۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024

حوزہ/ کیا انسان کو اس کے اچھے اور برے اعمال کی سزا آخرت میں ملے گی یا پھر انسان اپنے اعمال کا نتیجہ دنیا میں بھی دیکھے گا؟

حوزہ نیوز ایجنسی اپنے قارئین کی خدمت میں قیامت کا سوال کے عنوان سے ایک علمی متن پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے۔

سوال: کیا انسان کو اس کے اچھے اور برے اعمال کی سزا آخرت میں ملے گی یا پھر انسان اپنے اعمال کا نتیجہ دنیا میں بھی دیکھے گا؟

ہمارے اچھے اور برے اعمال کے دو اثرات ہوتے ہیں: اثرِ وضعی اور اثرِ تکلیفی

اثرِ تکلیفی؛ یعنی یہ وہ چیز ہے جو انسان کے نامۂ اعمال میں درج ہوتی ہے اور قیامت کے دن اس کے مطابق انسان کو جزاء یا سزا دیا جائے گا۔

اثرِ وضعی؛ یعنی انسان کے عمل کا اثر اس کی روح، ماحول، اولاد اور اس کی تقدیر پر پڑتا ہے۔ اگر کسی شخص نے گناہ کیا اور اسی دنیا میں کوئی آفت آئی کہ جس کا تعلق اس کے گناہ سے ہے، یعنی اس کی زندگی میں ہی اس گناہ کا اثر ظاہر ہوا، لیکن وہ گناہ پھر بھی اس کے نامۂ اعمال میں درج رہے گا اور اگر وہ توبہ نہ کرے تو آخرت میں بھی اس گناہ کی سزا ضرور ملے گی۔

نیک اعمال کے بارے میں بھی انسان اپنے عمل کا نتیجہ دنیا میں دیکھتا ہے اور آخرت میں اس کا اجر بھی پاتا ہے۔ البتہ اگر وہ ریا و منت سے اپنے نیک اعمال کو ضائع نہ کرے۔

سوال: کیا خدا کسی ایسے شخص کو جنت میں داخل ہونے دے گا جس کی ساری زندگی گناہ میں گزری ہو؟ اس صورت میں گناہگاروں اور صالح بندوں میں کیا فرق ہوگا؟

خداوند تعالیٰ زندگی بھر گناہ میں مبتلا رہنے والے شخص کو جنت میں نہیں لے جائے گا، بلکہ جنت میں جانے کیلئے کچھ شرائط ہیں۔

جو لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہوں اور نیک عمل انجام دیتے ہوں، اگر ان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو ان گناہوں سے توبہ کرنے کی صورت میں یا برزخ کے عذاب کے بعد ممکن ہے وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ البتہ، خدا کسی ایسے شخص کی توبہ قبول کرتا ہے جو واقعی اپنی غلطی پر نادم ہوتا ہے اور اس کی تلافی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

حقیقی توبہ صرف زبان سے معافی مانگنے کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک اندرونی انقلاب اور ایک بنیادی تبدیلی کا نام ہے۔ اسی لئے قرآن کی جن آیات میں توبہ کا حکم دیا گیا ہے، وہاں پر اصلاح کی قید نیز مذکور ہے۔ مثلاً: إِلاَّ الَّذینَ تابُوا وَ أَصْلَحُوا».

