حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین رضا محمدی شاہرودی نے ایک سوال و جواب کے سلسلے میں "غیبت کے ذریعے دوسروں کا حق ضائع ہونے" کے موضوع پر گفتگو کی، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
❓ سوال:اگر ہم نے کسی کی غیبت کی ہو تو اس کا حق کیسے ادا کریں اور اس گناہ کی تلافی کیسے ممکن ہے؟
جواب: غیبت اسلام میں گناہانِ کبیرہ میں سے ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیث میں اس کی سخت مذمت کی گئی ہے اور اس پر عذابِ الٰہی کی وعید سنائی گئی ہے۔
بہت سے گناہ انسان کی زندگی میں کبھی کبھار ہی پیش آتے ہیں۔ مثلاً کسی کا مال چرانا، کسی کی دیوار گرانا، یا شراب نوشی لیکن غیبت ایک ایسا گناہ ہے جو بہت آسانی سے انجام پا جاتا ہے، اور افسوس کہ آج کے معاشرے میں اس کی قباحت کا احساس بہت کم رہ گیا ہے، حالانکہ یہ گناہ بھی دیگر بڑے گناہوں جتنا ہی سنگین ہے۔
غیبت کی تلافی کے لیے چار بنیادی مرحلے ہیں:
🔹 پہلا مرحلہ: سچی توبہ
سب سے پہلے انسان کو سچی توبہ کرنی چاہیے۔ یعنی دل سے ندامت محسوس کرے، اپنے کیے پر پشیمان ہو اور پختہ عہد کرے کہ دوبارہ کبھی اس گناہ کی طرف نہیں لوٹے گا۔
روایات میں آیا ہے کہ غیبت کرنے والا شخص اگر توبہ نہ کرے تو سب سے پہلے جہنم میں داخل ہوگا، اور اگر توبہ کر لے تو سب سے آخر میں جنت میں داخل کیا جائے گا۔
🔹 دوسرا مرحلہ: غیبت کے اثرات کو زائل کرنا
اگر غیبت کی وجہ سے کسی کو نقصان پہنچا ہو—چاہے وہ مالی، اخلاقی، آبرو سے متعلق یا خاندانی اعتماد کا نقصان ہو تو انسان کو اپنی حد تک ان اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مثلاً اگر کسی نے کسی عورت کی برائی کر کے اس کی ساس کے دل میں بدگمانی پیدا کر دی، تو اب اسے چاہیے کہ اس عورت کی اچھی باتیں بیان کرے، تاکہ اس کا مقام اور اعتماد بحال ہو جائے۔
🔹 تیسرا مرحلہ: نیکیوں کا ہدیہ دینا
غیبت کی تلافی کے لیے یہ بھی بہتر ہے کہ غیبت کرنے والا شخص، اس کے لیے نیک اعمال انجام دے جس کی غیبت کی گئی تھی۔
مثلاً: صدقہ دینا، نمازِ مستحب پڑھنا،قرآن کی تلاوت یا زیارت کرنا اور ثواب اسے بخش دینا۔
یہ سب کام اس نیت سے ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش کرے جس کا حق پامال ہوا۔
اگر بعد میں وہ شخص جان لے کہ اس کے لیے نیکیاں کی گئی ہیں، تو اس کے دل میں نرم گوشہ پیدا ہوگا اور شاید وہ راضی ہو جائے۔
🔹 چوتھا مرحلہ: عذرخواہی اور حلالیت طلب کرنا
اگر غیبت کی بات اس شخص کے کانوں تک پہنچ چکی ہے اور اسے دکھ یا تکلیف ہوئی ہے، تو ضروری ہے کہ غیبت کرنے والا جا کر معذرت کرے اور حلالیت طلب کرے۔
لیکن اگر غیبت کی بات ابھی اسے معلوم نہیں ہوئی، اور جا کر بتانے سے نیا فتنہ یا فساد پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، تو ایسی صورت میں سامنے جا کر معافی مانگنا ضروری نہیں۔
اصل مقصد یہ ہے کہ اس کے دل کا حق ادا ہو جائے اور تعلقات کی خرابی دور ہو۔
✳️ خلاصہ:
غیبت کی تلافی کے لیے چار مراحل یہ ہیں:
1. سچی توبہ کرنا
2. غیبت کے اثرات کو دور کرنا
3. غیبت شدہ شخص کے لیے نیک اعمال انجام دینا
4. عذرخواہی اور حلالیت طلب کرنا
اسی کے ساتھ ساتھ، خود کے لیے اور اس شخص کے لیے استغفار کرنا بھی نہایت مؤثر ہے،کیونکہ دعا اور نیک نیتی سے دل صاف ہوتے ہیں اور اللہ کی رحمت شاملِ حال ہو جاتی ہے۔
یہ چار مرحلے انسان کو نہ صرف غیبت کے گناہ سے پاک کرتے ہیں،بلکہ معاشرے میں اعتماد، محبت اور اخوت کو بھی بحال کرتے ہیں۔









آپ کا تبصرہ