۲۵ آذر ۱۴۰۳ |۱۳ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 15, 2024
مولانا سید روح ظفر رضوی 

حوزہ/ مولانا سید روح ظفر رضوی نے کہا: اگر آسان لفظوں میں بصیرت کی تعریف کی جائے تو بصیرت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو خدا کا بندہ جانے، بصیرت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ انسان خدا کے علاوہ دوسروں کا پاس و لحاظ کرے بلکہ بصیرت یعنی انسان صرف اور صرف اللہ کا بندہ ہے اور اللہ کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ممبئی/ مولانا سید روح ظفر رضوی نے شیعہ خوجہ جامع مسجد پالا گلی میں خطبہ نماز جمعہ میں کہا کہ تقوی الہی ہماری سب سے بڑی اور عظیم ذمہ داری ہے جسے ائمہ معصومین علیہم السلام نے ہمارے لئے معین فرمایا ہے کہ ہمیشہ انسان کو تقوی الہی کے زیر سایہ زندگی گزارنا چاہیے۔ تقوی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان آنکھوں کو بند کر کے زندگی گزارے، تقوی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی آنکھیں بھی کھلی ہوں اور انسان کا دل بھی کھلا ہوا ہو، دل پر غفلت نہ طاری ہو اور آنکھیں بند بھی نہ ہوں، بصیرت کے ساتھ انسان کو زندگی گزارنا چاہیے بصیرت اور بصارت میں فرق ہے، آنکھوں سے دیکھنے کو بصارت کہتے ہیں اور دل کی آنکھوں سے دیکھنے کو بصیرت کہتے ہیں۔

مولانا سید روح ظفر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی حدیث "نابینا وہ نہیں جس کی آنکھیں اندھی ہوں بلکہ نابینا وہ ہے جس کا دل مردہ ہو۔" کو ذکر کرتے ہوئے کہا: جس کے دل کی آنکھیں خاموش اور بند ہوں وہ اندھا ہے۔ مولائے متقیان علی ابن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: "آنکھوں کی روشنی کا کھونا دل کی روشنی کے کھونے سے آسان ہے۔" امیر المومنین علیہ السلام کا ہی ارشاد ہے "ان آنکھوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے یہ آنکھیں بے فائدہ ہیں اگر انسان کے دل کی آنکھیں بند ہوں، دل کی آنکھیں اگر روشن ہیں تو انسان کی زندگی کا فائدہ ہے۔" یعنی اگر بصیرت نہیں ہے، دل کی آنکھیں بند ہیں تو پھر انسان کی زندگی بے فائدہ ہے۔ توجہ رہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام نے تاکید فرمائی ہے کہ دل کی آنکھوں سے زندگی گزارو صرف ان آنکھوں سے زندگی گزارنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔

مولانا سید روح ظفر رضوی نے کہا: اگر آسان لفظوں میں بصیرت کی تعریف کی جائے تو بصیرت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو خدا کا بندہ جانے، بصیرت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ انسان خدا کے علاوہ دوسروں کا پاس و لحاظ کرے بلکہ بصیرت یعنی انسان صرف اور صرف اللہ کا بندہ ہے اور اللہ کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہے۔ اگر انسان اس طریقے سے اپنی زندگی میں قدم بڑھائے گا تو پھر کوئی شیطانی طاقت اس پر تسلط اور قبضہ نہیں کر سکتی، کوئی طاقت انسان کے اوپر مسلط نہیں ہوگی اور اگر انسان اس سے ہٹ گیا، اگر اپنے آپ کو خدا کا بندہ نہیں سمجھے گا تو پھر مقابلے میں شیطان ہے، یہ انسان شیطان کا بندہ ہے اور شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے۔

مولانا سید روح ظفر رضوی نے کہا: جو انسان شیطان کا بندہ بن جاتا ہے تو شیطان اس کے سامنے دنیا کو سجا سنوار کر پیش کرتا ہے کہ وہ گناہ کو گناہ نہیں سمجھتا، جھوٹ کو گناہ نہیں سمجھتا، غیبت کو گناہ نہیں سمجھتا، ایسا انسان دنیا کی محبت میں ایسا گرفتار ہوتا ہے کہ وہ گناہوں کے دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے، دنیا کے محبت اسے گمراہی میں ڈال دیتی ہے۔ اسی طرح جو انسان غور و فکر نہیں کرتا، تفکر نہیں کرتا وہ بھی گمراہی کی جانب گامزن ہو جاتا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .