۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
مولانا سید صفی حیدر زیدی

حوزہ/ سکریٹری تنظیم المکاتب نے کہا کہ کائنات میں تنہا علیؑ کی حکومت تھی کہ جسمیں کوئی بھوکا نہیں سویا، انشاء اللہ امام زمانہ (عج) کے ظہور کے بعد جب حکومت قائم ہو گی تو وہاں بھی یہی انداز ہو گا۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امبیڈکر نگر/ داوود پور میں منعقد مجلس ترحیم میں مولانا سید صفی حیدر زیدی سکریٹری تنظیم المکاتب نے امیرالمومنین علیہ السلام کی حدیث ’’مَنِ اِسْتَحْكَمَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْ خِصَالِ اَلْخَيْرِ اِغْتَفَرْتُ مَا سِوَاهَا وَ لاَ أَغْتَفِرُ فَقْدَ عَقْلٍ وَ لاَ دِينٍ لِأَنَّ مُفَارَقَةَ اَلدِّينِ مُفَارَقَةُ اَلْأَمْنِ وَ لاَ حَيَاةَ مَعَ مَخَافَةٍ وَ فَقْدَ اَلْعَقْلِ فَقْدُ اَلْحَيَاةِ وَ لاَ يُقَاسُ إِلاَّ بِالْأَمْوَاتِ‘‘ (جس شخص کے اندر نیک صفات میں سے کوئی ایک صفت بھی ثابت و پائیدار ہو جائے گی  تومیں اسے معاف کردوں گا سوائے بے عقلی اور بے دینی کے۔ دینداری سے جدائی امن و امان سے جدائی ہے اور خوف کے ساتھ زندگی کوئی زندگی نہیں ہے اور عقل کا فقدان زندگی کا فقدان ہے اور پھر ایسے انسان کا مقایسہ صرف مردوں سے کیا جائے گا۔) کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ انسان کمال پسند ہے، خوبی کو پسند کرتا ہے، کمال انسان کو اپنی جانب کھینچتا ہے، خوبی انسان کو اپنی جانب جذب کرتی ہے۔ کسی کی نگاہ میں علم کمال ہے، کسی کی نظر میں مال کا جمع کرنا کمال ہے، کسی کی نظر میں عہدہ کمال ہوتا ہے ، جسکی نظر میں جو چیز با کمال ہوتی ہے، جس کی نظر میں جس چیز میں خوبی ہوتی ہے وہ اسے حاصل کرتا ہے، لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ خواہش صرف باپ کی ہوتی ہے کہ اس کی اولاد اس سے زیادہ باکمال ہو ۔ حدیث نبوی کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امیرالمومنین علیہ السلام اس امت کے باپ ہیں۔ (ہم اور علیؑ اس امت کے باپ ہیں۔ ) تو کیا امیرالمومنین علیہ السلام نہیں چاہتے ہوں گے کہ ہم با کمال بنیں ۔ اگرچہ ممکن نہیں کہ کوئی انکی ہمسری کر سکے لیکن انکی سیرت کو تو اپنا  سکتے ہیں ، انکی تعلیمات پر عمل کر سکتے ہیں۔ کائنات میں تنہا علیؑ کی حکومت تھی کہ جسمیں کوئی بھوکا نہیں سویا ، انشاء اللہ ظہور کے بعد جب حکومت قائم ہو گی تو وہاں بھی یہی انداز ہو گا۔ 

سکریٹری تنظیم المکاتب نے روایت بیان کی کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ میرے چھ مطالبے ہیں میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے یہ مطالبے پورے کر دیں۔’’ میری پہلی آرزو یہ ہے کہ اللہ مجھ سے راضی ہو جائے، لوگ مجھ سے راضی ہو جائیں، میری روزی میں برکت ہو، طولانی عمر ملے، صحت و تندرستی نصیب ہو اور آخرت میں آپ کا پڑوس ملے۔ تو حضور ؐ نے فرمایا: اگر چاہتے ہو کہ اللہ راضی رہے تو اس کی اطاعت کرو، نا فرمانی نہ کرو،پ انسان سب کو راضی کرنے کی فکر میں رہتا ہے سوائے پروردگار کے، جب کہ خدا کو راضی کرنا سب سے آسان ہے وہ سریع الرضا ہے، حضورؐ نے فرمایا :اگر چاہتے پہو کہ لوگ تم سے راضی رہیں تو انکے پاس جو ہے اس پر نظر پنہ رکھو اور جو تمہارے پاس ہے اسے ان تک پہنچاتے رہو۔ اگر چاہتے ہو کہ تمہاری روزی میں برکت ہو تو اللہ نے جو ادائگی واجب کی ہے۔(خمس و زکات) اسے ادا کرتے رہو، اگر چاہتے ہو کہ تمہاری عمر طولانی ہو توپ جوپ رشتہ اللہ نے بنائے ہیں اسے جوڑ کر رکھو یعنی صلہ رحم کرو۔پرشتہ توڑنے سے پعمریں گھٹتی ہیں۔ آج ہمارے سماج کی ایک اہم مشکل صلہ رحمی کا فقدان ہے، رشتہ داروں سے دوری ہے جب کہ یہ رشتے خود اللہ نے بنائے ہیں، آپؐ نے فرمایا اگر چاہتے ہو کہ صحت مند رہو تو صدقہ دو، اگر آخرت میں میرا پڑوس چاہتے ہو تو طولانی سجدے کرو۔ 

مولانا سید صفی حیدر زیدی نے امیرالمومنین علیہ السلام کی حدیث کی روشنی میں بیان کیا کہ امیرالمومنین ؑ کو سب برداشت ہے سوائے بے عقلی  اور بے دینی کے، آج ہمارے سماج میں رسم و رواج کے نام پر بے عقلی چھائی جا رہی ہے اور ترک واجبات کے نام پر بے دینی چھائی جا رہی ہے۔ ۹ ؍ ذی الحجہ کو روز عرفہ کہتے ہیں نہیں معلوم یہ رسم کہاں سے شروع ہوئی کہ ماہ شعبان میں عرفہ ہونے لگا، ایصال ثواب کے لئے کوئی وقت نہیں جب ممکن ہو انسان اپنے مرحومین کے لئےایصال ثواب کرے، لیکن یہ کہنا قطعا مناسب نہیں کہ جب تک عرفہ نہیں ہوتا مرنے والا معلق رہتا ہے اس کا شمار مردو ں میں نہیں ہوتا۔ یہ نظام الہی کے خلاف ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .