۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
ماہ صیام کے پانچویں دن کی دعا

حوزہ/جب استغفار قلبی تطہیر کا نام ہے تو اس کا پروسس بھی قلبی ہونا چاہئیے " استغفار " یعنی دل کی پکار نہ کہ لسانی تکرار لیکن دیکھنے میں اکثر لسانی تکرار ہی آتی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسیl 
پانچویں دن کی دعا: اَللّهُمَّ اجعَلني فيہ مِنَ المُستَغْفِرينَ وَاجعَلني فيہ مِن عِبادِكَ الصّالحينَ القانِتينَ وَاجعَلني فيہ مِن اَوْليائِكَ المُقَرَّبينَ بِرَأفَتِكَ يا اَرحَمَ الرّاحمينَ؛ اے معبود! مجھے اس مہینے میں مغفرت طلب کرنے والوں اور اپنے نیک اور فرمانبردار بندوں میں قرار دے اور مجھے اپنے مقرب اولیاء کے زمرے میں قرار دے، تیری رأفت کے واسطے اے مہربانوں میں سب سے زیادہ مہربان۔

حل لغات :- غفر :- یعنی چھپانا ڈھانکنا ؛عربی میں کہتے ہیں غفر الشیب بالخضاب یعنی سفید بالوں کو خضاب سے چھپانا ،استغفار یعنی بخشش طلب کرنا۔

اَللّهُمَّ اجعَلني فيہ مِنَ المُستَغْفِرينَ: اے اللہ اس دن مجھے استغفار کرنے والوں میں قرار دے۔

جس طرح نماز کا آغاز وضو سے سے ہوتا ہے اسی طرح روزہ کا آغاز سحری سے نہیں بلکہ استغفار سے ہوتا ہے وضو کیا ہے ؟ ظاہری تطہیر استغفار کیا ہے ؟ باطنی تطہیر، تطہیر یعنی پیوریفیکیشن  اور پیوریفیکیشن کے بغیر نہ کوئی نماز؛ نماز ہے اور نہ کوئی روزہ؛ روزہ ہے ۔

اگر نماز اور حج کی طرح روزہ کے بھی ارکان ہوتے تو آغاز میں اس کے لئے بھی شریعت کی طرف سے ظاہری تطہیر کا کوئی بندوبست ہوتا چونکہ روزہ کا تعلق سراسر انسان کے دل اور اس کی نیت سے ہے اس لئے استغفار پر زیادہ زور دیا گیا ہے ۔

جب استغفار قلبی تطہیر کا نام ہے تو اس کا پروسس بھی قلبی ہونا چاہئیے " استغفار " یعنی دل کی پکار نہ کہ لسانی تکرار لیکن دیکھنے میں اکثر لسانی تکرار ہی آتی ہے مثلا نذر و نیاز ایک مستحسن عمل ہے ،جنوبی ہندوستان میں اس کا طریقہ یہ ہے کہ جہاں نیاز دلانی ہوتی ہے وہاں ایک پاک صاف جگہ پر کچھ شیرینی وغیرہ رکھدی جاتی ہے اور مولوی صاحب یا کوئی دیندار آدمی ہاتھوں کو بہ سمت شیرینی اٹھا کر زور سے کہتا ہے :نیت خیر فاتحہ ۔

اسی طرح توبہ و استغفار کے وقت دیکھا گیا ہےکہ کچھ لوگ اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں رخساروں پر مارتے ہیں اور بعض کو ایک ہی ہاتھ سے کبھی اس رخسار پر مارتے دیکھا کبھی اس رخسار پر مارتے دیکھا  گیاہے، بعض لوگوں کو اپنے کان پکڑتے دیکھا ہے وہ کان پکڑ کر کہتے ہیں اللہ معافی دے؛ اور پھر حرکتیں بدستور جاری رہتی ہیں، یہ استغفار نہیں استغفار کے نام پر دین کا مذاق ہے، امیرالمؤمنین(ع) کے سامنے جب ایک شخص نے " استعفراللہ " کہا تو آپ نے فرمایا  : وَ قَالَ (عليه السلام) : لِقَائِلٍ قَالَ بِحَضْرَتِهِ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ ، ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ ، أَ تَدْرِي مَا الِاسْتِغْفَارُ ، الِاسْتِغْفَارُ دَرَجَةُ الْعِلِّيِّينَ ، وَ هُوَ اسْمٌ وَاقِعٌ عَلَى سِتَّةِ مَعَانٍ ، أَوَّلُهَا النَّدَمُ عَلَى مَا مَضَى ، وَ الثَّانِي الْعَزْمُ عَلَى تَرْكِ الْعَوْدِ إِلَيْهِ أَبَداً ، وَ الثَّالِثُ أَنْ تُؤَدِّيَ إِلَى الْمَخْلُوقِينَ حُقُوقَهُمْ حَتَّى تَلْقَى اللَّهَ أَمْلَسَ لَيْسَ عَلَيْكَ تَبِعَةٌ ، وَ الرَّابِعُ أَنْ تَعْمِدَ إِلَى كُلِّ فَرِيضَةٍ عَلَيْكَ ضَيَّعْتَهَا فَتُؤَدِّيَ حَقَّهَا ، وَ الْخَامِسُ أَنْ تَعْمِدَ إِلَى اللَّحْمِ الَّذِي نَبَتَ عَلَى السُّحْتِ فَتُذِيبَهُ بِالْأَحْزَانِ حَتَّى تُلْصِقَ الْجِلْدَ بِالْعَظْمِ وَ يَنْشَأَ بَيْنَهُمَا لَحْمٌ جَدِيدٌ ، وَ السَّادِسُ أَنْ تُذِيقَ الْجِسْمَ أَلَمَ الطَّاعَةِ كَمَا أَذَقْتَهُ حَلَاوَةَ الْمَعْصِيَةِ ، فَعِنْدَ ذَلِكَ تَقُولُ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ ؛[نہج البلاغہ حکمت ۴۱۷]تیری ماں تجھے روئے یہ استغفار بلند ترین لوگوں کا مقام ہے اور اس کے مفہوم میں چھ چیزیں شامل ہیں :

1:- ماضی پر شرمندگی ؛

2:- آئندہ نہ کرنے کا عزم ؛

3:- حقوق الناس کا ادا کرنا کہ کسی کا حق تمہاری گردن پہ نہ ہو اور کوئی تم سے اپنے حق کا مطالبہ نہ کرے؛

4:- جس فریضہ کو ضائع کیا ہے اسکو مکمل طور پر ادا کرنا ؛

5:- جو گوشت مال حرام سے اُگا ہے اسے رو رو کے پگھلادینا یہاں تک کہ کھال ہڈی سے چپک جائے اور نیا گوشت پیدا ہوجائے ؛

6:- جسم کو اسی طرح اطاعت کا مزہ چھکانا جس طرح  گناہ کا مزہ چکھایا تھا ؛

اس کے بعد کہو" استغفر اللہ "۔

آپ نے کبھی کُہرا (Fog) دیکھا ہے ؟ جنوب میں بہت کم   جبکہ شمال ہند میں یہ زیادہ ہوتا ہے ہم نے دلی میں دیکھا ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا  تو کُہرے کی دو قسمیں ہیں :ایک خارجی کہرا؛اور ایک داخلی کہر ا۔

خارجی کہرا دھوپ سے جاتا ہے اور داخلی کہرا استغفار سے دور ہوتا ہے اسی لئے آج جو چیز طلب کی جارہی ہے وہ روزہ کو مقبول بنانے والا عمل ہے، اللہ ہمیں اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ استغفار کرنے کی توفیق دے کہ یہ مہینہ ماہ توبہ و استغفار ہے اس مہینے سے لینے کی چیز ’’تقوی‘‘ ہے،لیکن ہم میں سے اکثر لوگ اس مہینے سے صرف بھوک پیاس نچوڑتے ہیں ؛ اللہ معاف کرے۔

وَاجعَلني فيہ مِن عِبادِكَ الصّالحينَ القانِتينَ: اور مجھے اپنے نیک اور فرماں بردار بندوں میں قرار دے۔

نیک بندے کا مطلب ہم سمجھتے ہیں صوم و صلات کی پابندی کرنے والا اور بس نہیں ایسا نہیں ہے  ؛دعا میں دو لفظیں آئی ہیں ؛ایک صالح

اور ایک قانت ،صالح اس شخص کو کہتے ہیں جو ہمیشہ اپنا کام ٹھیک طور پر انجام دیتا ہو جو اپنے کام کو بگڑنے نہ دیتا ہو اب ذرا غور کیجئیے کہ یہ دعا کتنی اہم ہے، اپنے امور کو درست طور پر انجام دینا یہ زندگی کی منطق ہے، اور " قانت "کہتے ہیں نماز میں دیر تک کھڑے رہنے والے کو اسی سے" قنوت " ہے قنوت کا مطلب ہے نماز میں اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر اللہ کے سامنے اپنی خاکساری اور تواضع کا اظہار کرنا۔

وَاجعَلني فيہ مِن اَوْليائِكَ المُقَرَّبينَ بِرَأفَتِكَ يا اَرحَمَ الرّاحمينَ: اور مجھے اپنے مقرب اولیاء کے زمرے میں قرار دے، اپنی مہربانی سے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

مقرب اولیاء یعنی نزدیک ترین دوست جس طرح  کپڑے کا آستر ہوتا ہے نا ؟  آستر بدن سے کتنا نزدیک ہوتا ہے اسی طرح اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں جو اللہ سے بہت نزدیک ہیں ،اللہ یوں تو سبھی نیک بندوں سے محبت کرتا ہے لیکن کچھ بندے ایسے ہیں جنکا وہ محب ہوگیا ہے، وہ ان کے فراق کو برداشت نہیں کرتا لہذا وہ ادھر سےکہتا ہے  :«يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعي‏ إِلى‏ رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلي‏ في‏ عِبادي وَ ادْخُلي‏ جَنَّتي‏» [فجر/30-27]اور یہ ادھر سے کہتا ہے : صَبَرْتُ عَلى عَذابِكَ فَكَيْفَ اَصْبِرُ عَلى فِراقِكَ ؛میں تیرے عذاب کو اگر برداشت بھی کرلوں تو تیرے فراق کو کیسے برداشت کروں گا؟

رافت کہتے ہیں وہ رحمت کہ جس میں شدت ہو؛ واقعی اس کی رحمت ایسی ہی ہے۔اور ہم اسکی بارگاہ سے اسی شدید رحمت کے طلبگار ہیں۔ آمین

تحریر: سلمان عابدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .