حوزہ نیوز ایجنسیl
تیسرے دن کی دعا :اَللّهُمَّ ارْزُقني فيہ الذِّهنَ وَالتَّنْبيہ وَباعِدْني فيہ مِنَ السَّفاهَۃ وَالتَّمْويہ وَاجْعَل لي نَصيباً مِن كُلِّ خَيْرٍ تُنْزِلُ فيہ بِجودِكَ يا اَجوَدَ الأجْوَدينَ؛اے معبود! آج کے دن مجھے ہوش اور آگاہی عطا فرما مجھے ہر طرح کی نا سمجھی اور بے راہ روی سے بچا کے رکھ اور مجھ کو ہر اس بھلائی میں سے حصہ دے جو آج تیری عطاؤں سے نازل ہو، اے سب سے زیادہ عطا کرنے والے۔
حل لغات :- ذھن :-عربی میں ذہن کہتے ہیں عقل کی قوت اور عقل کی تیزی کو جیسے عرب کہتے ہیں؛ما برجلی ذہن ؛یعنی میرے پیروں میں چلنے کی قوت نہیں ہے۔
ذہن اور شعور ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ،علوم کے حاصل کرنے کی استعداد کو ذہن کہتے ہیں اور اسکی جودت کو فطانت فراست اور ذہانت کہتے ہیں ۔
لفظ " توسم " بھی اسی کے زمرے میں آتا ہے جیسے قرآن مجید کی آیت کریمہ :إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِينَ ﴿ سورة الحجر 75﴾ بیشک اس قصہ میں اہل فراست کے لئے نشانیاں ہیں۔
ذہن کو فارسی میں آگاہی کہتے ہیں اور لفظ "آگاہی" اردو میں سب سے پہلے عہدِ قطب شاہی میں گولکنڈا کے ممتاز شاعر غواصی نے تین معرکة الآراء مثنویاں لکھیں" سیف الملوک " " بدیع الجمال " اور " طوطی نامہ " غواصی نے اپنی آخر الذکر مثنوی طوطی نامہ میں لفظ آگاہی کو فارسی سے اردو میں داخل کیا اور بعد کو قطب شاہ نے بھی اپنی کلیات میں اس کا استعمال کیا ،یوں کمسنی میں ہی آگاہی سے اردو کی ملاقات ہوئی-
اَللّهُمَّ ارْزُقني فيہ الذِّهنَ وَالتَّنْبيہ :اے اللہ آج کے دن مجھے ہوش اور آگاہی عطا فرما -
آج کی دعا میں ساحت قدس الہی سے جو چیز طلب کی جارہی ہے وہ نہایت اہم ہے کیونکہ فرد ہو یا قوم جب تک آگاہی اس کے اندر نہ ہوگی وہ ترقی نہیں کرے گی یہاں جس آگاہی کو طلب کیا جارہا ہے وہ جامع اور ہمہ جہتی آگاہی ہے مانگنے والا کوئی عام بندہ نہیں ہے کہ محدود سطحی اور ناقص آگاہی طلب کرے جو خود کائنات سے آگاہ ہو وہ جب اپنے لئے آگاہی طلب کرے تو سوچئیے وہ کتنی جامع مطلق کامل و اکمل آگاہی ہوگی معصوم جس ارفع و اعلی آگاہی کو طلب کررہا ہے اس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے لیکن اس کی ایک جھلک ہم نے باقر الصدرؒ کی آگاہی میں دیکھی شہید مطہریؒ کی بصیرت میں دیکھی قاسم سلیمانیؒ کی فطانت و فراست میں دیکھی آخر وہ شخص کتنا بڑا آگاہ و بیدار تھا جسے گھات لگا کر وقت کے سوپر پاور نے مارا ؟ آنکھیں ہم بھی رکھتے ہیں وہ بھی رکھتا تھا دماغ ہم بھی رکھتے ہیں وہ بھی رکھتا تھا لیکن وہ ایسا کیا دیکھ رہا تھا وہ ایسا کیا سوچ رہا تھا کہ دنیا اس سے فکر مند تھی ، حسن نصر اللہ سے دنیا کیوں خائف ہے؟ خامنہ ای سے ایک عالم کیوں سہما ہوا ہے ؟ آخر یہ لوگ کس قسم کی آگاہی رکھتے ہیں ؟
