تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزه نیوز ایجنسی । ماہ رمضان کے بارہویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں۔’’اَللّهُمَّ زَيِّنِّي فيہ بالسِّترِ وَالْعَفافِ وَاسْتُرني فيہ بِلِباسِ الْقُنُوعِ وَالكَفافِ وَاحْمِلني فيہ عَلَى الْعَدْلِ وَالْإنصافِ وَآمنِّي فيہ مِنْ كُلِّ ما اَخافُ بِعِصْمَتِكَ ياعصمَةَ الْخائفينَ‘‘
خدایا! مجھے اس مہینے میں پردے اور پاکدامنی سے مزیّن فرما، اور مجھے کفایت شعاری اور اکتفا کا جامہ پہنا دے، اور مجھے اس مہینے میں عدل و انصاف پر آمادہ کردے۔ اور اس مہینے میں مجھے ہر اس شیئے سے امان دے جس سے میں خوفزدہ ہوتا ہوں، اے خوفزدہ بندوں کی امان۔
’’اَللّهُمَّ زَيِّنِّي فيہ بالسِّترِ وَالْعَفافِ‘‘ خدایا! مجھے اس مہینے میں پردے اور پاکدامنی سے مزیّن فرما۔
عیب جوئی یعنی دوسروں کے عیوب کو فاش کرنا ایسی بری صفت ہے جو انسان کے سکون و چین کو چھین لیتی ہے اور دوسروں کے نزدیک اسکے اعتبار کو ختم کر دیتی ہے اور ایسے آدمی کے نہ کسی سے تعلقات رہ پاتے ہیں اور نہ ہی دوستی باقی رہتی ہے۔
اسی عیب جوئی کے مقابلے میں عیب پوشی ہے جو ایک نیک اور اچھی صفت ہے۔
امام علی رضا علیہ السلام سے ایک شخص نے اپنے بھائی کی برائی کرنی چاہی تو آپ نے فرمایا: مت بیان کرو، چھپاو۔ (بحارالانوار، جلد ۲، صفحہ۵۸)
امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:اے اللہ کے بندو! کسی کا عیب بیان کرنے میں جلدی نہ کرو شاید خدا نے اسے معاف کر دیا ہو اور اپنے گناہ کو چھوٹا اور معمولی نہ سمجھو ممکن ہے اس پر تمہیں سزا دی جائے۔ لہذا تم میں سے جو کوئی بھی کسی کے عیب کو جانتا ہے اسے بیان نہ کرے۔ جس طرح انسان اپنے عیوب کو جانتے ہوئے بیان نہیں کرتا اسی طرح دوسرے کے بھی عیوب بیان نہ کرے۔ (خطبہ، نہج البلاغہ)
امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا مومن کے لئے بہتر ہے کہ اس میں خدا، رسول اور امام کی صفت پائی جانی چاہئیے۔ اللہ کی صفت ستار العیوب ہے لہذا مومن بھی کسی کے عیب کو ظاہر نہ کرے بلکہ چھپائے۔ (تحف العقول) اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جس طرح خدا نے تمہارے عیوب کو جانتے ہوئے کسی کو نہیں بتایا تمہارے اندر بھی الہی اخلاق پایا جانا چاہئیے کہ تم بھی کسی کے عیب بیان نہ کرو۔ (مصباح الشریعہ، جلد ۱، صفحہ ۷۰)
روایت میں ہے کہ دوسروں کے عیب چھپانا مومن کی نشانی ہے اور ظاہر کرنا منافق کی علامت ہے۔
ممکن ہے کہ بعض اذہان میں یہ سوال پیدا ہو کہ اگر اسی طرح عیوب کو چھپایا جاتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب برائیاں سماج کو گھیر لیں گی اور اس وقت اس سے بچ پانا مشکل ہوگا۔ تو ہمیں یاد رکھنا چاہئیے اسلام نے اسی عیب کو چھپانے کا حکم دیا ہے جو سماج اور معاشرہ کو تباہ نہ کرے لیکن اگر کوئی گناہ چھپ کر ہی کیوں نہ ہو لیکن اس کے برے اثرات سماج پر بھی پڑ یں تو اس کا ظاہر کرنا اور فریضہ نہی عن المنکر پر عمل مومن کے لئے ضروری ہے۔
لیکن انہیں اسلامی تعلیمات کے بر خلاف دورہ حاضر میں جو ہم روز آنہ دیکھ رہے ہیں وہ صرف ایک انسان نہیں بلکہ پورے سماج کےلئے اس قدر خطرناک ہے کہ اگر یہ سلسلہ ختم نہ ہوا تو نسلوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ آج کے اس سوشل میڈیا کے دور میں ہرانسان اس قدر آزاد ہے کہ کوئی بھی جعلی اکاوئنٹ اورفرضی آئی ڈی سے دوسروں کی توہین کرتا نظر آتا ہے۔ نہ کسی انسان کا احترام رہا اور نہ کسی مذہب کا۔ظاہر ہے استعمار کے بنائے ایپس سے خیر کی توقع عبث ہے۔افسوس کہ اکثریت اس انسان دشمن وبا کا شکار ہے۔ جس کا اثر یہ ہے کہ نہ صرف عیب بیان ہوتے ہیں بلکہ بہتان اور بے بنیاد الزام بھی رکھے جا رہے ہیں۔ نتیجہ میں احترام ختم ہو رہا ہے، حرمتیں پامال ہو رہی ہیں، غیرتیں مٹ رہی ہیں۔ گناہوں پر جراتیں بڑھ رہی ہیں لہذا ہم اہل ایمان کا فریضہ ہے کہ کم از کم خود پرہیز کریں اور جب ہر آدمی خود کو اس بیماری سے دور رکھے گا تو نہ صرف گھر بلکہ سماج میں نیکیوں کا بول بالا ہوگا۔
اسلام نے عام انسان کی بھی توہین کی اجازت نہیں دی ہے چہ جائیکہ اہل ایمان کی توہین ہو، بزرگان دین پر انگلی اٹھائی جائے۔ کتنے حیرت کی بات ہے کہ استعمارکے بنائے ایپس سے نام نہاد مصلحین اپنے مخالفین کو استعمار کے ایجنٹ کی سند دے رہے ہیں۔ نتیجہ میں ہر ایک گروہ اپنے علاوہ کو دشمن دین اور مخالف انسانیت بتاتا نظر آرہا ہے۔ لیکن یاد رہے فضائی اور ہوائی دنیا یعنی سوشل میڈیا میں پوسٹ کر کے انسان چاہے جتنے شیئر اور لائک بٹور لے لیکن اگر خدا نے اس کے عمل کو لائک(پسند) نہیں کیا تو یہ انسان دنیا و آخرت میں کسی لائق نہیں رہے گا۔
عیب پوشی کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بارگاہ معبود میں عفت کی دعا مانگی۔ عفت وہ کیفییت اور حالت ہے جو انسان کو حرام اور گناہ کرنے سے روکتی ہے اور انسان کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھتی ہے۔ آیات و روایات کی روشنی میں عفت کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں۔
۱۔ عفت جنسی یعنی نامحرم سے دوری۔
۲۔ لباس میں عفت۔ یعنی انسان ایسے کپڑے نہ پہنے جس سے اس کا جسم عیاں ہو۔ بدن سے چپکا لباس کہ کوی برہنہ بھی نہ کہے اور ذوق برہنگی کو بھی ٹھیس نہ پہنچے۔ افسوس کہ انسان اس میں اپنی عزت محسوس کرتا ہے۔ مقتل کی روایت ہے کہ روز عاشورا جب امام حسین علیہ السلام رخصت آخر کے لئے خیمہ میں آئے تو لباس کہنہ کا مطالبہ کیا تو ایسا کپڑا لایا گیا جو تنگ تھا آپ نے فرمایا : اسے لے جاؤ یہ (تنگ) لباس ذلیلوں کا لباس ہے۔
۳۔ معیشت و اقتصاد میں عفت۔ یعنی انسان سود اور ربا کا استعمال نہ کرے اور اللہ نے جسکی ادائگی اس پر واجب کی ہے اسے ادا کرے۔ جیسے خمس، فطرہ ، زکات وغیرہ
۴۔ گفتگو میں عفت: انسان جو بولے سچ بولے، اس کی گفتگو جھوٹ، چاپلوسی، چغلخوری، غیبت، برائی سے پاک ہو۔
اگر ہم عفت کے تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کریں گے تو نہ صرف ہماری ذاتی زندگی بلکہ گھریلو، سماجی، سیاسی، اقتصادی اور مذہبی زندگی میں بھی سنور جائے گی۔
’’وَاسْتُرني فيہ بِلِباسِ الْقُنُوعِ وَالكَفافِ‘‘ اور مجھے کفایت شعاری اور اکتفا کا جامہ پہنا دے۔
قناعت یعنی اللہ جتنا عطا کیا ہے اس پر راضی رہے ۔ جس کے نتیجہ میں اسے حیات طیب نصیب ہوتی ہے۔ اللہ اس سے راضی رہتا ہے۔ دنیا میں باعزت زندگی بسر کرتا ہے اور آخرت میں سرخرو ہوتا ہے۔
امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: عزت قناعت میں ہے۔ (میزان الحکمہ،جلد۸، حدیث۱۶۸۶۰ )
امیرالمومنین علیہ السلام نے ہی فرمایا: ’’اِقنَع بِما اوتیتَهُ َحِفَّ علیکَ الحساب‘‘ جو کچھ تمہیں ملا ہے اس پر قناعت کرو تاکہ قیامت میں تمہارا حساب آسان ہو۔ (میزان الحکمہ، جلد۹، صفحہ ۵۸۳)
قناعت کے ساتھ دوسری دعا کفاف ہے یعنی خدا مجھے اتنا دے جتنا میرے لئے کافی ہو۔ مال زیادہ آیا انسان خدا کو بھول گیا۔ غرور کا شکار ہو گیا، گناہوں میں گرفتار ہو گیا۔ اسی طرح اگر ضرورت سے کم ہوا یا دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر ذلت کا خریدار ہو گا یا پھر بغیر اجازت لوگوں کا مال استعمال کرے گا۔
’’وَاحْمِلني فيہ عَلَى الْعَدْلِ وَالْإنصافِ‘‘ اور مجھے اس مہینے میں عدل و انصاف پر آمادہ کردے۔
ماہ مبارک رمضان کی دعاؤں میں اکثر مقامات پر عدل و انصاف کا ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح سال کی دوسری دعاؤں میں بھی اس کا ذکر کثرت سے موجود ہے جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ہماری ذاتی ، گھریلو، سماجی، سیاسی ، اقتصادی زندگی میں کتنا اہم ہے۔
’’وَآمنِّي فيہ مِنْ كُلِّ ما اَخافُ بِعِصْمَتِكَ ياعصمَةَ الْخائفينَ‘‘ اور اس مہینے میں مجھے ہر اس شیئے سے امان دے جس سے میں خوفزدہ ہوتا ہوں، اے خوفزدہ بندوں کی امان۔
خوف کی دو قسمیں ہیں ایک خوف پسندیدہ ہے یعنی اللہ سے خوف جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیرالمومنین علیہ السلام کو خوف خدا کی نصیحت کی۔ (کافی، جلد ۸، صفحہ ۷۹) اسی طرح انسان کا گناہوں سے خوف، عذاب سے خوف نیک ہے ۔ لیکن دشمنان خدا سے خوف ناپسند ہے بلکہ اس سے حضورؐ نے منع بھی فرمایا ہے جسکا نمونہ قرآن میں بھی ہے اور احادیث میں بھی ہے۔