حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین محمد ہادی فلاح نے اپنے ایک خطاب میں "تحییر اور تحیّر یعنی دوسروں پر اعتراض اور تنقید کرنے" کے موضوع پر گفتگو کی ہے جو آپ حضرات دانشوروں کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔
بسم الله الرحمن الرحیم؛ "تحییر" اور "تحیّر"؛ یعنی دوسروں پر اعتراض اور تنقید کرنا، جب نفسانی خواہشات کی بنیاد پر کیا جائے تو یہ ایک اخلاقی برائی ہے۔
بعض اوقات انسان دوسروں کی ہدایت یا ان کی اصلاح کے بجائے، محض اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے دوسروں پر اعتراض کرتا ہے۔
درحقیقت، اس کا مقصد بھلائی نہیں ہوتا، بلکہ صرف اپنے دل کو تسلی دینا ہوتا ہے۔ ایسی عیب جوئی اور تنقید کی بہت سی جڑیں حسد، خودغرضی، خود پسندی اور خود کو برتر سمجھنے میں پنہاں ہیں۔
انسان حسد کی بنا پر دوسرے پر تنقید کرتا ہے، یا خود بینی اور اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے دوسروں پر اعتراض کرتا ہے۔
چونکہ تحییر اور تحیّر سماجی برائیوں میں سے ہے، اس کے بہت سے سماجی اثرات ہیں۔ میں یہاں اس کے دو تین سماجی اثرات بیان کروں گا اور پھر اس کے انفرادی اثرات کی طرف بھی اشارہ کروں گا۔
· تحییر اور تنقید کے سماجی اثرات و نتائج
اس برائی کا پہلا سماجی اثر یہ ہے کہ یہ معاشرے کے اعتماد اور عزتِ نفس کو کمزور کرتی ہے۔
اگر کسی معاشرے میں یہ عادت ڈال لی جائے کہ لوگ مسلسل ایک دوسرے پر اعتراض کریں اور نکتہ چینی کریں، تو یہ رویہ آہستہ آہستہ ایک کلچر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
ایسے معاشرے میں اجتماعی عزتِ نفس کم ہو جاتی ہے، باہمی اعتماد اور احترام کا جذبہ کمزور پڑ جاتا ہے اور افراد خود کو بے قدر اور ناتوان محسوس کرنے لگتے ہیں۔
دوسرا اثر یہ ہے کہ یہ معاشرے کو اجتماعی کاموں میں ناکام اور ناتوان بنا دیتی ہے۔
فرض کریں کہ کوئی معاشرہ کسی مسئلے کا سامنا کر رہا ہے اور اسے اجتماعی تعاون سے اسے حل کرنا ہے۔ لیکن تنقید کی یہ برائی، افراد کے رویوں میں گہرائی تک جڑ پکڑ کر، ایسا خوف اور شک کا ماحول پیدا کر دیتی ہے کہ کوئی بھی کچھ کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔
ہر شخص ڈرتا ہے کہ دوسرا اس پر اعتراض نہ کرے۔ جب یہ کیفیت انفرادی سطح سے اجتماعی سطح تک پھیل جاتی ہے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
آہستہ آہستہ معاشرہ گروہی کاموں کے کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے اور تعاون و ہمدردی کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔
ہر کوئی یہی انتظار کرتا رہتا ہے کہ دوسرا آگے بڑھے اور کام کرے، اور نتیجے کے طور پر اجتماعی مسائل بے حل رہتے ہیں۔
اس برائی کا تیسرا اثر یہ ہے کہ معاشرے کی اجتماعی خوبیاں اور اخلاقی اقدار ماند پڑ جاتی ہیں۔
ایسے ماحول میں جہاں تنقید اور عیب جوئی عام ہو، اقدار بدل جاتی ہیں، نیکیاں فراموش ہو جاتی ہیں اور انسانی خوبیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ یہ سب اسی تحییر اور تحیّر کی سوچ کے اثرات ہیں۔
· تحییر اور تنقید کے انفرادی اثرات و نتائج
انفرادی سطح پر بھی اس برائی کے اثرات بہت سنگین ہیں۔ ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ انسان خود اسی چیز میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کا عیب وہ دوسرے پر نکالتا ہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "مَن عَیَّرَ أَخاهُ بِذَنبٍ قَد تابَ مِنهُ لَم یَمُتْ حَتّی یَعمَلَهُ"؛ یعنی جس شخص نے اپنے مؤمن بھائی کو ایسے گناہ پر ملامت کی جس سے وہ توبہ کر چکا تھا، وہ مرتا نہیں ہے یہاں تک کہ خود وہی گناہ کرے۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو زندہ رکھتا ہے یہاں تک کہ وہ خود وہی عمل کرے جس سے اس مؤمن نے توبہ کی تھی، اور خود اسی گناہ میں گرفتار ہو جائے۔
ایک اور جگہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "التائب من الذنب کمن لا ذنب له"؛ یعنی جو شخص گناہ سے توبہ کر لے، وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے کوئی گناہ سرے سے کیا ہی نہیں۔
لہٰذا، اگر میں کسی ایسے شخص پر اعتراض کروں جو اپنے گناہ سے توبہ کر چکا ہے، تو درحقیقت میں نے ایسے انسان پر عیب لگایا ہے جو اللہ کے نزدیک بے گناہ ہے۔ ایسا کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور حق الناس کی مثالوں میں سے ہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے مؤمن بھائی کو اس کے ایسے گناہ پر ملامت کرے جس سے وہ توبہ کر چکا ہے، وہ زندہ رہتا ہے یہاں تک کہ خود وہی گناہ کرے، سوائے اس کے کہ وہ پہلے توبہ کر لے، اس مؤمن کی رضامندی حاصل کر لے اور اس سے معافی مانگ لے۔
یہاں توبہ صرف "استغفراللہ" کہہ دینے کا نام نہیں ہے؛ کیونکہ یہاں حق الناس ہے اور اس کا تعلق کھلے عام توبہ اور عملی اصلاح سے ہے۔
امام صادق علیہ السلام نے بھی فرمایا: "مَن عَیَّرَ مُؤمِناً بِذَنبٍ لَم یَمُتْ حَتّی یَرتَکِبَهُ"؛ یعنی جس شخص نے کسی مؤمن کو کسی گناہ پر ملامت کی، وہ مرتا نہیں ہے یہاں تک کہ خود وہی گناہ کرے۔ اس کے بعد فرمایا: "مؤمن خدا کی عزت ہے۔" یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے برگزیدہ افراد کسی کو مؤمن کی بے حرمتی کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
حضرات معصومین علیہم السلام کے مقام کا نزول، جو کامل نفوس ہیں، مؤمنوں کی دستگیری اور ان کے دفاع کے لیے ہے تاکہ مؤمن زمین پر غریب اور بے یار و مددگار نہ رہے۔
لہٰذا، مؤمن کی تحقیر کوئی مذاق نہیں ہے اور خدا اور اس کے نمائندے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک اور حدیث میں آیا ہے: "مَن عَیَّرَ مُؤمِناً بِشَیءٍ لَم یَمُتْ حَتّی یَرتَکِبَهُ"
یعنی جس شخص نے کسی مؤمن پر کسی چیز کا عیب لگایا — خواہ وہ عیب گناہ ہی کیوں نہ ہو، بلکہ محض اس کی ذاتی پسند ہو، مثلاً اس کے لباس، چال ڈھال یا بات کرنے کے انداز پر، وہ مرتا نہیں ہے یہاں تک کہ خود وہی کام کرے۔
یہ ان موارد پر بھی صادق آتا ہے جن میں کوئی گناہ سرے سے شامل ہی نہیں ہوتا، بلکہ محض وہم، ذاتی پسند یا مذاق کی بنیاد پر ہم کسی کی تحقیر کرتے ہیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: حتیٰ کہ اگر وہ مؤمن اس عمل کا مرتکب ہوا ہی نہ ہو، لیکن کوئی شخص نیتِ اذیت، پکڑدھکڑ یا تحقیر کے طور پر اسے عیب کے طور پر پیش کرے، تو اللہ تعالیٰ اسے اسی رویے میں مبتلا کر دیتا ہے۔
نتیجے کے طور پر، "تنقید" اور "تحییر" نہ صرف اخلاق کے خلاف ہے، بلکہ شرع کی نظر میں بھی گناہ شمار ہوتا ہے، خاص طور پر اگر وہ کسی ایسے مؤمن کے متعلق ہو جو دین اور ایمان سے وابستہ ہے۔
ہم میں سے بہت سے لوگ عادتاً تنقید کے عادی ہو چکے ہیں، حالانکہ پیغمبر رحمت اور ائمہ معصومین علیہم السلام نے خبردار کیا ہے کہ ایسے رویے کے سنگین نتائج ہیں۔
یہ جان لینا چاہیے کہ بعض اوقات اسی طرح کی عیب جوئیوں کے ذریعے انسان وہ نعمت جو خدا نے اسے عطا کی ہے، خود ہی اپنے سے سلب کر لیتا ہے۔
وہ نعمت جو شاید کسی صاحبِ دل کی دعا کی وجہ سے اسے ملی تھی۔ وہ بے بنیاد وہم اور فیصلوں کے ذریعے اسی الہی عنایت کو ضائع کر دیتا ہے۔
اگر کسی معاشرے میں "تحییر"، "تحیّر"، "پکڑدھکڑ" اور "ملامت و سرزنش" بڑھ جائے، تو اجتماعی اعتماد اور عزتِ نفس کم ہو جاتی ہے، معاشرہ اجتماعی کاموں میں ناکام ہو جاتا ہے اور اجتماعی خوبیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔
انفرادی سطح پر بھی، جو شخص بلا وجہ اور غیر شرعی طور پر دوسروں پر اعتراض کرے اور ان کی تحقیر کرے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امام صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق، بلا شک وہ اسی عیب میں مبتلا ہو گا جو اس نے دوسرے پر لگایا تھا؛ خواہ وہ عمل واقعی غلط ہو، یا محض اس کا وہم ہو۔









آپ کا تبصرہ