حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، حضرت آیت اللہ مکارم شیرازی نے "رمضان؛ توبہ اور استغفار کا موقع" کے موضوع پر جاری اپنی تحریر میں کہا: توبہ کی حقیقت خدا کی نافرمانی سے اس کی اطاعت کی طرف لوٹنا ہے جو گزشتہ اعمال پر ندامت اور پشیمانی سے پیدا ہوتی ہے۔ اس پشیمانی کا لازمہ یہ ہے کہ آئندہ کے لیے گناہ ترک کرنے کا ارادہ اور گزشتہ کی تلافی کی کوشش کی جائے۔
انہوں نے کہا: قرآن کریم میں خداوند حکیم فرماتا ہے: "قُلْ یا عِبادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلی أَنْفُسِهِمْ! لاتَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعاً، إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ" یعنی کہہ دو! اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر اسراف اور زیادتی کی ہے! خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بے شک خدا تمام گناہوں کو بخشنے والاہے، بے شک وہ بخشنے والا، انتہائی مہربان ہے۔"
اس مرجع تقلید نے مزید کہا: اس آیہ مبارکہ کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن مجید کی امید بخش ترین آیات میں سے ہے، جو تمام گناہگاروں کے لیے پیغام رحمت رکھتی ہے۔ اس کی وسعت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: "قرآن میں اس آیت سے زیادہ وسیع کوئی آیت نہیں ہے۔"
انہوں نے کہا: جب رمضان برکت، رحمت اور مغفرت کے ساتھ آتا ہے اور اس کے لمحات سب سے بہترین لمحات ہوتے ہیں اور اس میں دعا قبول ہوتی ہے تو یہ استغفار اور توبہ کا بہترین موقع ہے۔ اگرچہ توبہ ہمیشہ ضروری ہے مگر "توبہ کی بہار" ماہ مبارک رمضان ہے۔
حضرت آیت اللہ مکارم شیرازی نے کہا: توبہ کا اصل معنی گناہ سے واپسی ہے، جب یہ انسان کی طرف نسبت دی جائے، لیکن قرآن اور اسلامی روایات میں بارہا خدا کی طرف بھی توبہ کی نسبت دی گئی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رحمت کی طرف پلٹنا، وہی رحمت جو گناہ کے سبب گناہگار سے دور ہوگئی تھی، لیکن جب بندہ عبادت اور بندگی کی راہ پر پلٹ آتا ہے تو خدا کی رحمت اس کی طرف لوٹ آتی ہے۔









آپ کا تبصرہ