا سعحب نے لکھنو کے مرتد شخص جس نے ہندوستانی سپریم کورٹ میں قرآن کے تحریف ہونے کا مقدمہ دائر کیا ہے کے منصوبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ؛اب اگر اس مرتد کی بات کریں جو کہ اس کھیل کا حصہ بنا ، وہ کام قرآن کے خلاف مقدمہ دائر کرنا دشمن کے منصوبے کا ایک حصہ تھا، ابھی تک اسلام دشمن طاقتوں نے ایک طریقہ کار یہی اپنایا ہوا تھا کہ مسلمانوں کے جذباتوں سے کھیلنا، سنی شیعہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کو نشانہ بنانا۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ سنی شیعہ مسلمانوں کے درمیان بعض مسائل میں اختلافات رہے ہیں،90 فیصد سے زائد مسائل میں ہمارے سنی شیعہ درمیان اتفاق ملتا ہے اور 10 فیصد سے کم مسائل میں ہمارے درمیان اختلاف ہیں اور وہ اختلافات بھی علمی ہیں ، ہمارے درمیان گالی گلوچ والے اختلاف نہیں ہیں بلکہ ہمارے درمیان علمی اختلاف ہے جیسے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امامت اصول دین میں شامل ہے جبکہ اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ امامت فروع دین میں ہے ۔ کیا یہ بات گالی گلوچ والی بات ہے؟ ۔اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تشیع کی بات ایسے ہی قواعد و ضوابط کے مطابق ہونی چاہئے۔ اور مذکورہ شخص جو اسلام دشمن طاقتوں کے منصوبوں کے خاکوں میں رنگ بھرنے کی کوشش میں لگ گیا ہے اس نے بھی اسی 10 فیصد سے کم اختلافی مسائل کی آڈ میں منصوبہ بنایا ہے اور یہ نئی بات نہیں ہے ایسا کھیل پوری تاریخ میں اسلام کے خلاف کھیلا جاتا رہا ہے جس سے سنی شیعہ مسلمان مشتعل ہو جاتے تھے اور آپس میں دست بہ گریباں ہو جاتے تھے اور ایک دوسرے کی توہین کرتے تھے، جس میں جسقدر طاقت ہوتی وہ اسقدر طرف کو کچلتا وغیرہ۔۔۔ الحمدللہ اب وہ زمانہ نہیں رہا ہے۔ اس بار مسلمانوں نے دکھایا کہ ہم میں سیاسی سوجھ بوجھ بڑ گئی ہے، ہمیں اب دشمن کی سیاست کاری اور منصوبہ بندی سمجھ میں آتی ہے اور اب سنی شیعہ مسلمانوں کے علمی اختلافات کو توہین آمیز اختلاف ثابت نہیں کیا سکتا ہے۔
آغا سعحب سے قرآن کے خلاف عدلیہ میں مقدمہ دائر کرنے سے عدلیہ کا رد عمل کے بارے میں جب پوچھا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ؛چونکہ ہندوستانی عدالت عظمی کو قرآن کے بارے میں فیصلہ دینا ہے اسلئےپوچھا جا سکتا ہے کہ قرآن کی اس بات کو کہ؛" میں نےسب کچھ تمہارے لئے پیدا کیا"، " میں نے سب کچھ تمہارے لئے تمہارے تابع کردیا"، کس سے نسبت دے گا ، کیا یہ بات انسان کر سکتا ہے کہ یہ زمین و زمان تمہارے لئے بنایا اور آپ کو اپنے لئے بنایا ہوں۔ سپریم کورٹ اس بارے میں کیا فیصلہ دے گا؟ کیا یہ انسانی کلام ہے یہ تو "میٹا فیزیکس" کو "فیزیکس" میں بیان کیا گیا ہے ۔ہر زمانے میں قرآن اپنے معجزات کو ابھارتا رہا ہے آپ ملاحظہ کریں بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ترجمہ مفتی کرے تو اسے اس میں فقہ نظر آتا ہے ، کمسٹری سائنسداں ترجمہ کرے تو اسے کمسٹری نظر آتی ہے اور فیزیکس کا سائنسداں ترجمہ کرے اسے فیزیکس نظر آتی ہے، آپ ملاحظہ کریں جس مفسر نے بھی جو جس علم کی مہارت رکھتا ہے اسے اسی علم کے لئے علمی خزانے ملتے ہیں،ایسا کس کلام میں اثر ہے کہ 1400 سالوں سے ایک ایک حرف کی تفسیر ہوتی ہے اور نئی نئی باتیں اجاگر ہو جاتی ہیں۔ ایسی کتاب کے ساتھ سپریم کورٹ کیا فیصلہ لیتی ہے۔ اس قرآن نے تو 1400 سال پہلے اپنا مقدمہ دائر کررکھا ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت 23 اور 24 کے ذریعہ کہ؛" اگر کسی کو شک ہے کہ قرآن اللہ کی بات نہیں ہے تو اللہ کو چھوڑ کر سب جن اور انسان مل بیٹھ کر ایک آیت لے کے دیکھائيں اگر اپنے دعوے میں سچے ہیں"۔یعنی سپریم کورٹ کو اس چلینج کا جواب دینا ہے، کیا ایسی گھتی کو سپریم کورٹ کے ٹیبل پر رکھی گئی جس سے صرف سپریم کورٹ کا وقت ضایع ہوگا، جس سے سپریم کورٹ کے لئے آئے دن نئے مقدموں کا انبار لگنا شروع ہوگا،نئے نئے مسائل پیدا ہوں گے، سپریم کورٹ کی اینرجی ضایع ہوگی،سپریم کورٹ کی فکر مخدوش ہوگی،سپریم کورٹ کا پٹنشل ضایع ہوگا، اس موضوع کو حل کرنے کے لئے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص نے سپریم کورٹ کے خلاف بہت بڑا جرم کیا ہے ! اس وقت ہندوستانی سپریم کورٹ کا اعتبار داو پر لگایا گیا ہےکہ وہ اپنے اعتبار کو کس طرح بچا سکتا ہے۔ کیا انڈین سپریم کورٹ میں یہ ثقت یہ صلاحیت ، یہ توانمندی ہے کہ وہ قرآن کو توڑ سکتا ہے؟ کیا وہ قرآن کو ثابت کرسکتا ہے کہ یہ کسی کی تالیف کردہ کتاب ہے ؟ کیا وہ ثابت کرکے دے سکتا ہے کہ قرآن میں ترمیم کرنے کی گنجائش ہے؟ قرآن کو چلینج کرنے کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے چلینج کوئی بھی کر سکتا ہے تب جب وہ اس کی صلاحیت رکھتا ہو، کیونکہ اللہ سبحان و تعالی اپنی طرف سے بھی چلینج کرتا ہے کہ آو میدان میں آو اور ثابت کردکھاو ، اس پر کوئی پابندی نہیں ہے اگر ثابت کر سکتے ہو اور اپنے دعوے کے سچے ہو ۔ چودہ سو سالوں سے کوشش ہوتی رہی ہے ، عربی ادب کے ماہرین کوشش کرتے رہے ہیں۔چونکہ اللہ سبحان و تعالی کی طرف سے آسان نسخہ رکھا گیا ہے کہ اگر رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غلط ثابت کرنا ہے اس کے لئے ایک معمولی سا کام کرنا ہے ایک چھوٹی سی آیت قرآن کے مقابلے میں لے کے آنا ہے ۔دشمنوں نے سوچا یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے اسطرح ایک آیت لانے کیلئے دن رات کوششیں کرتے رہے لیکن ناکام ہوئے، ایسا نہیں کہ مذکورہ شخص نے کوئی نئی کوشش کی ہے 1400 سالوں سے دن رات کوشش ہوتی رہی ہے کہ ایک آیت بناتے ہیں اور قرآن کے چلینج کو ناکام ثابت کرتے ہیں، جوکہ نہیں کر سکیں ہیں، جب 1400 سالوں سے کوئی ایک قرآن کے چلینج کو ناکام ثابت نہ کر سکا ہے کیا ہندوستانی عدلیہ اب اسے ناکام کر دکھائے گی؟ جبکہ آیندہ 1400 کروڑ سالوں تک بھی کوئی قرآن کے چلینج کو ناکام ثابت نہیں کر سکتا ہے تو جب ایسا کرنا ممکن نہیں ہےتو ایسے میں مذکورہ شخص کو عدالت کا مذاق بنانے کے لئے کتنی سنگین سزا معین ہونی چاہئے جو ہر کسی کے لئے عبرت بن جائے ، جس سے عدالت کا احترام برقرار رہے ، جس عدالت کا اعتبار نہ صرف ہندوستان میں برقرار رہے بلکہ پوری دنیا میں محفوظ رہ سکے۔
اسلامی مبلغ آغا سید عبدالحسین بڈگامی "آغا سعحب" سےموجودہ صورتحال کے پیش نظر مسلمانوں کے صفوں میں اتحاد بنائے رکھنے کیلئے کیا کچھ کرنا ضروری ہے؟ کے جواب میں کہا کہ ؛جب تک ہم یہ نہیں سونچیں گے ، یہ سمجھنے کی صلاحیت پیدا نہیں کریں گےکہ میرے کردار سے ، گفتار سے، رفتار سے کس کو فائدہ ہوگا۔ اگر اسلام کا فائدہ ہو گا؟ تو ٹھیک ہے ، اگر اسلام کے دشمنوں کو ہوگا ؟ تو کیا ٹھیک ہے کیا ٹھیک نہیں ہے یہ سوچنا ہے۔اسلئے ہمیں چاہئے کہ جسطرح میں نے پہلے بھی اشارہ کیا کہ جو سنی شیعہ مسلمانوں کے درمیان دس فیصد سے کم اختلافات ہیں وہاں پر ہمیں سرخ لکیر کو پہچاننا ہوگا، شیعہ سنی سے کہے گا کہ یہ سرخ لکیر ہے اسے پار نہیں کرنا، خطرہ ہے، سنی شیعہ سے کہے کہ یہ سرخ لکیر ہے اسے پار نہیں کرنا، خطرہ ہے، اگر ہم پہلے اس خطرے کو نا سمجھیں تب تک ہم دشمن کے منصوبوں کا شکار ہوتے رہیں گے ۔ اس حوالے سے میں عراق کی مثال عرض کرتا ہوں عراق میں جب شیعہ سنی فساد کرانے کی کوشش کی گئی تو حضرت آیت اللہ العظمی سید سیستانی نے فرمایا کہ: شیعوں کو چاہئے کہ وہ سنیوں کو اپنا بھائی نہ کہیں بلکہ اپنی جان کہیں،یہی لائن ہے اتحاد کی۔ شیعہ کو یہ نہیں کہنا ہے شیعہ تم سنی ہو جاو،نہیں، شیعہ کو چاہئے سنی کو اپنا بھائی نہیں بلکہ اپنی جان کہے ، یہ سمجھنا ہے ، ان ظرافتوں کو سمجھنا ہے ۔ہم نے نہ ایکدوسرے کے عقائد کو چھیڑنا ہے اور نہ اپنے عقیدے کو چھوڑنا ہے۔یہ سرخ لکیر سمجھ کر ہی ہم اس قابل بن جائيں گے کہ دشمن، جب بھی مسلمانوں کے خلاف منصوبہ تیار کرے گا اس کو شکست فاش حاصل ہو گی، جو ابھی الحمدللہ اس موضوع قرآن کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کو لے کر بھی، مسلمانوں نے دکھایا کہ جہاں قرآن کی بات ہوگی اور قرآن پر ہم ایک ہیں، اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے معلوم ہوا کہ اگر ہم قرآن کی طرف بڑھ جائيں گے وہاں پر ہم متحد ہیں اگر اس کے فروعات میں جائيں گے وہاں پر اختلاف ہے۔ ہمیں جمع کرنے والا قرآن ہے اس لئے ہمیں قرآن سمجھنے کی ضرورت ہے جب ہم سمجھیں گے تبھی جاکے ہم اس پر عمل کر سکیں گے جب ہم قرآن پر عمل کر سکیں گے تب ہم متحد ہونگے تب ہم صحیح مسلمان ہونگے۔
آغا سعحب نے آخر میں اپنے پیغام میں کہا کہ ؛قرآن خود ہی کہتا ہے کہ اگر آپ کو بلندیوں کو چھونا ہے تو آپ متقی بنیں،اللہ کے نزدیک وہی بلند مرتبہ ہے جس کا تقوی جتنا زیادہ ہو، تقوی یعنی وہ اپنے آپ کو ہر کام میں اللہ سبحان و تعالی کو حاضر و ناظر جانے،قرآن کہتا ہے کہ کیا نہیں سمجھتے ہو کہ اللہ تمہے دیکھ رہا ہے، اس پر یقین حاصل ہو جائے اور جب مسلمان ایسا مسلمان بنا تو پھر وہ قرآن سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، قرآن نے فرمایا ہے کہ ؛ یہ کتاب ہدایت کا نسخہ ہے ۔ کن کے لئے ؟ متقین کے لئے۔اگر ہمیں متقین بننا ہے ، یعنی افضل انسان بننا ہے اور جسے قرآن کہتا ہے درمیانی امت ، ہم مسلمانوں کو انسانیت کا میزان بننا ہےیہ تبھی ممکن ہے جب ہم قرآن کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں گے۔