تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی । ماہ رمضان کے چودہویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں اَللّهُمَّ لاتُؤاخِذْني فيہ بالْعَثَراتِ وَاَقِلْني فيہ مِنَ الْخَطايا وَالْهَفَواتِ وَلا تَجْعَلْني فيہ غَرَضاً لِلْبَلايا وَالأفاتِ بِعزَّتِكَ يا عِزَّ المُسْلمينَ
خدایا! اس مہینے میں میری لغزشوں پر میرا مؤاخدہ نہ فرما، اور خطاؤں اور گناہوں سے دوچار ہونے سے دور رکھ، مجھے آزمائشوں اور آفات کا نشانہ قرار نہ دے، تیری عزت کے واسطے، اے مسلمانوں کی عزت و عظمت
اَللّهُمَّ لاتُؤاخِذْني فيہ بالْعَثَراتِ۔ خدایا! اس مہینے میں میری لغزشوں پر میرا مؤاخدہ نہ فرما.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ماہ رمضان کی ہر شب تین بار خداوند عالم کہتا ہے کوئی سائل ہے کہ اسے میں عطا کروں، کوئی توبہ کرنے والا ہے اسکی میں توبہ قبول کروں، کوئی استغفار کرنے والا ہے کہ اس کی میں مغفرت کروں۔ (الامالی، مفید، صفحہ 230)
معصومین علیہم السلام کے علاوہ ہر انسان سے خطا و لغزش کا امکان ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف بے دین انسان سے ہی خطا ہوتی ہے بلکہ دیندار انسان سے بھی خطا و لغزش کا امکان ہے۔ خطا و لغزش کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں جنمیں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ جہل۔ جاہل نہیں جانتا کیا کرے اور کیسے کرے۔ لیکن اگر عالم اور جانکار ہوگا تو اس کے لئے عمل یا ترک عمل مبہم نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کا طریقہ و سلیقہ مبہم ہو گا۔ قرآن کریم نے اس کے کئی نمونے پیش کئے۔ جیسے
یا مُوسَى اجْعَلْ لَنا إِلهاً کَما لَهُمْ آلِهَةٌ قالَ إِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ (بنی اسرائیل نے کہا) اے موسیٰ ہمارے لئے بھی ایک خدا کا مجسمہ) بنا دو تو جناب موسیٰ نے فرمایا بے شک تم لوگ جاہل ہو (سورہ اعراف، آیت 138)
یَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهالَةٍ۔ وہ جہالت کے سبب برے کام کرتے ہیں (سورہ نساء، آیت 17)
قالَ هَلْ عَلِمْتُمْ ما فَعَلْتُمْ بِیُوسُفَ وَ أَخیهِ إِذْ أَنْتُمْ جاهِلُونَ۔ جناب یوسف نے (اپنے بھائیوں سے) فرمایا: کہا تم جانتے ہو کہ تم نے یوسف اور انکے بھائی کے ساتھ کیا کیا کہ جب تم جاہل تھے۔ (سورہ یوسف، آیت 89)
جاہل انسان حقیقت کا ادراک نہیں کر پاتا۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: الجهل معدن الشر۔ جہالت برائی کی کان ہے۔ (غرر الحکم، صفحہ 73) الجهل أصل کل شر۔ جہالت ہر برائی کی بنیاد ہے۔ (غرر الحکم، صفحہ 73)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جاہل کی خصوصیات کو یوں بیان فرمایا: إنْ صَحِبتَهُ عَنّاكَ ، و إنِ اعْتَزَلْتَهُ شَتَمكَ ، و إنْ أعطاكَ مَنّ علَيكَ ، و إنْ أعطَيْتَهُ كَفرَكَ ، و إنْ أ سَرَرْتَ إلَيهِ خانَكَ۔ اگر اس (جاہل) کے ساتھ بیٹھو گے تو وہ تمہیں رنجیدہ کرے گا، اگر دور رہو گے تو تمہیں گالی دے گا، اگر تمہیں کچھ دے گا تو احسان جتاے گا اور اگر تم اسے کچھ دو گے تو ناشکری کرے گا۔ اگر اسے کوئی راز بتاو گے تو خیانت کرے گا۔ (سفینۃ البحار)
2۔ عقل پر پردہ پڑ جانا: جیسے بداخلاقی کا پردہ پڑ جاے کہ انسان کچھ سوچ سمجھ ہی نہ سکے۔ کبھی یہ پردہ غرور و گھمنڈ کا ہوتا ہے کہ جو انسان کو دوسرے کی بات سننے سے روک دیتا ہے۔ کبھی یہ پردہ حسد کا ہوتا ہے انسان سامنے والے کے حالات سمجھنا نہیں چاہتا، کبھی یہ پردہ بد گمانی کا ہوتا ہے کہ انسان حقیقت سے دور اپنے خیالات کی ہی پیروی کرتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے انسان کو بدگمانی سے روکا ہے۔
ہمیں دعا کرنی چاہئیے کہ اللہ ہمیں ان اسباب سے محفوظ رکھے جو گناہ و لغزش کی بنیاد ہوتے ہیں۔
وَاَقِلْني فيہ مِنَ الْخَطايا وَالْهَفَواتِ
اور خطاؤں اور گناہوں سے دوچار ہونے سے دور رکھ۔
وہ رحمٰن و رحیم اور ارحم الراحمین خدا ہی ہے جو سب سے جلدی راضی ہو جاتا ہے اور گناہ گار کو معاف کر دیتا ہے۔ اپنے بندوں سے بھی یہی چاہتا ہے کہ دوسروں کی خطاوں کو معاف کر دیں۔ قارون جیسا نافرمان و گستاخ جب عذاب میں مبتلا ہوا اور اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مدد مانگی۔ اس کی سرکشیوں اور نافرمانیوں کے سبب کلیم خدا نے توجہ نہیں دی تو جب آپ بارگاہ الہی میں حاضر ہوئے تو رحمٰن و رحیم نے اپنے کلیم سے شکوہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر قارون نے ایک بار مجھے پکارا ہوتا تو میں اسے ضرور معاف کر دیتا اور نجات دے دیتا۔
اللہ نے ہمارے حضور کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا تو آپ کی رحمت میں بھی رحمت رحمٰن کا جلوہ نظر آیا۔ فتح مکہ کے موقع پر جب سارے دشمنان دین مغلوب ہو گئے تو لشکر اسلام کے ایک سپاہی نے نعرہ لگایا۔آج انتقام لینے کا دن ہے۔ جیسے ہی یہ آواز رحمۃ للعالمین کے کانوں سے ٹکرائی فورا اسے روکا اور اعلان کرایا۔ آج معاف کر دینے کا دن ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کی سیرت کا ایک اہم پہلو عفو و بخشش رہا ہے۔
عصر غیبت میں بھی علمائے ابرار فقہائے نامدار کی روش کا نمایاں پہلو عفو بخشش رہا ہے۔ ذیل میں ایک واقعہ کی جانب اشارہ مقصود ہے۔
عالم تشیع کے عظیم مرجع تقلید آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے دورہ مرجعیت میں نجف اشرف میں نماز مغربین کی امامت فرما رہے تھے۔ نماز مغرب کے بعد آپ کو اطلاع ملی کہ آپ کے لائق فرزند کو کسی نے چاقو مار کر قتل کر دیا ہے۔ انتہائی صبر و حوصلہ کے ساتھ فرمایا۔ لا حول و لا قوة الا بالله اور نماز عشاء کے لئے کھڑے ہو گئے۔ نماز بعد لوگوں نے قاتل کے سلسلہ میں پوچھا تو فرمایا: میں نے اسے معاف کر دیا۔
صرف زبانی ہی معاف نہیں کیا بلکہ قاتل کو پیغام بھیجا کہ جلد از جلد نجف اشرف سے نکل جائے تا کہ کوئی معتقد اسے نقصان نہ پہنچائے. قاتل نجف سے نکل گیا تھوڑے عرصہ بعد اس نے آپ کو پیغام بھیجا کہ میں حوزہ علمیہ نجف اشرف میں تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں تو آپ نے جواب دیا کہ میں حصول علم سے نہیں روکتا لیکن نجف میں تمہاری جان کے لئے خطرہ محسوس کرتا ہوں لہذا نجف اشرف نہ آنا۔
اسی طرح تاریخ میں بہت سے واقعات درج ہیں۔ جنکا اس مختصر تحریر میں نقل کرنا ممکن نہیں۔ لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہئیے کہ قرآن و احادیث کی روشنی میں جو بھی دوسروں کو معاف کر دیتا ہے اللہ کا خاص لطف و کرم اس کے شامل حال ہوتا ہے۔ اسے اللہ کی مغفرت اور اسکی نصرت نصیب ہوتی ہے، عمر میں اضافہ ہوتا ہے، حکومت کو دوام ملتا ہے، دشمنیاں ختم ہوتی ہیں، دنیا و آخرت میں عزت ملتی ہے، عذاب جہنم سے نجات میسر ہوتی ہے اور اجر کثیر نصیب ہوتا ہے۔
ولاتَجْعَلْنی فیه غَرَضاً للبلایا والآفاتِ بِعِزّتِکَ یا عزّ المسْلمین ۔ مجھے آزمائشوں اور آفات کا نشانہ قرار نہ دے، تیری عزت کے واسطے، اے مسلمانوں کی عزت و عظمت۔
ہمیں معلوم ہونا چاہئیے کہ جو بھی پریشانیاں ہمارے دامن گیر ہوتی ہیں وہ ہمارے ہی کئے کا سبب ہوتی ہیں۔ ارشاد ہو رہا ہے۔ وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ۔ اور تمہیں جو مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کئے ہوئے(کاموں) کی وجہ سے پہنچتی ہے اور وہ بہت سے(کاموں سے) درگزر کرتا ہے۔ (سورہ شوری، آیت ۳۰)
جس طرح اگر ہم گاڑی صحیح نہ چلائیں تو اکسیڈنٹ ہو جاتا ہے اسی طرح اگر ہم بندگی خدا سے غافل ہو جائیں تو پریشانیاں ہمارا مقدر بن جاتی ہیں۔