امیرالمومنین( ع} کی خدمت میں ایک شخص نے رات کی تاریکی میں شہد میں گندھا ہوا حلوہ پیش کیا حلوہ بھیجنے کا مقصد تھا میٹھا دباؤ؛ دنیا ذلیل چیزیں دے کے کیا کچھ نہیں منواتی، بندہ اگر حقیقی آگاہی اپنے رب سے طلب کر لے تو اسکی آنکھوں سے پردے اٹھ جائیں گے حلوہ میرے اور آپ کے لئے حلوہ ہوتا ہے معصوم کی نگاہیں جانتی ہیں کس نیت سے گوندھا گیا ہے، علی( ع) نے کہا: كَأَنَّمَا عُجِنَتْ بِرِيقِ حَيَّةٍ؛ مجھے ایسی گھن آئی کہ محسوس ہوا وہ سانپ کی قئے یا اسکی جھاگ سے گندھا ہوا ہے،پھر فرمایا: وَ اَللَّهِ لَوْ أُعْطِيتُ اَلْأَقَالِيمَ اَلسَّبْعَةَ بِمَا تَحْتَ أَفْلاَكِهَا عَلَى أَنْ أَعْصِيَ اَللَّهَ فِي نَمْلَةٍ أَسْلُبُهَا جُلْبَ شَعِيرَةٍ مَا فَعَلْتُهُ؛اگر ہفت اقلیم بھی ان جیزوں سمیت جو زمین و آسمان کے درمیان ہیں مجھے دے دئے جائیں اور کہا جائے کہ میں چیونٹی کے منہ سے جَو کا ایک چھلکا چھین لوں تو کبھی ایسا نہیں کروں گا ۔[ نهج البلاغة ، جلد۱ ،صفحه۳۴۶] آج امریکہ کی ہر پیشکش کو ٹھکرانے کا مطلب ہے ہم علی(ع) کے نقش قدم پر گامزن ہیں آگاہی دکھائی دینے والی چیزوں کو دیکھنے کا نام نہیں بلکہ نہ دکھائی دینے والی چیزوں کو دیکھنے کا نام ہے؛ حلوہ میں سانپ کا تھوک دیکھنا آگاہی ہے بجلی کے تاروں میں برقی رَو کو دیکھنے کا نام آگاہی ہے، ذرے کے جگر میں خورشید کا لہو دیکھنے کو آگاہی کہتے ہیں ظاہر کے پردوں کو چیر کے باطن کے حقائق تک پہنچنے کا نام آگاہی ہے ۔
کل کے حلوے اور آج کے پیکیج میں کوئی فرق ہے؟ حدیث میں ہے ؟قَالَ اَلنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ : اَلْمُؤْمِنُ كَيِّسٌ فَطِنٌ حَذِرٌ؛مومن آگاہ بیدار اور باخبر ہوتا ہے۔
سیاسی سماجی ثقافتی اور علمی آگاہی سے اسکے دل و دماغ لبریز رہتے ہیں ؛بَصِيراً بِزَمَانِهِ؛ اپنے زمانہ کے حالات سے باخبر ہوتا ہے،اپنے ارد گرد کے حالات سے باخبر ہونا کوئی سادہ بات نہیں ہے بلکہ ذہن کا کمال ہے انسان کبھی سیاست کے دھوکے میں آجاتا ہے کبھی مذہب کے فریب میں آجاتا ہے، داعش نے قتل و غارت گری کا جو بازار گرم کیا تھا وہ مذہبی فریب تھا مگر بھیڑ بکری صفت لوگ اس کی زد میں آگئے اور اس کے نتیجے میں جو ہوا وہ ناقابل بیان ہے لہذا ہر لمحہ اور ہر آن چوکس رہنے کی ضرورت ہے اور اپنے رب سے آگاہی کی دعا کرتے رہنا چاہیئے-
وَباعِدْني فيہ مِنَ السَّفاهَۃ وَالتَّمْويہ :اور مجھے ہر طرح کی ناسمجھی اور بے راہ روی سے بچائے رکھ ۔
ذہانت اور آگاہی کی ضد ہے سفاہت اور ناسمجھی اور ضروری نہیں کہ سر پہ بڑی دستار ہو تو وہ شخص احمق اور بیوقوف نہ ہوگا ؛کیونکہ علم "قاتل جہالت" ہے "مانع سفاہت "نہیں ہے۔
ڈاکٹر، انجینیئر، مولوی، حجام ان میں سے ہر ایک بیوقوف ہوسکتا ہے بلکہ بیوقوفی کا عنصر پڑھے لکھے لوگوں میں کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے، آپ میری اس بات سے اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن میرا مشاہدہ یہی کہتا ہے ،میں نے امریکہ میں بیوقوف دیکھے، یورپ میں بیوقوفوں کی نرسری دیکھی ؛
آخری بیوقوف مجھے کہیں نہیں ملا ۔
انیس سو بیس 1920 کے غیر منقسم ہندوستان میں دہلی میں خلافت تحریک کا زور و شور تھا اس زمانے میں شاعروں قوالوں اور گویوں نے ایک نعرہ لگایا : چلو مسلمانوں سوئے کابل؛ امیر صاحب بلارہے ہیں۔
کہتے ہیں اٹھارہ ہزار مسلمان اپنا گھر بار بیچ کر دہلی سے کابل کے لئے روانہ ہوگئے جب وہاں پہنچے تو امیگریشن کے افسروں نے ان کی شان نزول پوچھی تو جواب دیا ہمیں امیر صاحب نے بلایا ہے امیر صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا ایسی کوئی قرار داد ہم نے کسی سے کی ہی نہیں غرض وہ سب وہاں سے ناکام و نامراد واپس دہلی پھیج دئیے گئے ۔
یہ صرف اس زمانہ کا قصہ نہیں ہے بلکہ آج بھی ہر آئے دن ہم میں سے کتنے لوگ ایسی احمقانہ حرکتیں کرتے رہتے ہیں ،کھیل کا گراؤنڈ ہو یا سیاست کا میدان،گھر کے اندر کے جھگڑے ہوں یا گھر کے باہر کے فیصلے،جاگیر کا تنازعہ ہو یا کاروبار کا مسئلہ ،بچوں اور بچیوں کے رشتہ کا معاملہ ہو یا شادی کے بعد پیش آنے والے مسائل کا مرحلہ ،ہم سے ناسمجھیاں ہوتی رہتی ہیں؛ اب سوچئیے آج کے دن کی دعا کتنی اہم ہے ؛اے اللہ مجھے ہر قسم کی ناسمجھی سے بچائے رکھ۔
وَاجْعَل لي نَصيباً مِن كُلِّ خَيْرٍ تُنْزِلُ فيہ بِجودِكَ يا اَجوَدَ الأجْوَدينَ:اور مجھ کو ہر اس بھلائی میں سے حصہ دے جو آج تیری عطاؤں سے نازل ہو ۔
کتنی پیاری دعا ہے؛ بندہ ہر وقت اپنے رب کے احسانات کا محتاج ہے ایک لمحہ کے لیے اسکا احسان رک جائے تو دنیا ہلاک ہوجائے، مادی احسانات سے لیکر معنوی اور روحانی احسانات تک ایک اتھاہ اور وسیع سلسلہ ہے۔
عدم کو جس نے وجود بخشا
وجود کو پھر نمود بخشا
نمود کو تازگی عطا کی
عطا کی حد حشر سے ملادی
میرے ایک دوست ہیں ڈاکٹر مرتضی وہ ایک دن کہہ رہے تھے مولانا ہماری ایک آنکھ پر دن میں چھ سو بیماریاں حملہ آور ہوسکتی ہیں یہ اس کی رحمت ہے جو ہم محفوظ ہیں ۔
اب ذرا سوچئیے آج کی دعا کتنی اہم ہے۔
امیرالمومنین (ع )دعائے کمیل میں فرماتے ہیں: وَ انْ تُوَفِّرَ حَظِّی مِنْ کُلِّ خَیْرٍ تُنْزِلُهُ، اوْ إِحْسانٍ تُفْضِلُهُ، اوْ بِرٍّ تَنْشُرُهُ اوْ رِزْقٍ تَبْسُطُهُ ، اوْ ذَنْبٍ تَغْفِرُهُ اوْ خَطَأٍ تَسْتُرُهُ؛ اور میرے لیے وافر حصہ قرار دے ہر اس خیر میں جسے تو نے نازل کیا یا ہر اس احسان میں جو تو نے کیا یا ہر نیکی میں جسے تو نے پھیلایا رزق میں جسے تو نے وسیع کیا یا گناہ میں جسے تو معاف نے کیا یا غلطی میں جسے تو نے چھپایا۔
اے اللہ آج کے دن جو تو خیر و بھلائی بانٹ رہا ہے اس میں میرا بھی ایک سہم قرار دے ۔آمین
تحریر: سلمان عابدی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