حوزہ نیوز ایجنسی I امام زین العابدین علیہ السلام صحیفہ سجادیہ میں خداوندِ متعال سے اس طرح دعا کرتے ہیں: «اَللَّهُمَّ لَکَ الْحَمْدُ عَلَی سِتْرِکَ بَعْدَ عِلْمِکَ.»
"اے خدا! تیرا شکر ہے کہ تو ہمارے گناہوں کو جاننے کے باوجود انہیں چھپاتا ہے!"
وضاحت:
اللہ کا بندہ ہونے کا ایک اہم وصف یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی صفات کا عکس بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ان کے حواریوں نے پوچھا:
"ہمیں کس کے ساتھ بیٹھنا چاہیے؟"
تو آپ نے فرمایا: «مَنْ یُذَکِّرُکُمُ اَللَّهَ رُؤْیَتُهُ.»
"ایسے شخص کے ساتھ بیٹھو جسے دیکھ کر تمہیں خدا یاد آ جائے۔"
اللہ تعالیٰ، باوجود اس کے کہ وہ ہر عیب و گناہ کو جانتا ہے اور قدرت رکھتا ہے کہ ہمیں سب کے سامنے رسوا کر دے، لیکن وہ ایسا نہیں کرتا، بلکہ ہمارے گناہوں کو چھپا لیتا ہے۔
اب سوال یہ ہے:
کیا ایک سچا بندہ، جو اللہ کے رنگ میں رنگا ہو، کیسے لوگوں کے عیب ظاہر کرتا پھرے؟
کیا وہ اللہ کی اس صفت کو اپنے اندر پیدا نہیں کرے گا؟
جو بندہ واقعی خدا کا ہے، وہ لوگوں کی پردہ پوشی کرتا ہے، نہ کہ رسوائی۔
اللہ کے نزدیک بندوں کے عیبوں کو چھپانا اتنی بڑی نیکی ہے کہ وہ چاہتا ہے اس کے بندے بھی اس صفت کو اپنائیں۔
اسی لیے امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «مَنْ سَتَرَ عَوْرَةَ مُؤْمِنٍ سَتَرَ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَوْرَتَهُ یَوْمَ اَلْقِیَامَةِ وَ مَنْ هَتَکَ سِتْرَ مُؤْمِنٍ هَتَکَ اَللَّهُ سِتْرَهُ یَوْمَ اَلْقِیَامَةِ.»
"جو مؤمن کے عیب کو چھپاتا ہے، اللہ قیامت کے دن اس کے عیب چھپائے گا؛ اور جو کسی مؤمن کو رسوا کرے، اللہ قیامت میں اسے رسوا کرے گا۔"
پس، جیسا ہم دوسروں کے ساتھ سلوک کرتے ہیں، ویسا ہی اللہ ہمارے ساتھ کرے گا۔
اگر ہم واقعی بندگی کے راستے پر چلنا چاہتے ہیں اور عیب چھپانے والی صفت کو اپنانا چاہتے ہیں،
تو ہمیں دوسروں کے عیب تلاش کرنے کے بجائے، اپنے عیبوں پر نظر رکھنی چاہیے۔
امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: «مَنْ أَبْصَرَ عَیْبَ نَفْسِهِ شُغِلَ عَنْ عَیْبِ غَیْرِهِ.»
"جو شخص اپنے عیبوں کو دیکھتا ہے، اسے دوسروں کے عیب دیکھنے کی فرصت نہیں ملتی۔"
یعنی اگر ہم اپنی اصلاح میں لگ جائیں، تو دوسروں کے عیب ہمارے لیے اہم نہیں رہیں گے۔
یہ بات ہرگز اس معنی میں نہیں کہی گئی کہ ہم دوسروں کے گناہوں اور غلطیوں سے بالکل غافل ہو جائیں۔
کیونکہ گناہ، خدا سے دُوری کا باعث ہے۔
ایک سچا بندۂ خدا، دوسرے بندے کی گمراہی یا خدا سے دُوری کو برداشت نہیں کر سکتا۔
لہٰذا، اگر کسی سے کوئی خطا دیکھے تو محبت اور خیر خواہی سے، خفیہ طور پر، اسے اس کی غلطی بتا دے۔
اسی لیے امام جعفر صادق علیہ السلام ایک بہت پیاری بات فرماتے ہیں: «أَحَبُّ إِخْوَانِی إِلَیَّ مَنْ أَهْدَی إِلَیَّ عُیُوبِی.»
"میرے سب سے محبوب دوست وہ ہے جو میرے عیب مجھے بطورِ تحفہ پیش کرے۔"









آپ کا تبصرہ