۳۰ شهریور ۱۴۰۳ |۱۶ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 20, 2024
عطر قرآن

حوزہ/ اس میں ایک اہم یاد دہانی ہے کہ انسان کو اپنے گناہوں سے فوراً توبہ کرنی چاہیے اور اس عمل کو موت کے قریب تک مؤخر نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام میں توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے، لیکن اس کے لئے اخلاص اور بروقت عمل ضروری ہے۔ آخری لمحات کی توبہ محض موت کے خوف کے باعث کی جاتی ہے، جو قابل قبول نہیں ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

بسم الله الرحـــمن الرحــــیم

وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ ۚ أُولَٰئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا. سورۃ النساء، آیت ۱۸

ترجمہ: اور توبہ ان لوگوں کے لئے نہیں ہے جو پہلے برائیاں کرتے ہیں اور پھر جب موت سامنے آجاتی ہے تو کہتے ہیں کہ اب ہم نے توبہ کرلی اور نہ ان کے لئے ہے جو حالاُ کفر میں مرجاتے ہیں کہ ان کے لئے ہم نے بڑا دردناک عذاب مہّیا کر رکھا ہے۔

موضوع:

توبہ کی قبولیت کی شرائط

پس منظر:

یہ آیت توبہ کی اہمیت اور اس کے قبول ہونے کی شرائط کو بیان کرتی ہے۔ اسلام میں توبہ ایک اہم عبادت اور انسان کی اصلاح کا ذریعہ ہے، مگر اس کے لئے کچھ شرائط ہیں جنہیں پورا کرنا ضروری ہے۔ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو آخری لمحات میں توبہ کرتے ہیں یا کفر کی حالت میں مر جاتے ہیں۔

تفسیر:

1. توبہ کی شرائط: توبہ کی قبولیت کے لئے ضروری ہے کہ انسان گناہ چھوڑ کر حقیقی ندامت اور اصلاح کی نیت کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرے۔ لیکن موت کے وقت، جب انسان کو اپنی موت کا یقین ہو جائے، اس وقت کی گئی توبہ قابل قبول نہیں ہوتی، کیونکہ اس لمحے میں توبہ کے پیچھے حقیقی ندامت نہیں بلکہ موت کا خوف ہوتا ہے۔

2. کافروں کی موت: یہ آیت ان لوگوں کے لئے بھی ایک وارننگ ہے جو کفر کی حالت میں مر جاتے ہیں۔ ان کے لئے آخرت میں کوئی معافی یا راحت نہیں ہے، بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے۔

3. موت کے قریب کی توبہ: جب انسان کی زندگی کا اختتام قریب ہوتا ہے اور وہ موت کی آہٹ سن لیتا ہے، اس وقت کی توبہ اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتی۔ اس سے مراد یہ ہے کہ توبہ کا وقت زندگی میں اصلاح اور ندامت کے ساتھ کیا جانا ضروری ہے۔

اہم نکات:

• حقیقی توبہ کا وقت: موت سے پہلے توبہ کا عمل ہونا ضروری ہے۔ موت کے وقت، جب انسان کا دل دنیاوی امور سے ہٹ چکا ہو، توبہ قبول نہیں ہوتی۔

• مسلسل گناہوں کی توبہ: مسلسل گناہوں میں مبتلا رہ کر، توبہ کو موت کے قریب تک مؤخر کرنا توبہ کے اصولوں کے منافی ہے۔

• کفر کی حالت میں موت: بکافر وہ شخص ہے جو آخرت کے عذاب سے بچنے کی امید نہ رکھے، اور جو کفر پر مرے، اس کے لئے آخرت میں سخت عذاب تیار ہے۔

نتیجہ:

آیت 18 سورۃ النساء ایک اہم یاد دہانی ہے کہ انسان کو اپنے گناہوں سے فوراً توبہ کرنی چاہیے اور اس عمل کو موت کے قریب تک مؤخر نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام میں توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے، لیکن اس کے لئے اخلاص اور بروقت عمل ضروری ہے۔ آخری لمحات کی توبہ محض موت کے خوف کے باعث کی جاتی ہے، جو قابل قبول نہیں ہے۔

•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•

تفسیر راہنما، سورہ النساء

تبصرہ ارسال

You are replying to: .