علامۂ طباطبائی رح فرماتے ہیں: توبہ اس وقت قبول ہوتی ہے جب وہ واقعی اور حقیقت پر مبنی ہو، کیونکہ جو شخص واقعی خدا کی طرف لوٹنا اور اس کی پناہ چاہتا ہے، تو وہ کبھی بھی اپنے آپ کو گناہ کی گندگی سے آلودہ نہیں کرے گا، یعنی توبہ کا حقیقی معنی یہ ہے نہ کہ صرف ہم یہ کہیں: أتوبُ إلی الله اور دل میں وہی ہو جو آلودہ تھا، مثلاً اگر سرزد شدہ گناہ حقوق العباد سے متعلق ہو تو ہمیں اللہ کے اس حق کو ادا کرنا چاہیئے، اگر کسی کا حق (مال) کھایا ہے تو اسے اس کے مالک کو واپس کرنا چاہیئے اور اگر حق دار فوت ہو گیا ہے تو اسے اس کے ورثاء تک پہنچانا چاہیئے، اگر مالک کو نہ جانتے ہوں تو اس کی نیابت میں صدقہ دینا چاہیئے اور اگر کسی کی آبروریزی کی ہے تو اس سے معافی مانگنی چاہیئے اور اسے راضی کرنا چاہیئے اور اگر قصاص یا دیت ہے تو اپنے آپ کو قانون کے سامنے پیش کرنا چاہیئے اور دوسرے گناہوں سے معافی مانگنی چاہیئے۔

مذکورہ بالا باتوں کے علاوہ توبہ کرنے والے کو اپنے ماضی کے بارے میں نادم ہونے کے ساتھ دوبارہ کبھی گناہ نہ کرنے کا عزم کرنا چاہیئے اور غم و اندوہ کے ساتھ، جنت میں داخل ہونے کیلئے حرام سے اس کے جسم میں داخل ہونے والے خون و گوشت کو ختم کرنا چاہیئے۔

اس کے علاوہ، جنتیوں کے مختلف درجات ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی ملاقات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ایسا بہت کم اتفاق ہوتا ہے کہ کوئی شخص ساری زندگی گناہ کرتا رہے اور اچانک توبہ کر کے خدا کی جانب لوٹ آئے، جب تک کہ اس میں واپسی اور حقیقی توبہ کا زمینہ نہ ہو، لیکن بعض وجوہات کی بنا پر مدتوں تک اس کا ادراک نہ ہو۔ اگر ایسا شخص حقیقی توبہ کر لے تو وہ رحمتِ الٰہی سے بھی مستفید ہو سکتا ہے، کیونکہ رحمتِ الٰہی ہر چیز اور شخص پر یکساں ہوتی ہے، البتہ؛ ایسی تبدیلی زندگی کے آخری لمحات میں ان تمام شاندار نتائج کے ساتھ حاصل نہیں ہوتی۔

قرآن مجید اس بارے میں فرماتا ہے: إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللَّهِ لِلَّذینَ یَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهالَةٍ ثُمَّ یَتُوبُونَ مِنْ قَریبٍ فَأُولئِکَ یَتُوبُ اللَّهُ عَلَیْهِمْ وَ کانَ اللَّهُ عَلیماً حَکیماً. وَ لَیْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذینَ یَعْمَلُونَ السَّیِّئاتِ حَتَّی إِذا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قالَ إِنِّی تُبْتُ الْآن. توبہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو جہالت کی وجہ سے برے کام کرتے ہیں اور اس کے بعد جلدی سے توبہ کر لیتے ہیں۔ خدا ایسے لوگوں کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے اور وہ دانا و حکیم ہے۔ اور برے کام کرنے والے لوگوں میں سے جب کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں۔ (سورۂ نساء 17و 18)

موت کے وقت توبہ کرنے کی دلیل یہ ہے کہ گنہگار موت کو قریب سے دیکھتا ہے اور آخرت کے احوال اور عذاب کا مشاہدہ کرتا ہے۔ درحقیقت وہ توبہ اس لئے کرتا ہے، کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ موت اور جزا حق ہے۔

دوسری طرف، توبہ ایک خاص وقت تک محدود نہیں ہے تاکہ جب بھی کوئی شخص خدا کی بارگاہ میں واپس آنے اور اپنے گناہ کو چھوڑنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو اسے معافی کی امید ہوتی ہے۔ اگر توبہ کے دروازے بند ہو جائیں تو گناہ چھوڑنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی، لیکن اگر گناہگار یہ جانے کہ خدا کی طرف لوٹ کر اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کر کے خدا اس کی توبہ قبول کرے گا، تو وہ سعادت اور کمال کے قریب اور انحراف اور غلطی سے دور ہو جائے گا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .