۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
چوتھے دن کی دعا

حوزہ/امریکہ کو اپنی ٹیکنالوجی کی طاقت پر بہت غرور تھا ایران نے گلوبل ہاک کو مار گرا کے بتایا کہ اصلی طاقت احکام خدا پر عمل سے آتی ہے؛ جس ڈرون طیارے کو ،ریڈار سے بھی دیکھا نہیں جاسکتا تھا اس کو مصلے کی نگاہوں نے دیکھ لیا۔

حوزہ نیوز ایجنسیl 
چوتھے دن کی دعا:اَللّهُمَّ قَوِّني فيہ عَلى اِقامَة اَمرِكَ وَاَذِقني فيہ حَلاوَة ذِكْرِكَ وَاَوْزِعْني فيہ لِأداءِ شُكْرِكَ بِكَرَمِكَ وَاحْفَظْني فيہ بِحِفظِكَ و َسَتْرِكَ يا اَبصَرَ النّاظِرينَ؛اے معبود آج کے دن مجھے تیرے امر کو برپا کرنے  کی طاقت عطا فرما اور مجھے اس دن اپنے ذکر کی مٹھاس کا مزہ عطا کر اور آج کے دن مجھے تیراشکر ادا کر نے کی توفیق دے اور مجھے اپنی پرده پوشی اور نگہداری میں محفوظ رکھ۔ اے دیکھنے والوں میں سب سے زیاده تیز بین۔

حل لغات :- شکر :-عربی میں شکر کہتے ہیں بھرجانے یا لبریز ہوجانے کی کیفیت کو ؛جیسے کہتے ہیں اشکر الضرع یا اشتکر الضرع ؛یعنی اونٹنی کے تھن کا دودھ سے بھرجانا۔عین شکری؛ یعنی آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھ ۔اشتکر الشجر؛ یعنی درخت کی جڑ میں سے شاخ کا نکلنا۔

جڑیں جب پانی سے لبریز ہوجاتی ہیں تو اس سے کونپل نکلتی ہے؛اسی طرح جب کسی کے بہتر سلوک اور احسانات کی بارش سے روح لبریز ہوجاتی ہے تو اس کے بعد منہ سے جو لفظیں نکلتی ہیں اس کو شکر کہتے ہیں۔

اَللّهُمَّ قَوِّني فيہ عَلى اِقامَة اَمرِكَ: اے اللہ اس مہینے میں مجھے تیرے امر کو برپا کرنے کی طاقت دے۔

طاقت کی دعا طاقت کے سرچشمے سے مانگی جارہی ہے؛ وہی تمام طاقتوں کا سرچشمہ ہے ؛نیکی کی طاقت بھی اسی سے ملتی ہے، برائی سے بچنے کی ہمت بھی وہی دیتا ہے، دعا اور عبادت کے پلیٹ فارم سے؛خدا سے دیکھئیے کیا چیز طلب کی جارہی ہے ؟ اے اللہ مجھے طاقت دے، مجھے مضبوط کر؛فارسی کہاوت ہے ؛طاقت مہماں نداشت خانہ بہ مہماں گذاشت ؛یعنی مہمان داری کی طاقت نہ تھی تو گھر ہی کو مہمان کے لئے چھوڑ دیا۔
ذرا سوچئیے آج آپ خدا سے کیا مانگ رہے ہیں ؟  طاقت !

یہ دعا آپ کو بہت چھوٹی اور بہت مختصر لگ رہی ہے لیکن جب اسکے فہم کی طاقت آئے گی تو آپ کو اس کی طاقت کا اندازہ ہوگا،طاقت کا الٹ ضعف ہے ضعف کا نتیجہ خوف ہے خوف کا لازمہ گوشہ نشینی ہے اور گوشہ نشینی کی سزا مرگ مفاجات ہے۔

آج تک اس دنیا میں کمزوروں بیماروں اور ناتواں لوگوں نے کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا، طاقت نہ ہو تو آپ علم حاصل نہیں کرسکتے، طاقت نہ ہو تو آپ عبادتوں کو انجام نہیں دے سکتے، طاقت نہ ہو تو سچائی اپنا مقام حاصل نہیں کرسکتی ،طاقت نہ ہو تو عبادتیں رہیں گی؛ لیکن وہ صرف ایک نظریہ کی صورت میں رہیں گی، حق رہے گا لیکن وہ ایک فلسفہ کی شکل میں رہے گا ،کسی کمزور کو اس کا حق اسی وقت مل سکتا ہے جب اس کی پشت پر کوئی طاقت ہو بلکہ حق کو بھی اس کا جائز مقام اسی وقت مل سکتا ہے جب اس کی پشت پر کوئی طاقت ہو ؛جیسا کہ امیرالمومنین(ع)  نے فرمایا : قَالَ عَبْدُ اللَّه بْنُ عَبَّاسِ-  رضي‌الله‌عنه - دَخَلْتُ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عليه‌السلام بِذِي قَارٍ وهُوَ يَخْصِفُ نَعْلَه فَقَالَ لِي مَا قِيمَةُ هَذَا النَّعْلِ فَقُلْتُ لَا قِيمَةَ لَهَا فَقَالَ عليه‌السلام واللَّه لَهِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ إِمْرَتِكُمْ  إِلَّا أَنْ أُقِيمَ حَقّاً أَوْ أَدْفَعَ بَاطِلًا ؛ عبداللہ بن عباس کا بیان ہے کہ میں مقام ذی قار میں امیر المومنین(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا جب آپ اپنی نعلین کی مرمت کر رہے تھے۔آپ نے فرمایا:ابن عباس !ان جوتیوں کی کیا قیمت ہے '؟ میں نے عرض کی کچھ نہیں! فرمایاکہ خدا کی قسم یہ مجھے تمہاری حکومت سے زیادہ عزیز(۱) ہیں مگریہ کہ حکومت کے ذریعہ میں کسی حق کو قائم کر سکوں یا کسی باطل کو دفع کرسکوں۔(نہج البلاغہ خطبہ نمبر۳۳)۔

دنیا طاقت کی زبان جانتی ہے اسی لئے دعا میں طاقت کو طلب کیا جارہا ہے اور حقیقی طاقت وہی ہے جس سے اللہ کی عبادت کی جائے جب عبادت کے لئے بندہ کمر بستہ ہوجاتا ہے یا عبادت کے لئے اس میں طاقت آجاتی ہے تو وہ تمام بُحرانوں کا مقابلہ از خود کرلے گا جو اللہ کے آگے مڑجائے گا وہ ایک دن دنیا کو موڑدے گا۔ طاغوتی طاقتیں مؤمن کو طاقتور دیکھنا نہیں چاہتیں؛ وہ چاہتی ہیں کہ مؤمن قوت کے خزانوں سے دور رہے۔

 مشہور واقعہ ہے کہ معاویہ نے ایک دن امیرالمومنین(ع) کی خدمت میں ایک سوال بھیجا کہ وہ دس چیزیں کونسی ہیں جو ایک دوسرے سے زیادہ سخت ہیں تو امام حسن( ع) نے کمسنی میں اسکا جواب دیا تھا کہ: پتھر سخت ہے، پتھر سے زیادہ لوہا سخت ہے، لوہے سے زیادہ آگ سخت ہے، آگ سے زیادہ پانی سخت ہے، پانی سے زیادہ بادل سخت ہے، بادل سے زیادہ ہوا سخت ہے، ہوا سے زیادہ ہوا کا فرشتہ سخت ہے، اس سے زیادہ ملک الموت سخت ہے، ملک الموت سے زیادہ خود موت سخت ہے، موت پر مشیت ہے اور مشیت ہم اہلبیت(ع) ہیں۔
معاویہ اس سوال کی آڑ میں یہ بتانا چاہتا تھا کہ، علی! دیکھو پتھر لوہا آگ اور پانی جیسی مادی طاقتیں میرے پاس ہیں، امام حسن(ع) نے مشیت کی طرف اس کے ذہن کو موڑ کے بتایا بیوقوف اصلی طاقت مشیت ہے۔

امریکہ کو اپنی ٹیکنالوجی کی طاقت پر بہت غرور تھا ایران نے گلوبل ہاک کو مار گرا کے بتایا کہ اصلی طاقت احکام خدا پر عمل سے آتی ہے؛ جس ڈرون طیارے کو ،ریڈار سے بھی دیکھا نہیں جاسکتا تھا اس کو مصلے کی نگاہوں نے دیکھ لیا۔

اللہ سے عبادت کے لئے طاقت مانگنا کوئی سادہ بات نہیں ہے یہ خود کو مشیت کے سر چشمہ سے جوڑدینا ہے۔

دعائے کمیل میں تھوڑے بہت لفظی اختلاف کے ساتھ یہی مفہوم ہے:قَوِّ عَلى خِدمَتِكَ جَوارِحي وَاشدُد عَلَى العَزيمَةِ جَوانِحي : (1)جوارح؛ (2) جوانح؛جوارح کہتے جسم کے ظاہری حصوں کو  اورجوانح کہتے ہیں جسم کے باطنی حصوں کو جیسے نیت دل ضمیر وجدان وغیرہ۔

اے اللہ تیری خدمت کے لئے میرے اعضاء و جوارح کو مضبوط کر؛ یہاں اللہ کی خدمت سے مراد اس کے بندوں کی خدمت  ہے یعنی اے اللہ تو اپنے بندوں کی خدمت کے لئے میرے اعضاء و جوارح کو قوت دے اور اس ارادے کے لئے میرے دل و دماغ کو  استقامت عطا کر ،آپ جانتے ہیں اسوقت" کرونا "کو لیکر تقریبا دنیا بھر میں لاک ڈاؤن چل رہا ہے بہترین فرصت ہے اپنے رب کی خدمت کیجئیے، اسکے  بندوں تک پہنچ کر اس کی قوت کے خزانوں تک پہنچ جائیے۔

وَاَذِقني فيہ حَلاوَة ذِكْرِكَ :اے اللہ مجھے اپنے ذکر کا مزہ چکھا۔

ذکر، نسیان کی ضد ہے امیرالمؤمنین(ع) نے امام حسن( ع) کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا : اُوصيكَ بِتَقْوَى اللّهِ ـ اَىْ بُنَىَّ ـ وَ لُزُومِ اَمْرِهِ، وَ عِمارَةِ قَلْبِكَ بِذِكْرِهِ؛ بیٹا اللہ سے ڈرو اور اپنے دل کی بستی کو اسکے ذکر سے آباد کرو ؛إِنَّ اَللَّهَ تَعَالَى جَعَلَ اَلذِّكْرَ جِلاءً لِلْقُلُوبِ؛اللہ نے اپنے ذکر کو دلوں کی جلاء قرار دیا ہے۔
مستقبل کا اندیشہ ناکامیوں کا خوف بیماریوں کا ڈر سب چھٹ جائے گا جلاء للقلوب کے یہی معنی ہیں۔

آنکھ میں سرمہ کیوں لگایا جاتا ہے ؟ تاکہ بینائی تیز ہو اچھا دیکھوگے تو اچھا سوچوگے جو اچھا دیکھ نہیں سکتا وہ اچھا سوچ بھی نہیں سکتا؛

خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

آنکھ کے لئے سرمہ کی جو حیثیت ہے دل کے لئے ذکر کی وہی حیثیت ہے۔

لوگ ویٹامین کی خوراک کیوں  لیتے ہیں ؟ جس طرح نیند کے باوجود تھکاوٹ کا رہنا ؛سر درد ،کمر درد ،مسلز کی تکلیف ،بالوں کا گرنا، بار بار انفکشن کا ہو جانا یہ سب ویٹامین کی کمی کی علامتیں ہیں اسی طرح نمازوں میں دل کا نہ لگنا، سستی ،کاہلی، ماں باپ کو بوجھ سمجھنا ،صلۂ رحمی نہ کرنا، پیسوں پہ جان دیدینا، یہ سب دل کے زنگ کی علامات ہیں، ذکر اس کا علاج ہے؛ آپ یقین مانیں کہ تین سال پہلے میں ڈیپریشن کے مہلک مرض میں مبتلا ہوگیا تھا اگرچہ شروعات تھی کئی ڈاکٹرز سے مشورہ کیا انہوں نے دوائیاں دیں دوائی کھاتا تو کچھ دیر کو آرام ملتا پھر وہی تپش پھر وہی بیچینی ایک دن قرآن مجید کی تلاوت کے دوران آیت سامنے آئی؛ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوا لِي وَ لا تَكْفُرُونِ‌؛تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا میں نے ذکر کرنا شروع کیا، میں نے اسکے اسمائے حسنیٰ کو یاد کیا؛ آج تین سال ہوگئے کوئی ٹیبلیٹ نہیں کھائی، جی ہاں! بہت سی بیماریاں غفلت کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔

الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ ﴿ سورة الأنعام سورة الأنعام82﴾جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو گناہ سے آلودہ نہ کیا تو انہی کے لئے سلامتی ہے( بیماری انہیں چھو نہیں سکتی) اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔

وَاَوْزِعْني فيہ لِأداءِ شُكْرِكَ بِكَرَمِكَ: اور اس مہینے میں اپنے کرم سے تیرا شکر ادا کرنے کی توفیق دے۔

کبھی آپ نے غور کیا کہ ہماری تینوں عظیم کتابیں لفظ الحمد سے کیوں شروع ہوئی ہیں ؟ یہ اسی شکر کا جذبہ ہے ،کیونکہ؛ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ ﴿ سورة ابراهیم7﴾اگر تم میرا شکر بجالاؤگے تو میں نعمتوں میں اضافہ کروں گا  ۔اس سلسلہ میں آئندہ ہماری گفتگو رہے گی ان شاء اللہ۔

وَاحْفَظْني فيہ بِحِفظِكَ و َسَتْرِكَ يا اَبصَرَ النّاظِرينَ: اور تو مجھے اپنی پناہ اور پردہ پوشی میں لے لے اے دیکھنے والوں میں سب سے زیادہ دیکھنے والے۔

اس میں دو اہم باتوں کا ذکر ہوا ہے :( (۱)پناہ ؛ (۲) پردہ پوشی۔

وہ پناہ نہ دے تو بیماریاں، وبائیں انسان اور شیاطین ہمیں جینے نہ دیں،وہ پردہ پوشی نہ کرے تو گناہوں کی شرمندگی ہمیں مارڈالے۔

غور کیجئیے کتنی اہم دعا ہے، پروردگار ہمیں اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرما۔آمین

تحریر: سلمان عابدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .